پاکستان کی توہین ریاض کانفرنس میں نہیں ہوئی۔ اس کی اہانت اس سے پہلے ہی ہو چکی تھی جب جنرل راحیل شریف نے گھوسٹ فوجی الائنس کی کمان سنبھالنے کی پیش کش قبول کی۔ کاغذ پر موجود اس فوجی الائنس، جسے سعودی شاہی خاندان منظم کر رہا ہے، کا ایران کے خلاف محاذ قائم کرنے کے سوا اور کوئی مقصد نہیں۔
جنرل راحیل شریف بلاشبہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے نامور آرمی چیف تھے، اور یہاں وہ طالبان کے خلاف کامیاب جنگ کے نتیجے میں حاصل ہونے والی تمام تر عزت افزائی اور تحسین آمیز توجہ کو دائو پر لگاتے ہوئے سعودی پرچم تلے خدمات سرانجام دینے کے لیے تیار ہوگئے۔ اُن کی تقرری کا اور کیا مطلب ہے؟ وہ سعودی شاہی خاندان کے تابع ہوکر فرائض سرانجام دیں گے۔ یہی پاکستان کی حقیقی ہتک تھی۔ اس سے پاکستان کے بارے میں عرب دنیا میں پھیلے ہوئے اس تاثر کو تقویت ملی کہ یہ قوم مناسب معاوضے کے عوض ایسی خدمات سرانجام دینے کے لیے تیار رہتی ہے۔
افسوس، یہ ہے ہمارا وصف۔ ہمارے رہنما بھی ملک کے لیے آسانیاں پیدا نہیںکرتے کیونکہ جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو اُن کا طرزِ عمل اس منفی تاثر کو مزید اجاگر کرتا ہے۔ جنرل ضیا امریکیوں اور سعودیوں، دونوں کے کاسہ لیس تھے۔ جنرل مشرف امریکیوں کے کاسہ لیس تھے اور وہ سعودیوں سے رقم وصول کرنے میں بھی کوئی عار نہیں سمجھتے تھے۔ سعودی فرماں روا شاہ عبداﷲ نے اُنہیں رقم گفٹ کی جس سے جنرل صاحب کی لندن جائیداد خریدی گئی۔ یہاں یہ کہنا شاید ضروری ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو مختلف تھے۔ وہ کسی کے کاسہ لیس نہ تھے، بلکہ قومی وقار کا انتہائی احساس رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عرب دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے۔ سادات، بومیدین، قذافی، عرفات، شیخ زید، حافظ الاسد، شاہ ایران اور دیگر اہم رہنمائوں سے وہ برابری کی سطح پر بات کرتے تھے۔ جب 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ چھڑی تو بھٹو نے فوراً ہی مدد کی پیش کش کی۔ سرزمینِِ شام کی فضائوں میں پاکستانی پائلٹوں نے اسرائیلی ایئرفورس کا مقابلہ کیا۔
اگر بھٹو، یا اُن کی روح‘ ریاض میں ہوتے تو کیا وہ خاموش رہتے‘ جب ٹرمپ نے عرب اور اسلامی دنیا کے عظیم نمائندوں کو لیکچر دیا اور کہا کہ ایران کو تنہائی سے دوچار کیا جائے؟ یا تو بھٹو کھڑے ہو جاتے اور ایران کے حق میں بات کرتے، یا واک آئوٹ کر جاتے۔ صرف وہی نہیں، ایوب خان اور جنرل یحییٰ کے دور میں بھی پاکستان کو عرب دنیا میں سنجیدگی سے لیاجاتا تھا کیونکہ اُس وقت پاکستان کی پوزیشن موجودہ دور سے کہیں بہتر تھی۔
نواز شریف سے کوئی کیا توقع کرے؟ وہ ذاتی طور پر سعودی شاہی خاندان کے ممنون ہیں کیونکہ جیسا ہم جانتے ہیں، شاہ عبداﷲ نے مداخلت کرتے ہوئے اُنہیں جنرل مشرف کی قید سے رہائی دلوا کر سعودی عرب کی پُرآسائش جلاوطنی کا موقع فراہم کیا۔ اب وہ جب کہ تیسری بار وزیرِ اعظم بنے تو سعودی عرب نے پاکستان کو 1.5 بلین ڈالر کا تحفہ دیا۔ اس لیے جب اُنہیں ریاض میں مدعو کیا گیا تو وہ کسی طور انکار نہیں کر سکتے تھے۔
یہ سب درست، لیکن ہم کیا توقع لگائے ہوئے تھے؟ کیا ن لیگ کے وفادار واقعی یہ سوچ رہے تھے کہ اُن سے وہاں کوئی خصوصی سلوک کیا جائے گا؟ سعودی دوست نواز شریف کی شرکت چاہتے تھے، اور یہی اصل بات تھی۔ اس سے بڑھ کر پاکستان کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ چنانچہ پاکستان اور اس کے وزیرِ اعظم سے اسی حیثیت کے مطابق سلوک ہوا۔ لیکن ہم اس پر حیران کیوں ہیں؟ یقینا نواز شریف اپنے پارٹی وفاداروں کے لیے شیر کا درجہ رکھتے ہوں گے، لیکن ملک سے باہر اُنہیں اس نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ لیکن اگر نواز شریف سے کوئی زیادہ توقع نہیں تھی، یہ بات جنرل راحیل شریف کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔ اُن کی طرف سے سعودی عہدہ قبول کرنے نے قوم میں بہت سوں کو مایوس کیا۔ ہو سکتا ہے کہ راحیل شریف کو اس تقرری سے ذاتی فائدہ ہوا ہو لیکن ان کے اس اقدا م سے پاکستان کی سبکی ہوئی اور بطور آرمی چیف اُن کا اپنا امیج بھی خراب ہوا۔
ہمارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ ہمارے ملک کے بااختیار افراد، وہ افراد جو اعلیٰ پوزیشنز حاصل کرتے ہیں، اپنے ہم وطنوں کے لیے کوئی مثال قائم کیوں نہیں کر پاتے؟ وہ اعلیٰ ترین طرزِ عمل کا نمونہ کیوں نہیں پیش کر سکتے؟ یہ بات بہت تواتر سے کہی جاتی ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ بدعنوان ہے لیکن اگر ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو ہمیں کہیں کوئی غیر معمولی مثال یا ہیرو دکھائی نہیں دیتا۔ مختلف درجوں کے اخلاقی اور فکری دیوالیہ پن نے ایک وبائی مرض کی طرح ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ یہی پاکستان کا سب سے سنگین مسئلہ ہے، لوڈ شیڈنگ، قرضے میں اضافے یا خراب گورننس سے بھی زیادہ سنگین۔
ہمارے فوجیوں اور نوجوان افسروں نے طالبان اور ریاستِ پاکستان پر جنگ مسلط کرنے والے دیگر گروہوں کے خلاف لڑے جانے والے معرکوں میں اب تک بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ فاٹا یا کہیں اور، اگلے مورچوں پر تعینات ایک نوجوان افسر، جو ہر آن کہیں سے آنے والی گولی یا کہیں بھی ہونے والی جھڑپ کے خطرے کا سامنا کر رہا ہوتا ہے، کے ذہن میں کیا تصویر ابھرتی ہو گی جب وہ ہماری اشرافیہ کی لوٹ مار کی کہانیا ں سنتا ہو گا۔ کیا اُس کے ذہن میں یہ سوچ نہیں ابھر سکتی کہ وہ ان خطرات کا سامنا کیوں کرے؟ اورکیا کبھی اُسے یہ خیال نہ آتا ہو گا کہ یہ ایک احسان فراموش قوم ہے؟
ریاض کانفرنس صرف پاکستان کی نہیں، پوری اسلامی دنیا کے جمع ہونے والے حکمرانوں، بادشاہوں اور رہنمائوں کی توہین تھی کیونکہ اُن سب نے عملی طور پر امریکی صدر کے سامنے تقریبا سر جھکا کے اُن کی ستائش کی۔ کس لیے؟ صرف اس لیے کہ ایران کے خلاف امریکہ سعودی عرب کا ساتھ دے۔ یہ ہے ہماری کل اوقات! ہم سے کہیں چھوٹی اقوام کہیں زیادہ خوددار ہوتی ہیں۔ کیوبا عزتِ نفس کا مظاہرہ کرتے ہوئے برس ہا برس سے امریکہ کے سامنے سر اٹھا کر جی رہا ہے۔ ہم شمالی کوریا کو جو مرضی کہہ لیں لیکن وہ عزتِ نفس رکھتا ہے، اور جب ضرورت محسوس کرتا ہے تو میزائل تجربات سے اپنی شوریدہ سری دکھا کر امریکہ کو دق کرتا رہتا ہے۔
ہمارے وزیرِ اعظم صاحب سعودی عرب کی جانب سدھارے، اور جیسا کہ رپورٹس بتاتی ہیں، دورانِ پرواز اُس تقریر کی ریہرسل کرتے رہے جو وہ کر ہی نہ سکے۔ واپس آتے ہی اُنہیں اپنے اوپر اور اپنی فیملی پر لگے بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کرنے والی جی آئی ٹی کا سامنا ہے۔ اخبارات کے مطابق یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ شریف فیملی نے جے آئی ٹی کے کام کو جہاں تک ہو سکے‘ مشکل میں ڈالنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جے آئی ٹی کے ارکان پر اعتراضات کیے گئے ہیں کہ وہ شریف فیملی سے مبینہ طور پر تعصب رکھتے ہیں۔ نواز شریف کے ایک کزن، طارق شفیع نے تحقیقات کرنے والے حکام کے نام ایک طویل خط لکھتے ہوئے اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے سخت سلوک کی شکایت کی ہے۔ لگتا ہے کہ مشکل سوالات کرنا، جن کا اُن کے پاس کوئی جواب نہیں، اُن کے نزدیک بدسلوکی ہے۔ دراصل اُنہیں ہمیشہ تعاون پر آمادہ ججوں سے واسطہ پڑتا رہا ہے، جیسا کہ ملک قیوم، جو ان کے فیملی جج کے طور پر مشہور تھے۔ اب اُنہیں آزاد تحقیقات کا سامنا ہے، اور یہ انہیں پسند نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے ہر چیز پر اعتراضات اٹھانا شروع کر دیے ہیں۔
ایک اہم سوال اپنی جگہ پر موجود ہے: بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کی تفتیش کا سامنا کرنے والا ایک وزیرِ اعظم کس طرح اپنے فرائضِ منصبی صحیح طور پر انجام دے سکتا ہے؟ کیا سوالوں کے گرداب میں گھرا ہوا رہنما قومی مفاد کا بہترین محافظ ہو سکتا ہے؟