دس جولائی آنے کو ہی ہے۔ کس کی سوچ تھی کہ جے آئی ٹی اس طرح کام کرے گی جس طرح اس نے کیا ہے، اور کون سوچ سکتا تھا کہ حکمران جماعت، بلکہ حکمران خاندان کی حالت یہ ہو جائے گی۔
نون لیگ کی گھبراہٹ اب تو واضح ہے اور دیکھی جا سکتی ہے۔ اسحاق ڈار کو ہی لے لیجیے۔ جے آئی ٹی سے نکلے تو ایسے گرجے اور گھبراہٹ کا یہ عالم تھاکہ Hamlet کی یہ لائن یاد آ گئی‘ "Methinks, the lady protesteth too much" (لگتا ہے محترمہ پارسائی کا زیادہ ہی شور مچا رہی ہیں)۔ اور اندازہ لگائیے کہ یہ بھی کہہ گئے کہ منی لانڈرنگ کے ضمن میں جو اعترافی بیان اپریل 2000ء میں دیا تھا‘ وہ قانونی مشورے کے تحت دیا تھا۔ یعنی فوجی دباؤ کے نتیجے میں نہیں۔ مزید فرمایا کہ اسلام بھی اس چیز کی اجازت دیتا ہے کہ جان خطرے میں ہو تو حرام کھانا بھی جائز ہے۔ یہ منطق ہر مجرم اپنائے تو سارے ہی وعدہ معاف گواہ بن جائیں اور پھر مکر جائیں۔
حکمرانوں نے شور شرابہ، غصہ، اشتعال، سب کچھ کرکے دیکھ لیا لیکن پاناما گیٹ سے اٹھنے والے سوالات کا وہ سوائے کہانیوں کے کوئی جواب نہیں دے سکے۔ اور تو اور قطری شہزادے بھی کہیں گم ہو گئے ہیں۔
نوشتۂ دیوار اب واضح ہے اور نون والوں نے پڑھ لی ہے لیکن کوئی ترکیب نہیں سوجھ رہی کہ وہ کیا کریں، کیونکہ جس صورتحال کا انہیں سامنا ہے ان کے لئے بالکل نئی ہے۔ اس سے پہلے وہ عدالتوں پر اثر انداز ہوتے رہے اور انہیں دوستانہ ججوں کا سہارا رہا‘ لیکن اب ان کی سُرکتی ہوئی طاقت کی نشانی ہے کہ وہ نہ تو سپریم کورٹ پر اور نہ ہی جے آئی ٹی پر اثرانداز ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کے پاس صرف کھوکھلی دھمکیاں رہ گئی ہیں جنہیں کوئی سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔
جو کچھ سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان میں ہو رہا ہے اس سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شریفوں کے لئے کوئی چیز درست نہیں ہو پا رہی۔ کمیشن کے چیئرمین جناب حجازی ایک بات کہہ رہے ہیں اور ماتحتوں نے ایف آئی اے کو صاف بتا دیا ہے کہ حجازی صاحب نے شدید دباؤ ڈال کے ان سے چوہدری شوگر ملز کے ریکارڈ میں تبدیلی کروائی۔
شریف صاحبزادگان کو پھر سے جے آئی ٹی کے سامنے آنا پڑ رہا ہے۔ صاحبزادی صاحبہ بھی آ رہی ہیں۔ اسحاق ڈار کا چیخنا چلانا ہم سن ہی چکے ہیں۔ مبینہ منی لانڈرنگ کے وہ مرکزی کردار تھے۔ ان سے پوچھ گچھ کے بغیر یہ تفتیش نامکمل رہتی۔ جنرل مشرف کی تحویل میں 45 صفحات پر مبنی لمبا اقراری بیان شریف خاندان کی منی لانڈرنگ کے بارے میں اپنے ہاتھ سے تحریر کیا تھا۔ پہلے ان کی کہانی یہ تھی کہ بیان دباؤ سے لیا گیا۔ اب ٹی وی کیمروں کے سامنے مان گئے ہیں کہ اپنی مرضی سے بیان پر دستخط کیے‘ لیکن دفاعی ڈھال کے طور پر اسلام کو بیچ میں لے آئے ہیں۔
ہم نے ماں باپ کے بارے میں یہ تو سنا تھا کہ اپنے بچوں کی خاطر سب کچھ کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ شاید ہمارے سامنے یہ ایک نادر مثال آ رہی ہے کہ والد اپنی جان چھڑانے کیلئے تمام ذمہ داری اور بوجھ یا تو بیٹوں کے کندھے پر ڈال رہے ہیں یا مرحوم والد کے۔ اگر بیٹوں سے پوچھ گچھ کی گئی ہے اور اب بیٹی کو بھی بلایا جا رہا ہے تو اس کی وجہ وزیر اعظم کی اختیار کردہ حکمت عملی ہے۔
بہرحال یہ ضمنی ایشوز ہیں اصل بات یہ ہے کہ نواز شریف شدید مشکل میں پھنس چکے ہیں‘ جس کا احساس ان کے خاندان اور پارٹی والوں کو ہو چکا ہے۔ وہ تو اپنے آپ کو ہر جواب دہی سے ماروا سمجھتے تھے لیکن ان کی قسمت کیسی بدلی ہے کہ ان کا ماضی اب ان کا تعاقب کر رہا ہے۔
