رواں ہفتے پاکستان کی جواں سال کرکٹ ٹیم، جس نے شاہد آفریدی جیسے از کارِ رفتہ بوجھ سے جان چھڑا لی تھی، کی شاندار اور انتہائی مسحور کن کارکردگی کا ذکر کیے بغیر کسی چیز پر تبصرہ ممکن نہیں۔
اس ٹیم نے یہ معجزہ کیسے اور کیوں کر سرانجام دے لیا؟ یقینا اس کی وجہ نئے خون میں موجزن نوخیز توانائی کی لہر اور جوش و جذبے سے سرشار وہ ولولہ ہے جو حیران کن کارکردگی کا باعث بنتا ہے۔
ہماری قومی سیاست میں ایسا ہونا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ یہ میدان تھکے ہارے، بے دم، ساکھ سے محروم افراد کی آماجگاہ ہے، بالکل جس طرح ہماری کرکٹ ٹیم ہوا کرتی تھی۔ ہمارے سامنے وہی پرانے سیاسی کھلاڑی ہیں جو تیس پنتیس سال پہلے ضیا دور میں اس اکھاڑے میں اتارے گئے تھے۔ دنیا میں اور کہیں بھی یہ صورتِ حال غیر انسانی حد تک ابدی مانی جاتی‘ لیکن یہاں ہمارے صحافی اور سیاسی پنڈت، خاص طور پر وہ جن کے مالی وسائل کا انحصار شریفوں کی عطا پر ہے، ہمیں یقین دلا رہے ہیں کہ ابھی مزید پانچ سال تک انہی کھلاڑیوں کو برداشت کرنا پڑے گا۔
خدا اس لاچار قوم پر رحم کرے۔ ابھی ہم نوجوان تھے جب فوج اور آئی ایس آئی نے ان خاکی پتلوں میں سیاسی روح پھونک کر پی پی پی کے مقابلے پر میدان میں اتارا تھا۔ سیاسی انجینئرنگ کا یہ عمل اتنا کامیاب ثابت ہوا کہ یہ عارضی مہرے سیاسی سٹیج کے ماسٹر بن گئے۔ اب ہمارا شمار سینئر سٹیزن میں ہوتا ہے۔ ہم نے اپنے خوابوں کو بخارات بن کر اُڑتے دیکھا ہے لیکن ہماری قسمت دیکھیں، یہ کھلاڑی ابھی تک وہیں براجمان ہیں۔ وہی پرانا وہی گھسا پٹا بیانیہ ہے، وہی جانے پہچانے نعرے کہ وہ قوم کی تعمیر کر رہے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے سامنے تبدیل ہوتی ہوئی سچائیوں کی پٹاری بھی کھول رہے ہیں۔
زرداری کے ہاتھوں کام تمام کیے جانے سے پہلے پی پی پی ایک سیاسی قوت تھی۔ دیگر عوامل کے علاوہ اس کی ایک وجہ شریفوں کی نااہلی اور بدعنوانی تھی۔ لیکن چونکہ نااہلی اور بدعنوانی دونوں طرف تھی، پی پی پی کی کمزوریوں نے شریفوں کو سیاسی قوت بننے کا موقع دیا۔ بطور ایک سیاسی قوت شریف بھی پی پی پی کی نااہلی اور بدعنوانی کی وجہ سے بچ گئے۔ یہی ان کے درمیان حقیقی میثاقِ جمہوریت (چارٹر آف ڈیموکریسی) تھا۔
یا تو ہم ایک خالی دماغ قوم ہیں جو اس سے بہتر کی مستحق نہیں، یا پھر ہمارے ستارے ہی خراب ہیں۔ دولت کا ہمیشہ سے سیاست میں ایک کردار رہا ہے لیکن اس پیمانے پر کبھی نہیں جتنا شریفوں اور پی پی پی کی قیادت نے متعارف کرایا۔ اب مبصرین کے کچھ حلقوں کے دہائی دیتے دیتے گلے رندھ گئے ہیں کہ یہ جمہوریت ہے، چنانچہ اسے کسی طور خطرہ نہیں پہنچنا چاہیے، ورنہ اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔
شریف پاناما اسکینڈل میں پھنس چکے ہیں۔ وہ پہلے سپریم کورٹ، اور اب جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو رہے ہیں جو اُن کے مشکوک معاملات کی چھان بین کر رہی ہے، لیکن دہائی یہ دی جا رہی ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ اور وزیرِ اعظم کے پاس اس کے سوا کہنے کے لیے کچھ نہیں کہ اس پتلی تماشے کو اب ختم ہو جانا چاہیے۔ وہ کیا کہہ رہے ہیں، اور اُن کا مخاطب کون ہے؟ کیا فوج؟ کیا عدلیہ کی طرف انگشت نمائی کی جا رہی ہے؟ کیا اس اسکینڈل میں پھنسی ہوئی ن لیگ کی قیادت چاہتی ہے کہ ہم یقین کر لیں کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ ایک پتلی تماشا ہے اور اس کی ڈور فوج ہلا رہی ہے؟
وہ یقینا ہمیں احمقوں کی قوم سمجھتے ہیں۔ اُن کا اور اُن کے میڈیا سپورٹروں کا خیال ہے کہ یہ قوم ہر اُس کہانی پر یقین کر لے گی جو اُسے سنائی جائے گی۔ یہ مشکوک ذرائع سے رقم بیرون ممالک تک لے جانے والی بدعنوانی، جسے عام فہم زبان میں منی لانڈرنگ کہتے ہیں، اور اس رقم سے خریدی گئی جائیداد کا کیس ہے۔ شریف اس پر سیاسی شہادت کی آرزو لگائے ہوئے ہیں، لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہونے جا رہا۔
ہم سب برس ہا برس سے ان کہانیوں کو جانتے تھے۔ شریفوںکے لندن فلیٹس کے بارے میں آرٹیکلز غیر ملکی پریس میں شائع ہوتے رہے ہیں‘ لیکن ان معلومات کو بنیاد بنا کر پاکستان میں کیس چلانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ چنانچہ شریفوں کی ان سرگرمیوں پر پردہ پڑا رہا، اور وہ قوم کو حب الوطنی اور اخلاقیات کا درس دیتے ہوئے ان الزامات کی تردید کرتے رہے۔ یہ سلسلہ چل رہا تھا یہاں تک کہ پاناما کی ناگہانی ضرب نے ان رازوں پر پڑے پردے کو چاک کر دیا۔
یہ انکشاف سنی سنائی باتوں، بلکہ لندن پریس میں شائع ہونے والے مضامین سے کہیں بڑھ کر تھا۔ اب یہ الزام تحریری صورت میں سامنے آ گیا تھا۔ عمران خان اس خداداد موقع کو ہاتھ سے جانے کی اجازت دینے والوں میں سے نہیں تھے۔ اُنھوں نے اس موقع کو دونوں ہاتھوں سے دبوچا اور ایک بھرپور سیاسی مہم چلائی۔ جب یہ معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے آیا تو تحقیقات کا ایک طویل عمل شروع ہوا، جو اب آخری مراحل میں ہے۔ جو کچھ ہمارے سامنے ہے، یا جو کچھ ہم دیکھ اور سن رہے ہیں، اس میں شریفوں کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں۔
ہو سکتا ہے کہ ہم تسلیم نہ کریں... میڈیا میں شریفوں کے ہمدرد اسے کسی طور پر تسلیم نہیں کریں گے... لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سامنے ایک باب ختم ہونے جا رہا ہے۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک طویل باب تھا۔ تمام گواہیاں اس کی نشاندہی کرتی ہیں۔ شریف کسی اٹھنے والے سوال کا جواب نہیں دے پائے ہیں۔ رقم کی ترسیل کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا، کوئی منی ٹریل نہیں ہے۔ تردید اور ابہام، اور دو قطری خطوط، بس اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
