مجھ جیسے گنہگار کو تو یوں لگ رہا ہے کہ یہ سب کچھ کسی انسانی کاوش کے طفیل نہیں بلکہ آسمانی فیصلے ہیں جن کی ایک شکل ہم دیکھ رہے ہیں۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کسی معجزے سے کم نہیں اور پاکستان کی تاریخ میں ایک مستند دستاویز کے طور پر محفوظ رہے گی۔
مملکت میں کون سا بشر تھا جو یہ ماننے کو تیار تھا کہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق 60 دن کے اندر اند ر اپنا کام مکمل کر لے گی؟ جے آئی ٹی نے وہ کر کے دکھایا جس کی توقع نہ تھی۔ کہہ رہے تھے کہ forensic تفتیش نہیں ہو سکے گی۔ باتیں اڑائی جا رہی تھیں کہ ڈاکومنٹری ثبوت کہاں سے آئیںگے۔ لیکن ساری جھوٹی کہانیوں کو ڈاکومنٹری ثبوت کے ساتھ جے آئی ٹی نے ایسا بے نقاب کیا کہ یقین نہیں آ رہا۔
نواز شریف صاحب کے کھاتے بھی ایسے کھلے ہیں، مریم صفدر کی کہانیاں ایسے سامنے آئی ہیں،لیکن نہ ماننے والوں کا تو علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہ تھا۔ وہ تو سامنے لکھی ہوئی تحریر، سامنے عیاں حقیقت، کو نہ مانیں لیکن نواز شریف بھی ایک آف شور کمپنی کے مالک نکلے، مریم صفدر نیسکول اور نیلسن کی اصل مالکن نکلیں، دوبئی سے رقم کی منتقلی جھوٹی کہانی ثابت ہوئی، طارق شفیع کے بیانات بھی افسانہ نکلے۔
لیکن ڈھٹائی تو دیکھئے کہ جب جے آئی ٹی کے ممبران اپنے ہمراہ دو ٹرالیوں میں اپنی رپورٹ سپریم کورٹ لا رہے تھے تو مریم صفدر نے ٹویٹ کیا کہ دیکھیں شریف خاندان کے سارے ثبوت آ رہے ہیں۔ ایسی باتوں پہ سر پکڑا جائے یا سینہ کوبی کی جائے؟ یہ ہمارے طویل ترین حکمران رہے ہیں اور یہ ان کا رویہ اور مزاج ہے۔ سالوں پر محیط ان کی کار گزاریاں، دولت کے انبار عیاں لیکن ہر الزام سے تردید اور تواتر سے پارسائی کے دعوے‘ تاہم عالم غیب سے پاناما کی مصیبت کیا گرنی تھی کہ تمام کی تمام کہانیاں دھری رہ گئیں اور حکمران خاندان ایسا پکڑا گیا کہ پوری پاکستانی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
ذرا غور کیجیے، وزیر اعظم صاحب جے آئی ٹی کے سامنے خالو جان محمد حسین کے وجود سے بھی انکار کرتے رہے۔ اڑھائی گھنٹے کی پوچھ گچھ کے بعد پھر آمادہ ہوئے کہ محمد حسین خالو ہیں۔ یہ تو ہیں ہمارے ان حکمرانوں کے پیمانۂ صداقت۔
اب رہ کیا گیا ہے؟ کچھ نام نہاد قانونی ماہرین اور میڈیا کے کچھ حصے اب بھی شریفوں کے لئے گنجائش نکالنے کی تگ و دو میں ہیں۔ ایسے ایسے نکتے گھڑے جا رہے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ لیکن اب صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ فرار کی تمام راہیں بند ہوتی جا رہی ہیں۔ نااہلی کا بھوت وزیر اعظم کے سامنے تلملا رہا ہے۔ دو جج صاحبان نے تو پہلے ہی نااہلی کی سفارش کر دی تھی۔ اب جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد شک کی کون سی کروٹ باقی رہ جاتی ہے؟
لیگی ڈھنڈورچی اور وزرا‘ جو اپنا محلِ اقتدار چور چور ہوتے دیکھ رہے ہیں‘ تو آخری دم تک چلاتے رہیں گے کہ جے آئی ٹی جانبدار تھی، ہم سے زیادتی ہو رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن انہیں اب کچھ سمجھ آنی چاہیے کہ ان کی قیادت کہاں پھنس چکی ہے اور اس کے ساتھ ہونے کیا جا رہا ہے۔ لیگی حلقے‘ جو اپنے لئے یہ تسلی ڈھونڈ رہے ہیں کہ معاملہ شاید نیب کو جائے‘ یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے تناظر میں پہلا فیصلہ نااہلی کا ہونا ہے‘ اور ساتھ ہی ساتھ دو اور چیزوں کا بھی امکان ہے: (1) نیب کو ریفرنس اور (2) فوجداری مقدمات کا انعقاد۔
