پاکستان کو ٹھنڈا رہنے کا فن سیکھنا چاہیے ۔ صدر ٹرمپ اور وزیر ِاعظم نریندر مودی کی ملاقات کے بعد جاری کیا گیا بیان پاکستان کیخلاف کدورت سے بھرا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے یہ بھارت کی وزارت ِ خارجہ میں ڈرافٹ کیا ہوا ہے۔ ہمارے لیے یہ کھلم کھلی اشتعال انگیزی ہے لیکن وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں ہمیں cool رہنے کی ضرورت ہے ۔
جب امریکہ کو پاکستان کی خدمات( جو یاد رہے ہم بار ہا سرانجام دیتے رہے ہیں ) کی ضرورت نہیں رہتی تو اکثر اُس کا جھکائو بھارت کی طرف ہوجاتا ہے ، لیکن اتنا کبھی نہیں جتنا اس بار دیکھنے میں آیا ہے ۔
اس کے باوجود پاکستان کواپنا موڈ زیادہ خراب نہیں کرنا چاہیے۔ ساری دنیا اب جانتی ہے کہ صدر ٹرمپ کس قسم کی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اور تو اوران حرکات سے اپنے ملک کا بھی بگاڑ کررہے ہیں۔ اُن کے ہوتے ہوئے امریکی طاقت میں اضافہ نہیں ہورہا ، امریکی وقعت کئی محاذوں پہ کمی کا شکار ہوئی ہے ۔ اس روش سے سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہورہا ہے۔ پاکستان کے بارے میں انڈیا اور امریکہ کا بیان اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
پاکستان دنیا کے نقشے سے کہیں نہیں جارہا ، اور اسی طرح افغانستان بھی ہمارے شمال مغرب میں اپنی جگہ پر موجود ہے ۔ کوئی چیز بھی ان جغرافیائی حقائق کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ امریکی افغانستان میں الجھے ہوئے اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ تصوراُن کے لیے نہایت پریشان کن ہے کہ ابھی تک اُنہیں اس دلدل سے نکلنے یا جنگ کا پانسہ اپنے حق میں پلٹنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ۔ جنگی فتح حاصل کرنے کا کوئی امکان نہیں، اور نہ ہی یہاں سے نکلنے کا کوئی آسان راستہ دستیاب ہے۔
اگر صدر ٹرمپ کو اپنے ڈیل کرنے کے فن پہ اتنا ہی ناز ہے تو طالبان کے ساتھ کوئی ڈیل کرکے دکھائیں۔اس وقت طالبان پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔
دونوں رہنما ئوں کے بغل گیر ہونے کے انداز کو تصاویر میں دیکھ کر بھی آپ سمجھ سکتے ہیںکہ اگرچہ نریندر مودی نے اپنے بازو والہانہ انداز میں امریکی صدر کی چوڑی کمر کے گردحمائل کررکھے ہیں، ٹرمپ کا اندازقدرے کم جذباتی ہے ۔ ہر موقع پر بغل گیر ہونا ہمارے کلچر کا حصہ ہے ۔ ہم دوسروں سے اُس وقت بھی بغل گیر ہوتے ہیں جب اس فعل کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔جب میں سیاست میں تھا تو میں نے دیکھا کہ ہم ہر وقت گلے ہی لگتے رہتے ہیں۔ میں کسی جلسے میں جاتا تو ہاتھ ملانے سے پہلے لوگوں سے بغل گیر ہوتا۔ اینگلو سیکسن یا انگریز لوگ بغل گیری کا اتنا شوق نہیں رکھتے۔
تو کیا ہوا اگر اُنھوں نے پاکستان کے بارے میں سخت بیان دیتے ہوئے اس پر زور دیا کہ پاکستان اپنی سرزمین سرحد پار دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے ؟بطور پاکستانی ہمیں احساس ہونا چاہیے کہ جوں جوں چین طاقتور ہوتا جائے گا ، امریکہ اوربھارت میں گرم جوشی زیادہ ہوگی۔ چین کی طاقت کو بیلنس کرنے کے لیے امریکہ کو بھارت، جاپان، جنوبی کوریا حتیٰ کہ ویت نام کی بھی ضرورت ہے ۔ یہ واقعات اسی طرح پیش آنے ہیں، اور ہمیں انہیں ایک معمول کی صورت ِحال کے طور پر دیکھنا چاہیے ۔
پاکستان جنگ کی لپیٹ میں جمہوریہ شام کی طرح نہیں ہے ۔ یہ لیبیا یا صدام حسین کے عراق جیسا نہیں ہے ۔ امریکی ہمارے ساتھ وہی کچھ کریں گے جو وہ تعلقات میں خرابی کے موسم میں کرتے رہے ہیں۔ ادھر اُدھرسے دبائو ڈالیں گے، غیر واضح نتائج کی حامل مبہم دھمکیاں دیںگے۔ ہمیںان چیزوں کو برداشت کرنے کے قابل ہونا چاہیے ۔
امریکہ بنیادی طور پر ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ ہم افغانستان میں اُ ن کی جنگ لڑیں۔ دوسرے الفاظ میں پاکستانی جانوں کوخطرے میں ڈال کر امریکہ کو افغانستان کی دلدل سے نکال لیںکیونکہ پاکستانی جانیں امریکی جانوں سے سستی ہیں۔
