خواجہ سعد رفیق، جو کابینہ میں موجود کشمیری وزرا میں سے ایک، چنانچہ نواز شریف کے قریب ہیں، کا کہنا ہے کہ عمران خان آگ سے کھیل رہے ہیں۔ مزید تمثیلی لہجہ اختیار کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ عمران خان اُسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں جس پر بیٹھے ہیں۔ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان، جو اس وقت ملک میں حقیقی اپوزیشن لیڈر ہیں، اپنی احتجاجی سیاست سے جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ پاکستان میں یہ آخری دفاعی مورچہ ہوتا ہے۔ جب تمام دلائل ناکام ہو جائیں تو پٹاری سے آخری وارننگ یہی نکلتی ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ یہ مذہبی جماعتوں کا بھی جانا پہچانا طرزِ عمل ہے کہ جب کسی ایشو پر کچھ کہنے کو نہ رہے تو پھر غصیلی آواز میں یہ انتباہ اچھالا جاتا ہے کہ اسلام خطرے میں ہے۔ ہر کسی کا اپنا اپنا معیار اور پیمانہ ہے۔
عمران خان کا اصل قصور کیا ہے؟ اُن سے کیا غلطی سرزد ہوئی ہے؟ یہی کہ وہ قومی زندگی میں ہونے والی بدعنوانی اور روا رکھی جانے والی خود سری کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ اُنھوں نے حکمران خاندان کی مبینہ بدعنوانی پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ اُنھوں نے پاناما پیپرز کیس کو زندہ رکھا ہے۔ اُن کی پیہم کوششوں کی وجہ سے یہ معاملہ آخر کار سپریم کورٹ تک پہنچ گیا، ورنہ اسے بھی دیگر معاملات کی طرح طاقِ نسیاں پر رکھ دیا جاتا۔ پی پی پی کو پاناما پیپرز میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ مولانا فضل الرحمان جیسے افراد کے لیے یہ کوئی ایشو تھا ہی نہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہتی تھی جس سے نواز شریف کو ندامت کا سامنا کرنا پڑے‘ لیکن ایک ہی سیاست دان، عمران خان، نے اس ایشو کو زندہ رکھا۔ اُنہیں کچھ کمک جماعتِ اسلامی کے سراج الحق کی طرف سے ملی اور کچھ رنگ برنگے بیانات سے سیاسی ماحول گرم رکھنے والے اپنی ذات میں انجمن سیاست دان، شیخ رشید احمد کی طرف سے۔
لیکن کیا بدعنوانی کی نشاندہی کرنا آگ کے ساتھ کھیلنے اور جمہوریت کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے؟ اس دلیل کو تسلیم کرنے کا مطلب بدعنوانی کو کھلی چھوٹ دینا ہے۔ اور اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ ہم سے کوئی سوال نہ پوچھا جائے، کیونکہ جس وقت آپ کرپشن یا کسی قسم کی غلط کاری کی طرف انگلی اٹھاتے ہیں تو آپ جمہوریت کے خلاف سازش کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اس وقت جب شریف خاندان گرداب میں ہے تو یہ نیا بیانیہ سننے کو مل رہا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ پاناما پیپرز آئی ایس آئی کی اختراع نہ تھی۔ پاناما پیپرز کی افتاد ایسے نازل ہوئی کہ جناب ممنون حسین جیسے وفا شعار شخص، اور اُن سے زیادہ وفا کا پیکر موجودہ منظرنامے میں شاید ہی کوئی اور ہو، بھی کہے بغیر نہ رہ سکے کہ یہ بلائے ناگہائی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اُن کی زبان پھسل گئی ہو، لیکن پروین شاکر کی زبان میں۔۔۔ ''بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘‘۔ آپ جنابِ صدر کے حیدر آباد میں خطاب کو یو ٹیوب پر سن سکتے ہیں۔ جب سپریم کورٹ نے اس مسئلے کو اٹھایا تو اس نے یہ کارروائی خود سے کی، نہ کہ کسی کے کہنے پر۔ رات کی تاریکی میںکسی منہ چھپائے قاصد نے کوئی پراسرار پیغام نہیں پہنچایا تھا۔