اب کیا ہونے جا رہا ہے؟ حال ہی میں ایک نون لیگی ایم این اے سے چلتے چلتے بات ہوئی۔ وہ قیادت کی سوچ سے یا کم از کم ان کی نفسیات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کچھ احساس ہے کہ کھیل ختم ہونے والا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ہاں ہے۔ پھر وہی پوچھا کہ اب کیا ہو گا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ میں نے پوچھا کہ پارٹی نے کسی متبادل راستے کا سوچا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کی لغت میں لفظ متبادل سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اگر خود نہیں تو پھر کچھ اور بھی نہیں۔ یہی سوچ ان کی ہمیشہ رہی ہے۔ لہٰذا کچھ ڈھنڈورچی کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ ہے‘ تو اگر خطرہ ہے تو وہ بیرونی نہیں نون لیگ کے اندر سے ہے۔ یعنی جمہوریت کو خطر ہ وزیر اعظم کی اس سوچ سے ہے۔
اب یہ نون لیگ پر منحصر ہے کہ وہ اس انجام سے کس طرح بچتی ہے۔ لیکن نون لیگ کی پارلیمانی صفیں بے جان افراد کا مجموعہ ہیں۔ وہ کسی آزاد سوچ کے قابل نہیں اور آزاد عمل ان کے بس کی بات نہیں۔ ایسے ٹولے سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟
لیکن موجودہ نظام کی ایک علامت جو باقی رہے وہ شاید صدر ممنون حسین ہوں۔ جنرل ضیاء نے صدر فضل الٰہی چوہدری کو کچھ مدت استعمال کیا‘ بعینہ جیسے جنرل مشرف نے ایک اور یادگار صدر رفیق تارڑ کو ایوان صدر میں کچھ دن مہمان رکھا۔ اور اگر صدر ممنون حسین اپنے تخلیق کاروں سے زیادہ دن اقتدار کے چمنوں میں رہ گئے تو کیا یہ بات دلچسپی اور حیرانگی کا سبب نہ بنے گی؟ شریف یہ چیز برداشت نہیں کر سکیں گے لیکن شاید یہ بھی اس مذاق کا ایک حصہ ہو۔
جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں‘ موجودہ حکمران ٹولے سے گلوخلاصی کا ایک نرم طریقہ ہے، مخمل جیسا نرم اور ملائم۔ شور مچ رہا ہے تو حکمران ٹولے کی طرف سے۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے تو کوئی ٹویٹ بھی نہیں آ رہی۔ سب کچھ قاعدے اور قانون، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اور آئین کے تابع ہو رہا ہے۔ فوج کی حرکت کوئی نہیں ہو رہی، گو نون لیگ والے شور مچائے جا رہے ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے اور ان کا اشارہ راولپنڈی ہی کی طرف ہے۔ جو عمل ہم دیکھ رہے ہیں ہے تو یہ قانون کی حکمرانی لیکن یہ احساس نون لیگ کو کیسے ہضم ہو؟۔
اس انتہائی دلچسپ کارروائی کے اختتام کے ہم منتظر تو ہیں لیکن کچھ نتائج ابھی سے مرتب ہو چکے ہیں۔ یہ اب ایک مفلوج اور بے جان حکومت ہے‘ جو ٹھہر چکی ہے‘ جو اب ڈھنگ سے حکمرانی کرنے کے قابل نہیں رہی۔ پانی سر سے بلند ہو رہا ہے‘ لیکن حکمران ٹولہ اس عمل کو روکنے سے مکمل طور پر قاصر ہے۔ ہم نے پی پی پی کو دم توڑتے دیکھا۔ اب ہم نون لیگ کی ہچکیاں سن رہے ہیں۔ یقینا نون لیگ اپنا وجود رکھے گی جیسا کہ پی پی پی بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی‘ لیکن اس کی طاقت تحلیل ہو رہی ہے اور ہمارے سامنے تاریخ کا ایک باب اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔
سیاسی طاقت کے بل بوتے پر دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹنے کو حکمرانوں نے ایک فن کا درجہ دے دیا تھا۔ ہماری سیاست میں ہمیشہ سے ہی دولت کی کارفرمائی رہی ہے لیکن شریفوں نے اس عمل کو ایک اور جہت عطا کر دی۔ جیسا کہ حسن نثار نے اپنے ایک حالیہ کالم میں کہا، انہوں نے سیاسی نظام مکمل طور پر آلودہ کر دیا۔ حالت یہ ہو گئی تھی کہ لگتا تھا جیسے ان کی طاقت لامحدود ہو گئی ہے۔ سیاسی پنڈتوں کی ایک کھیپ اس پیش گوئی میں مصروف رہی کہ اگلے انتخابات نواز شریف کی جیب میں ہیں۔ لیکن قسمت کا کھیل دیکھیں کہ عین اس وقت جب نون لیگ کا تکبر عروج پر تھا آسمان سے پاناما لیکس کی بجلی ان کے خوابوں اور تعبیروں پر آن گری۔ غرور کی سزا... اس ڈرامے کا اس سے بہتر کوئی عنوان نہیں ہو سکتا۔