لیگی قیادت کو بغور جے آئی ٹی رپورٹ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ وہ جوں جوں اس کی گہرائی میں جائیں گے تب ان کو سمجھ لگے گی کہ ان کے خلاف کس بھیانک نوعیت کے الزامات کھڑے ہو گئے ہیں۔
جو لوگ سادگی میں یہ بھولی تجویز دے رہے ہیں کہ وزیر اعظم کو خود بخود منصبِ اقتدار سے اتر جانا چاہیے‘ ان کے مزاج سے ناآشنا ہیں۔ اتنی اخلاقی جرات ہوتی تو یہ کہانیاں‘ جو جے آئی ٹی نے بے نقاب کی ہیں‘ نہ گھڑی جاتیں۔ حقائق اور صداقت سے اتنی روگردانی نہ کی جاتی۔ اتنی معصومیت کا لبادہ نہ اوڑھا جاتا۔ اب کہاں سے ایک دم اخلاقی جرات آن ٹپکے گی؟ وزیر اعظم صاحب نے تو ایک بار فرمایا تھا کہ کسی کمیشن کی رپورٹ میرے خلاف آ گئی تو میں گھر چلا جاؤں گا۔ اس رپورٹ کے بعد کسی حیلے بہانے کی جگہ رہ جاتی ہے؟ لیکن کوشش یہی رہے گی کہ آخری دم تک اقتدار سے چمٹے رہیں‘ اس امید کے ساتھ کہ کوئی معجزہ ان کے حق میں بھی آ جائے اور ان کی بچت کا سبب بنے۔
کیا انہیں سمجھ نہیں کہ وقت کی دھار کتنی تیز ہے اور کس رفتار سے حالات آگے کو جا رہے ہیں؟ وہ لوگ جو تکیہ کیے بیٹھے ہیں کہ سپریم کورٹ کی کارروائی بہت لمبی ہو گی‘ احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کاہلی کا شکار ہوتی تو جے آئی ٹی اس تن دہی سے مقررہ مدت میں کام نہ کر سکتی۔ اور اعلیٰ عدالت نے اگر اب کاہلی کو دعوت دینی ہوتی تو وہ یہ حکم نہ صادر کرتی کہ اگلے سوموار کو ہی کارروائی شروع ہونی ہے۔
پاکستان کی تاریخ کا ایک باب ختم ہونے کو جا رہا ہے اور نئی وسعتیں، نئی جہتیں، نئی امیدیں سامنے آ رہی ہیں۔ ناقدین کو بھی، جن کی کمی نہیں ہے، عمران خان کی ہمت کو داد دینی چاہیے۔ جب ہر طرف ناامیدی چھائی ہوئی تھی اس نے اپنا عزم اور حوصلہ نہ کھویا اور پاناما کے مسئلے کو اٹھائے رکھا۔ اور پھر ہوتے ہوتے یہ مسئلہ سپریم کورٹ کو پہنچا اور وہاں جو اقدامات کئے گئے‘ وہ بالآخر جے آئی ٹی کی تشکیل پر منتج ہوئے۔
ان لوگوں کی کوئی کمی نہ تھی جو یہ چلاتے رہے کہ یہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے اور اس سے کچھ نہیں نکلے گا۔ پیپلز پارٹی اس مسئلے کو سپریم کورٹ میں لے جانے کے سرے سے مخالف تھی۔ آصف زرداری اور خورشید شاہ دوغلی باتیں کرتے رہے۔ پاکستان کے نادر علامہ، شیخ الاسلام طاہرالقادری بھی فتویٰ فرما گئے کہ جے آئی ٹی ن لیگ کا انتخابی منشور لکھ رہی ہے۔ یعنی یہ کہ جے آئی ٹی شریفوں کو سفید چونا لگا کے پارسائی کا سرٹیفکیٹ جاری کر دے گی۔ کیا اب ایسے پنڈتوں اور دانشوروں کو کچھ ندامت ہو گی؟ پاکستان میں لیکن اپنی غلطی کا اقرار کرنا قومی مزاج کے منافی ہے۔
میڈیا کی بھی بڑی بڑی توپیں مطلع دھندلانے اور قوم کو کنفیوز کرنے کی بھرپور کوشش کرتی رہیں۔ 10 تاریخ کو‘ جب رپورٹ پیش ہونا تھی‘ بھی مخصوص اخبارات نے کیا سنسی خیز خبر گھڑی تھی کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں نواز شریف پہ کوئی حرف نہیں آئے گا۔ اس پر وفادار حلقوں نے کیا کیا تالیاں نہ بجائیں۔ بعد از دوپہر جب رپورٹ کے مندرجات سامنے آنے لگے تو صاف ظاہر ہو گیا کہ یہ کہانیاں مخصوص ذہن اور نیت کی اختراع تھیں۔ کوئی ندامت ہو گی؟ ہرگز نہیں اور کہانیاں گھڑنے کا عمل جاری و ساری رہے گا کیونکہ اصول اور حق پرستی بعض حلقوں کے لئے محض نعرے ہیں۔ مقدم ہے تو مفاد ہے اور اس کے سامنے کسی اور چیز کی کوئی حیثیت نہیں۔
لیکن چالاکی کہاں تک چلتی ہے۔ ابراہم لنکن نے کیا کہا تھا کہ تمام اشخاص کو ہر وقت بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ پاکستانی قوم کا بھی بے وقوف بننے کا وقت اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