کیا پاناما کیس کا فیصلہ آنے میں قدرے دیر نہیں ہوگئی ؟ مانا کہ یہ بہت اہم ایشو ہے، اس کے ساتھ اسٹیک بہت بڑے ہیں،ایک وزیر ِاعظم اور اُن کی فیملی کو بری قرار دیا جاسکتا ہے ، اور اگر ایسا ہوا تو ذرا تصور کریں کہ قوم کے مورال پر کیا اثر پڑے گا۔ یا اگر فیصلہ اُن کے خلاف آیا اور وہ قصوروار پائے گئے تو اس سے ایک سیاسی بھونچال سا آجائے گا، حکومت سراسیمگی کا شکار ہوجائے گی، حکمران جماعت، پی ایم ایل (ن)کی صفیں برہم ، اور اس عالم میں اگلے انتخابات سر پر ہوں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔
ہم میں سے کچھ لوگ یہ امیدلگائے ہوئے تھے کہ جج صاحبان مارچ کے وسط میں فیصلہ سنا دیں گے ۔ میں نے ایک کالم میں ''Ides of March‘‘ کا ذکر کیا تھا۔ پھر کہا گیا کہ نہیں، جج صاحبان یوم ِ پاکستان، 23 مارچ کے گزرنے کا انتظار کررہے ہیں۔ یقینا اس سے پہلے ملک کسی افراتفری کا شکار نہیں ہونا چاہیے تھا، اور ہم نے اس دلیل پر یقین کرلیا ۔لیکن اب تو اپریل کا وسط بھی گزرچکا ، گندم کی کٹائی کا موسم شروع، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہمارے پانچ جج صاحبان ( Five Horsemen of the Apocalypse) ابھی تک کام تمام نہیں کرپائے ۔ بائبل میں چار گھڑسوار جنگ ، قحط، فتح اور موت ہیں۔ پاکستانی حالات میں پانچویں گھوڑے کا بھی اضافہ کرلیں، جیسا کہ بے عقلی یا معقولیت سے دستبرداری ۔ کئی حوالوں سے ہم جذباتی رویوں اور بے سروپا تخیلات کا حامل ایک بے عقل، بلکہ بیمار معاشرہ بن چکے ہیں۔ ہماری اس بیماری کا علاج کون کرے گا؟ پاکستان ایک نارمل معاشرہ کیسے بن سکتا ہے ؟
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، منصور علی شاہ صاحب نے انصاف کی فراہمی کے لیے ایک نسخہ تجویز کیا ہے ۔ جونیئر ججوں سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے نصیحت کی کہ وہ ''دلیرانہ فیصلے ‘‘کریں چاہے کسی کی ناراضی کیوں نہ مول لینی پڑے۔ بہت اچھی بات ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ جج حضرات، چاہے سینئر ہوں یا جونیئر، دلیری کے لوازمات کہاں سے حاصل کریں ؟ اُن کے سامنے مبینہ دہشت گردوں کو پیش کیا جاتا ہے اور ججوں کو اپنی جان کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ کو مجبور ہوکر فوجی عدالتوں کی تجویز پیش کرنا پڑی۔ اس پر سول سوسائٹی کے کارکن اور بار کے جوشیلے وکلا چلّا اُٹھے کہ بنیادی حقوق اور شہری آزادیاں خطرے میں ہیں۔
کریمنل جسٹس سسٹم فعال نہیں ہے ۔ عدالتیں کیسز کو انصاف کے ترازو پر تولنے کی بجائے التوا کی سولی پر لٹکا دیتی ہیں، اور یہ التوا دہشت گردوںاور مجرموں کو راس آتا ہے ۔اس تاخیر میں بار کے ممبران کا بھی عملی کردار ہے لیکن وہ اس بات کے حق میں نہیں کہ کوئی اس خلا کو پُر کرے ۔ آج جج حضرات اپنے امور میں آزاد ہیں، وہ ترقی کے لیے کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ۔ درحقیقت ہماری تاریخ میں عدلیہ اتنی آزاد کبھی بھی نہ تھی ، لیکن اس آزاد ماحول میں کیا انصاف کی فراہمی زیادہ موثر اور تیز تر ہوگئی ہے ؟وکلا کی عظیم تحریک کے متعلق ہم رجائیت پسند کہا کرتے تھے کہ اس نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قانون کی حکمرانی کی بنیاد رکھتے ہوئے ایک ایسے سنہرے دور کا آغاز کردیاہے جس میں انصاف اور سچائی کا علم بلند رہے گا۔ چاہے اس تحریک سے یہ ارفع مقاصد حاصل ہوئے یا نہیں، اس کے دونتائج بہرحال فوری طور پر سامنے آئے ۔ اپنی طاقت کا احساس ہونے پر وکلا کی صلاحیتیں قانون کی بجائے مارشل آرٹس کے میدان میں نکھرنے لگیں۔ دوسرا یہ کہ اُن کی فیس بھی بڑھ گئی ۔ آج پاکستان میں انصاف، وہ انصاف جو عدالتوں نے فراہم کرنا ہے ، عام وسائل رکھنے والے افراد کی پہنچ سے باہر ہوچکا ہے ۔ حتیٰ کہ ایک درمیانے درجے کے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کے لیے بھی آپ کو معقول وسائل درکارہوتے ہیں۔