ان سب عوامل سے ماورا شریف خاندان کی بدقسمتی یہ بنی کہ وہ سپریم کورٹ کے سامنے کوئی قابلِ یقین دفاع نہ پیش کر سکا۔ ہائیڈ پارک میں بیش بہا قیمتی جائیداد کے سلسلے میں وہ کاغذ کا معمولی سا ٹکرا بھی نہ دکھا سکا۔ منی ٹریل تو دور کی بات ہے کوئی ایک عدد بینک سٹیٹمنٹ بھی سپریم کورٹ کے روبرو نہ پیش ہو سکی۔ بس یہ توقع کی جا رہی تھی کہ کیس کی سماعت کرنے والا پانچ رکنی بنچ قطری شہزادے کے دو خطوط کی فسانہ گری پر یقین کر لے گا۔ شریف خاندان تو اپنا بنیادی ہوم ورک بھی صحیح طور پر نہ کر سکا۔ ممبران فیملی خود کسی ایک کہانی پر متفق نہ ہو سکے۔ وزیرِ اعظم اسمبلی میں ایک بات کرتے ہیں، قوم سے خطاب کرتے ہوئے کچھ اور کہتے ہیں، جبکہ اُن کے بیٹے، حسن اور حسین ، مختلف ٹی وی انٹرویوز میں کچھ اور ہی افسانے سنا رہے ہوتے ہیں۔ اور قوم سے یہ توقع رکھی جا رہی ہے کہ وہ یہ سب کچھ مان لے اور جمہوریت کی خاطر اپنے شکوک و شبہات ایک طرف رکھ دے۔
وزیرِ اعظم اور اُن کی فیملی کے خلاف الزامات کوئی ہنسی مذاق کا کھیل نہیں۔ یہ منی لانڈرنگ سے لے کر ٹیکس چوری تک کے سنجیدہ معاملات ہیں۔ وزیرِ اعظم کے سامنے مشکل یہ آن کھڑی ہوئی ہے کہ اپنے طویل سیاسی کیریئر کے دوران پہلی مرتبہ کسی آزاد تحقیقاتی ٹیم کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس ٹیم پر وہ یا اُن کے وفادار کوئی دبائو نہیں ڈال سکتے۔ پاکستان کی حالیہ تاریخ گواہ ہے کہ وزیرِ اعظم صاحب کو ایسے افسران ہی بھاتے ہیں جوان کی طرف داری کریں۔ نواز شریف صاحب کے ایک کزن، طارق شفیع نے جے آئی ٹی کے ناروا سلوک کی شکایت کی ہے۔ اُن کے ساتھ کوئی برا سلوک نہیں ہوا۔ اُن پر ایسا کوئی تھرڈ ڈگری تشدد نہیں کیا گیا جو ملک بھر کے تھانوں اور حراستی مراکز میں ایک معمول ہے۔ اُن سے کچھ زبانی سوالات پوچھے گئے جو اُنہیں بہت بھاری لگے۔ حسین نواز بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے ہیں، لیکن جیسا کہ جے آئی ٹی نے اپنے تازہ نوٹس میں لکھا ہے‘ وہ نہ تو کسی سوال کا جواب دے سکے اور نہ ہی کوئی دستاویز پیش کر سکے۔ تیس مئی (یعنی جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں) کو اُنہیں پھر جے آئی ٹی کے سامنے حاضر ہونے کا کہا گیا ہے۔ لیکن یہ تو شروعات ہے۔ وزیرِ اعظم صاحب نے بھی جے آئی ٹی کے سوالات کے جوابات دینے ہیں۔ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ شریف فیملی کوئی ٹھوس موقف نہیں پیش کر سکی۔ اگر اُن کے پاس کوئی باوثوق کہانی ہوتی تو نہ اُن کو اور نہ قوم کو سال بھر سے زیادہ چلنے والا ڈرامہ برداشت کرنا پڑتا۔ تو پھر آگ کے ساتھ کون کھیل رہا ہے؟ وہ جو شفاف تحقیقات کے لیے دبائو ڈال رہے ہیں یا وہ جن میں سچ بولنے کے لیے اخلاقی جرات کا فقدان ہے؟