میں عید کی ٹی وی ریکارڈنگ میں معروف اداکار، سہیل احمد عرف عزیزی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، اور میں نے اُنہیں بتایا کہ شہباز شریف جس طرح ایک سمارٹ سوٹ اور ہیٹ پہن کر جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے، اُس پر ایک اچھا پروگرام بن سکتا ہے۔ اُنھوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ وہ اس پر سوچیں گے۔
انہیں دیکھیں، ان کے پاس سنانے کے لیے کوئی ڈھنگ کی کہانی نہیں ہے۔ کہنے کے لیے سازشوں اور پتلی تماشا کے مبہم اشاروں کے سوا کچھ نہیں۔ اس سے نمبر ایک‘ اُن کی مایوسی کا اندازہ ہوتا ہے، اور نمبر دو‘ اُن کی حالات پر ڈھیلی ہوتی ہوئی گرفت کا۔ اُن کی سیاسی طاقت پاناما اسکینڈل میں گھائل ہو چکی ہے۔ اُنھوں نے سپریم کورٹ پر کیچڑ اچھال کر دیکھ لیا، جے آئی ٹی کو متنازع بنانے کی پوری کوشش کرکے دیکھ لی۔ اس مہم میں ایک وفادار میڈیا گروپ اُن کے ہراول دستے کا کام دے رہا ہے۔ اس میڈیا گروپ کے اخبارات پڑھ کر دیکھ لیں، ایسا لگتا ہے کہ وہ وزیرِ اعظم ہائوس میں کسی کے کنٹرول کردہ میڈیا سیل کے پیغامات ہیں۔ تاہم ان حرکتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ جے آئی ٹی پر تعصب اور جانبداری برتنے کے لگائے گئے الزامات کا سپریم کورٹ نے کوئی اثر نہ لیا۔ اور جے آئی ٹی نے ن لیگ اور اس کے ہمدرد میڈیا کا پیدا کردہ تمام تر دبائو برداشت کرتے اصل کام پر توجہ مرکوز رکھی۔
ایک اور بات کا ذکر شاید ضروری ہے۔ فوجی حکومت، جس میں چار آمروں کے نام آتے ہیں، نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا۔ اس میں کوئی دو آرا نہیں۔ لیکن کیا یہ ہماری قومی زندگی کا عجیب پہلو نہیں کہ ان چاروں میں سے کسی بھی آمر نے اُس دولت کا عشرِ عشیر بھی جمع نہیں کیا‘ جو ہمارے جمہوری چمپئنز، یعنی کہ پی پی پی کے آصف زرداری اور شریفوں نے کیا ہے۔
ایوب خاں کے بیٹے، گوہر ایوب نے بزنس میں قدم رکھا تو ملک بھر میں شور مچ گیا۔ جنرل یحییٰ کی رغبت کچھ دیگر معاملات میں تھی، اور اس فہرست میں پیسہ بنانے کا شوق شامل نہ تھا۔ جنرل ضیا نے اپنے رشتے داروں کی تھوڑی بہت حمایت کی، لیکن جہاں تک ہمیں معلوم ہے، اسی پر اکتفا کیا۔ پرویز مشرف کو سعودی شاہ کی طرف سے رقم کا تحفہ ملا، اور اُنھوں نے اس کا اعتراف کیا ہے۔ کیا ہم جن گاڈ فادرز کی بات کر رہے ہیں، اُنھوں نے کسی چیز کا بھی کبھی اعتراف کیا ہے؟ وہ سچ سے اجتناب اور مبہم لفاظی کو اس سطح پر لے گئے ہیں جو پاکستانی سیاست میںاس سے پہلے نہیں دیکھا گیا۔
اور ایسا اُنھوں نے اتنے پُراعتماد چہرے سے کیا کہ اُن کی دیدہ دلیری کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ پاناما اسکینڈل یہ سب کچھ تبدیل کر رہا ہے۔ آثار یہی بتاتے ہیں کہ قومی منظر نامہ بدلنے جا رہا ہے۔ اب تو تبدیلی کا تاثر محسوس بھی ہونے لگا ہے۔ اور کیا پتہ کہ اگر ہم خوش قسمت رہے تو نئے امکانات کی امید پیدا ہو جائے۔