اگر ہم ایسا کرنا چاہیں تو بھی یہ معجزہ سرانجام دینا ہمارے بس کی بات نہیں ۔ ہم فاٹا میں انتہا پسندوں کے خلاف بھرپور لڑائی میں مصروف ہیں۔ اگر اس جنگ میں ہم تھوڑا سا بھی توقف کریں، فوجوں کو ذرا پیچھے ہٹائیں تو انتہا پسند وں کو واپس آنے کا موقع مل جائے گا ۔ہمارے پاس وہ طاقت نہیں کہ ہم امریکہ کی جان افغانستان سے چھڑا سکیں۔
کابل میں بھارتیوں کی بھرپور موجودگی ہے۔ اُنہیں یہ کام کرنے دیں۔ اُنہیں کابل کی کمزور اور بدعنوان حکومت کی مدد کرنے دیں جو تھیوری کے اعتبار سے تو کابل پر حکومت کررہی ہے لیکن عملی طور پر اس جنگ زدہ ملک کے دیگر حصوں پر تو کجا، کابل پر بھی اپنی عملداری نہیں رکھتی ۔
ہماری طرف سے یہ کوئی دہرا کھیل نہیں ہے جس کا الزام ہم پر لگایا جاتا ہے کہ ہم خرگوش کے ساتھ بھی دوڑ رہے ہیں اور شکاریوں کے ساتھ بھی۔اگر طالبان کو آسانی سے جھکایا جاسکتا تو امریکی اپنی بے پناہ فوجی طاقت اور اس جنگ پر کم و بیش ایک ٹریلین ڈالر صرف کرتے ہوئے بہت پہلے ایسا کرچکے ہوتے۔
سچی بات یہ ہے ، اور یہی بات امریکیوں کے لیے دائمی پریشانی کا باعث بن چکی ہے ، کہ افغانستان نے امریکی طاقت کی حدود کو بے نقاب کردیا ہے ، بالکل اسی طرح جیسے 1980 ء کی دہائی میں سوویت یونین کی طاقت کی حدود بھی عیاں ہوگئی تھیں ۔ وہ امریکی جو افغانستان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ، افغان امور کے ماہر بن گئے ہیں،اور وہ ہماری طرف انگلیاں اٹھاتے ہیں اور ہمیں'' ڈو مور‘‘ کے لیکچر دیتے ہیں۔ ہمیں اس لمحے کے گزرنے کا انتظار کرنا چاہیے ۔ ٹرمپ انتظامیہ بھارت کے بارے میں فیصلہ کرچکی ہے ۔ پاکستان کے بارے میں وہ ابھی ذہن بنا رہی ہے کہ ہمیں کن عینکوں سے دیکھنا ہے۔ اُنہیں یہ کام کرنے دیں، اور ہمیں بغیر پریشان ہوئے انتظار کرنا چاہیے کہ اس مشق کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔
پاکستان بہت سے شعبوں میں کمزور ہے ، اور ہم اپنے معاملات اور قومی امور کو درست کرتے ہوئے ان میں بہت بہتری لاسکتے ہیں ،لیکن اپنی تمام خامیوں کے باوجود ہم کوئی کمزور ریاست نہیں کہ جو چاہے ہمیں روند کر گزر جائے ۔
امریکی چاہتے ہیں کہ ہم اُ ن کے لیے افغانستان کے معاملات درست کریں۔ بھارتی چاہتے ہیں کہ ہمیں اُن کے لیے سری نگر اور مقبوضہ کشمیر کے حالات بگڑنے سے بچائیں۔ ہم نے افغان دلدل تخلیق نہیں کی تھی ، اور نہ ہی مقبوضہ وادی میں ہم نے موجودہ حالات پیدا کیے ہیں۔
لیکن ان سنسی خیز لمحات میں جبکہ ہم اپنے اردگر د تنائو کو بڑ ھتے دیکھ رہے ہیں، کم از کم ایک چیز کی امید کرسکتے ہیںکہ ہم اپنے داخلی قومی معاملات کو بہتر طریقے سے چلائیں۔ پاکستان اپنی گورننس کو بہتر کرسکتا ہے ۔ یہ اپنی قیادت میں بہتری لاسکتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ پاناما کیس ، جس کی تحقیقات سپریم کورٹ کی قائم کردہ جے آئی ٹی کررہی ہے اور جو اب اپنے آخری مراحل میں ہے ، بہت اہمیت اختیار کرچکا ہے ۔ یہ صرف ایک جوڈیشل یا قانونی مقدمہ نہیں ہے ۔ چونکہ ا س کا تعلق موجودہ حکمران خاندان کے مبینہ مالیاتی ہیرپھیر سے ہے ، اس لئے اس کیس کے فیصلے کے گہرے سیاسی مضمرات ہوں گے ۔
پاکستان ایک کمزور اور دیگر معاملات میں پیہم الجھی ہوئی حکومت کا متحمل نہیں ہوسکتا ، خاص طور پر جب امریکہ اور بھارت کے درمیان تال میل بڑھ رہا ہے اور ان کی کاوشوں کی سمت پاکستان کی طرف ہے ۔ کسی بھی دور سے زیادہ اس نازک مرحلے پر ہمیں ایک طاقتور اور قومی امور پر بھرپور ارتکاز رکھنے والی حکومت درکار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاناما کیس کو فوری طور پر اپنے منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے ۔
جے آئی ٹی اپنا کام ختم کرکے اپنی تحقیقات سپریم کورٹ کے سامنے رکھنے والی ہے ۔جو نتیجہ نکلنا ہے ، وہ نکلے ۔ اس ضمن میں کسی کو شک نہیں رہنا چاہیے کہ جو فیصلہ بھی آئے گا اُس سے جان چھڑانی ممکن نہ ہوگی۔ اورجب یہ ڈرامہ خیز باب اپنے اختتام کو پہنچے گا تو پھر ہم دیگر چیلنجز ، جن کا ہمیں سامنا ہے، سے بہتر انداز میں نمٹ سکیں گے ۔