میرا ذاتی خیال تھا کہ جے آئی ٹی کارِ لا حاصل ہو گی، اس سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو گا، لیکن مجھ جیسے شکوک رکھنے والے افراد غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ پی ایم ایل (ن) کا حواس باختہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ جے آئی ٹی نہایت سنجیدگی سے اپنا کام کر رہی ہے۔ سعد رفیق کی تنبیہ اس حوالے سے اہم ہے کہ اس سے پارٹی کے موڈ کی غمازی ہوتی ہے۔ اگر اُنہیں یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ عمران خان آگ سے کھیل رہے ہیں تو اس سے ان خطروں کا ادراک ہوتا ہے جو اُن کے ذہنوں پر سوار ہیں۔ اُنہیں کس بات کا خوف ہے؟ کہ فیصلہ اُن کے خلاف نہ آ جائے؟ یہ خوف اپنی جگہ بجا ہے۔ ٹھوس جوابات نہ دیے جا سکے اور ٹال مٹول کی پالیسی اپنائی جاتی رہی تو ظاہر ہے کہ فیصلہ خلاف بھی آ سکتا ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر ذرا تصور کیجیے کہ وزیرِ اعظم اور حکمران جماعت پر کیا گزرے گی۔ جے آئی ٹی کے دو ممبران کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ سخت سوالات پوچھ رہے ہیں۔ اس ٹیم میں دو فوجی افسران بھی ہیں، اور اُن کے کیا تیور ہوں گے، یہ تو آنے والے دن ہی بتائیں گے۔
کیا ملک کے لیے یہ صورتِ حال اچھی ہے؟ ہمارے گرد و پیش، جیسا کہ افغانستان اور مقبوضہ کشمیر، اور مجموعی طور پر پورے خطے کے حالات بہت ہنگامہ خیز ہیں۔ پاکستان کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو کامل یکسوئی سے ان خطرات پر توجہ مرکوز کر سکے۔ ہمارے وزیرِ اعظم کے ذہن پر دو الجھنوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، (1) پاناما تحقیقات، اور (2) عمران خان۔ پی ایم ایل (ن) کے وزرا اور ترجمانوں کا واحد فرض بلا ناغہ عمران خان کی مذمت کرنا ہے۔ پریشان ہونے کی بجائے عمران خان جیسے جوشیلے اور رجائیت پسند انسان اس صورتِ حال سے لطف انداز ہو رہے ہوں گے۔
میڈیا میں موجود ''گھریلو صنعت‘‘ کی ٹکسال کردہ پیش گوئی یہ ہے کہ اگلے انتخابات میں پی ایم ایل (ن) کی کامیابی یقینی ہے، لیکن شاید وہ برطانوی وزیرِ اعظم ہیرالڈ ولسن کا قول بھول گئے ہیں کہ سیاست میں ایک ہفتہ بھی ایک طویل عرصہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تو انتخابات کا میدان سجنے میں ایک سال باقی ہے، اور جے آئی ٹی نے تو ابھی کام شروع ہی کیا ہے۔ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد پیش گوئیاں کرنے کے لیے کافی وقت پڑا ہو گا۔
پسِ نوشت: جب میں کالم لکھ چکا تو خبر آ گئی کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے دو ممبران کی بابت حسین نواز کے تحفظات کو مسترد کر دیا ہے۔ اگرچہ اس کے برعکس کی توقع کسی کو نہ تھی، لیکن یہ رولنگ اور فاضل جج صاحبان کے کچھ تبصرے حکمران خاندان کے لیے باعثِ پریشانی ہوں گے اور اس سے اُن کا اعتماد مزید متزلزل ہو گا۔