"AYA" (space) message & send to 7575

فیصلہ کون نہیں مانے گا؟

ممتاز قادری کی پھانسی کے وقت راولپنڈی اور گرد و نواح میں کہیں زیادہ ٹینشن تھی اور امن و امان کو شدید خطرہ تھا ۔ یہاں تو سوائے ٹی وی پہ چیخ و چنگھاڑ کے کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ اور وزیر اعظم کہتے ہیں کہ اس قسم کا احتساب کوئی نہیں مانے گا۔ پسینے چھوٹ چکے، پریشانی سر سے اوپر جا چکی، اگلے وزیر اعظم کے بارے میں کنفیوزڈ قسم کی سوچ بچار ہو رہی ہے اور یہ فرمان ہے کہ عوام فیصلہ نہیں مانیں گے۔ 
عوام کیا بھیڑوں کا ریوڑ ہے؟ آنکھیں کیا اس کی بند ہیں؟ پاناما کے مقدمے نے تو ان کی ایسی تعلیم بالغاںکر دی ہے کہ جنہیں لندن جائیدادوں کے حوالے سے زیادہ خبر نہ تھی‘ وہ بھی شریف خاندان کے سچ اور صداقت کے پیمانے جان گئے ہیں۔ بے چارے ن لیگ والے گھسے پٹے جملوں کے علاوہ کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔ 
دیر کا جلسہ‘ جس میں وزیر اعظم خوب چنگھاڑے یوں سمجھیے کہ فیصلے سے پہلے آخری للکار ہے۔ بولے کہ اوروں سے زیادہ انہیں اپنی عزت عزیز ہے۔ اس پہ کیا کہا جائے؟ عزت کی کچھ لاج ہوتی تو یہ سارے ڈرامے‘ جو کہ درحقیقت اب لطیفے بنتے جا رہے ہیں‘ نہ رچائے جاتے۔ کچھ دلیری دکھائی ہوتی۔ کچھ سچ کا سہارا لیا ہوتا۔ ایسی کہانیوں کی‘ جو شریف خاندان اور مجبوراً ان کے وکلا سپریم کورٹ میں گھڑتے آئے ہیں‘ پاکستانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ بڑے بڑے فنکار ہماری سیاست کے اکھاڑے میں آئے لیکن ان سب کو ہمارے موجودہ حکمرانوں نے مات دے دی۔ یہ بھی کہا کہ عزت پہ ایسے حملے ان کی برداشت سے باہر ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی عزت پہ یہ حملے خود ساختہ ہیں۔ جتنے انہوں نے عجیب و غریب کہانیاں گھڑ کر اپنی عزت پہ حملے کئے‘ اتنے ان کے بدترین دشمن بھی نہ کر سکتے تھے۔ 
ن لیگ اقتدار کی جماعت ہے۔ اقتدار میں رہ کے ہی چمکتی ہے اور شیر نما بن جاتی ہے۔ اب جب وہ گھیرے میں آ چکی ہے تو اس کی شکل ابھی سے ہی بدلتی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس تاریخی مقدمے کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ لیکن آثار بتاتے ہیں کہ اب کچھ دنوں کی بات ہے۔ اگلے منگل نہیں تو بدھ کو فیصلہ آ جانا چاہیے۔ اور جب یہ فیصلہ آ جائے تو پھر اس بات کا بھی فیصلہ ہو جائے گا کہ کون مانتا ہے اور کون فیصلے سے مُنکر جاتا ہے۔
وزیر اعظم اپنی عزت کو رو رہے ہیں۔ انہیں کچھ اوروں کی عزت کا بھی خیال ہوتا۔ نواز شریف صاحب کے ساتھ تو جو ہونا ہے وہ ہو گا لیکن ان کے وکلا، تمام کے تمام، اس مقدمے میں رُل کے رہ گئے۔ ہمارے دوست سلمان اکرم راجہ کا اچھا بھلا نام تھا‘ لیکن وزیر اعظم کے صاحبزادگان کے وکیل کیا ٹھہرے اور کیسی کیسی افسانوی دستاویزات عدالت عالیہ کے سامنے پیش کیں کہ وہ بھی ایک مذاق بن گئے ہیں۔ دیگر وکلا کا تو ذکر ہی کیا۔ وہ تو اس مقدمے کی دُھول میں ایسے گم ہوئے کہ ڈھونڈے نہیں ملتے۔