وہ افراد جو اپنی مرضی کے وکلا کی خدمات حاصل کرنے کی سکت رکھتے ہیں، وہ اُن کی قانونی مہارت اور علم نہیں بلکہ عدالت میں اُن کا انداز دیکھتے ہیںکہ وہ کتنا ہنگامہ برپا کرسکتے ہیں؟کس حد تک دھونس دھمکی سے کام چلا سکتے ہیں ، یا عدالت کو دبائو میں کیسے لاتے ہیں؟ آج وکیل کا انتخاب کرنے سے پہلے ان معروضات کا خیال رکھنا ہوتا ہے ۔ چنانچہ یہاں یہ سوال انتہائی اہم اور فوری نوعیت کا بن جاتا ہے کہ ایسا طاقت کا نسخہ کہاں سے لایا جائے جوصرف ججوں کو ہی نہیں، بلکہ تفتیش کرنے والے پولیس اہل کاروںسے لے کر استغاثہ اور آخرکار ججوں تک تمام کریمنل جسٹس سسٹم کو حوصلہ مند بنا دے ؟ اس سوال کا جواب آسان نہیں۔
ہمارا معاشرہ ظلم اور ناانصافی پر مبنی ہے ۔اس میں طاقتور اور استحقاق یافتہ طبقے کو اختیار حاصل ہے جبکہ کمزور اور لاچار طبقے بے بسی کی تصویر ہیں۔ اس ماحول میں انصاف میں کس کی دلچسپی ہوگی ؟ مشال خان کے والد کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ عدالتوں کا بہت احترام کرتے ہیں لیکن اُنہیںوہاں سے انصاف ملنے کی توقع نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک جنونی ہجوم کے ہاتھوں اپنے بیٹے کی ہلاکت کے دلگداز کیس کا فیصلہ فوجی عدالت سے چاہتے ہیں۔ اس پر سول سوسائٹی کے کارکن کیا کہیں گے ؟دلیر ججوں کی توضرورت ہے ، لیکن اس سے بھی بڑھ کر ، دلیر شہری بھی درکار ہیں۔ ہم ایک بزدل معاشرہ بن چکے ہیں۔ کوئی بھی توہین کاالزام لگادے تو پولیس افسران سے لے کر عام شہری تک، ہر کسی کو سانپ سونگھ جاتا ہے ۔ کوئی بھی یہ جاننے کی زحمت نہیں کرتا کہ کیا اس الزام کا کوئی جواز ہے ؟کوئی آسیہ بی بی ہو یا رمشا مسیح یاقصور میں اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والا مسیحی جوڑا یا گوجرہ ، گوجرانوالہ یا جوزف کالونی لاہور، توہین کا الزام لگتے ہی حوصلہ اور معقولیت ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور خوف اور جنونیت کے سائے گہرے ہونے لگتے ہیں۔
کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن ماتم گساری کا کیا فائدہ ؟ کیا اس سے کچھ بدل جائے گا؟ ہوسکتا ہے کہ ہم انتہا پسندی کی مذمت کریںلیکن یہ بہرحال ایک متحرک جذبہ ہے ۔ یہ بھی نفرت کی طرح جامد اور ساکت نہیں ہوتا۔ داعش ایک انتہا پسندگروہ ہے ، طالبان انتہا پسند ہیں، اُن کے کارکن اور جنگجو اپنے عقائد، جو بھی ہیں، کے لیے مرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ وہ اتنے خطرناک ہیں۔ دوسری طرف ہم ساکت اور جامد، ایک بے جان معاشرہ ہیں۔ ہمارے لوگ، جیسا کہ عبدالولی خان یونیورسٹی کا مشتعل ہجوم، صرف کمزور اور لاچار پر ہی تشدد کرکے اسے ہلاک کرسکتے ہیں۔ ذرا اُن سے کہیں کہ کسی کمزور اور لاچار کا مصیبت میں ہاتھ تھامیں تو ان کی شکل دیدنی ہوگی۔
عبدالولی خان یونیورسٹی کے پاس باقی رہنے کااب کوئی جواز نہیں ہے۔ اگر اس کی تعلیم کا نتیجہ اس طرح کے طلبہ ہیں (ذرا ویڈیو دیکھیں کہ کس طرح جنونی انداز میں وہ مشال پر یا اُس کے بے جان جسم پر تشدد کررہے ہیں)تو بہتر ہے کہ اس ''علمی درس گاہ ‘‘ کو بند کردیا جائے ۔ اگر یہ مائو کا چین ہوتا تو اس یونیورسٹی کے طلبہ اور وائس چانسلر سے لے کر نیچے تک ، تمام اساتذہ کو اگلے دس سال کے لیے دوبارہ تعلیم حاصل کرنے اور سخت محنت مشقت کرنے کے لیے کیمپ بھیج دیا جاتا۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگاکیونکہ ہماری ریاست میں عقیدے کی سربلندی کے لیے جنونی ہجوم کے پاس کسی کو بھی ہلاک کرنے کا لائسنس ہوتا ہے ۔
اب واپس پہلے سوال پر، ہمارے جج صاحبان کس کشمکش میں ہیں؟اُن کا فیصلہ کب آئے گا؟ طویل انتظار کب ختم ہوگا؟ اس پر بہت سی چیزوںکا دارومدار ہے ۔ سادہ سے الفاظ میں، ایک طرف یہ فیصلہ قنوطیت کا غلبہ مزید گہرا کردے گا،اور لوگوں کی مایوسی بڑھ جائے گی کہ اس ملک میں کچھ بھی تبدیل نہیںہوگا یا پھر یہ دوسری طرف حکمران طبقے کے قدموں تلے سے زمین نکال کر حقیقی تبدیلی لاتے ہوئے ملک کی قسمت بدل سکتا ہے ۔ ترکی میں ہونے والے حالیہ ریفرنڈم نے ترکی کے مستقبل کا فیصلہ کردیا ہے ۔ ہمارے ہاںملک کی قسمت کا فیصلہ عدالت میں ہونا ہے ۔ ہم امیدہی کرسکتے ہیں کہ عدالت کا فیصلہ انصاف پر مبنی اور عوام توقعات کے مطابق ہوگا۔