وزیر اعظم صاحب کی اب آخری امید یہ لگتی ہے کہ وہ جائیں تو سب کچھ جائے۔ کچھ نہ بچے، نہ جمہوریت نہ نظام۔ ان کو تو یہ سوٹ کرتا ہے کہ سب کچھ کا بوریا بستر لپیٹا جائے اور عسکری ادارہ سامنے آ جائے۔ تبھی ان کی کارروائیوں پر پردہ پڑے اور قوم کسی اور الجھن میں پھنس جائے اور یہ جمہوریت کے شہید کہلائیں۔ یہ تو ہے ان کی امید لیکن ایسا کچھ ہونے نہیں جا رہا۔ پاناما کی تمام کارروائی آئینی طریقہ کار اور عدالت عالیہ کے نیچے ہوئی۔ جے آئی ٹی بنی تو عدالت عظمیٰ کے حکم پر‘ اور فیصلہ آئے گا تو عدالتِ عظمیٰ کا۔ اس سارے قصے میں ن لیگ کے لئے عافیت کا سامان ذرہ برابر بھی نہیں ہے۔
1993ء میں نواز شریف صاحب کے صدر غلام اسحاق خان سے اختلافات پیدا ہوئے تو وہ عوامی لیڈر بن کے اُبھرے۔ 1999ء کے عسکری اقدام کے بعد وہ جمہوریت کے چمپیئن ہو گئے‘ لیکن پاناما کی کارروائی نہ کوئی صدارتی اقدام ہے نہ فوجی شب خون‘ اور اس نے شریف خاندان کے کارناموں کو ایسا بے نقاب کیا ہے کہ اب کوئی گنجائش نہیں رہی کہ نواز شریف کسی نئے الم کے چمپیئن بنیں۔
ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور یہاں تو‘ جیسا کہ عیاں ہو گیا‘ تمام حدیں پھلانگ لی گئیں۔ کتنی چیزوں سے بچ نکلے۔ کہنے کو تو کہتے ہیں کہ احتساب ہمارا تین پشتوں سے ہوا۔ حقیقت میں ہر بار جب کچھ ہونے کو تھا تو بچ نکلے۔ گھر پہنچانے کے لئے تو اسحاق ڈار کا منی لانڈرنگ کے بابت اعترافی بیان ہی کافی تھا‘ لیکن وہ جلا وطنی کی نذر ہو گیا۔ بینکوں سے قرضے لئے گئے اور سالہا سال تک واپس نہ کئے گئے۔ 1990ء کے الیکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ دھاندلی ہوئی اور آئی ایس آئی نے ن لیگ میں رقوم تقسیم کیں۔ اس فہرست میں نواز شریف اور شہباز شریف کا نام نمایاں تھا۔ لیکن کیا کہنے دوستانہ عدلیہ کے کہ اس سکینڈل کا کچھ نہ بنا۔ کچھ عرصہ پہلے وزیر اعظم نواز شریف نے ایف آئی اے کو ایک تحریری بیان دیا تھا کہ الیکشن کے موسم میں بہت لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے۔ انہیں یاد نہیں پڑتا کہ 1990ء کے الیکشن میں آئی ایس آئی سے منسلک کسی نے انہیں رقم دی۔ لیکن اگر ایسی کسی رقم کا لین دین ہوا تو وہ مع سود واپس کرنے کو تیار ہیں۔ اسے کہتے ہیں معصومیت۔ 
جے آئی ٹی میں بھی وزیر اعظم نے ایسے ہی جوابات دیے۔ فلیٹس کے بارے میں انہیں کچھ یاد نہ تھا۔ تمام خاندانی لین دین سے وہ بے خبر تھے۔ قطری شہزادے سے کسی معاہدے کے بارے میں بھی زیادہ نہیں جانتے تھے۔ پاناما پیپرز کی بدولت شریف خاندان کے چُھپے ہوئے کاروبار اور آف شور کمپنیوں کے بارے میں دنیا جان گئی‘ لیکن سادگی دیکھئے کہ وزیر اعظم اور ان کا خاندان اس بات پر مُصر ہے کہ ہم نے تو کچھ نہیں کیا۔
ماڈل ٹاؤن کا قصہ بھی تقریباً پی گئے۔ ذرا سوچئے کہ یہ کسی پی پی پی حکومت کا کیا کرایا ہوتا تو اس کا حشر کیا ہوتا۔ ان کو سلگتے کوئلوں پہ کھینچا جاتا۔ لیکن یہ ہیں کہ اتنا بڑا واقعہ ہوا اور وہ پی گئے۔ لیکن وقت وقت کی بات ہے۔ اتنا بچنے کے بعد پاناما کا معاملہ کیا آسمان سے گرا کہ اس میں وزیر اعظم اور ان کے تمام قریبی رشتہ دار پھنس کے رہ گئے۔ ماڈل ٹاؤن واقعہ مکمل طور پہ دفن نہیں ہوا۔ کل کس شکل میں ڈراؤنے خواب کی طرح پھر نمودار ہو جائے‘ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
جو ہوا ہے اور جو ہونے جا رہا ہے کسی انہونی سے کم نہیں۔ کسی کو اس کا ادراک نہ تھا۔ ایک سال پہلے کوئی نہ سوچ سکتا تھا کہ بھاری مینڈیٹ کے ساتھ یہ ہو گا، سپریم کورٹ مسئلہ سنے گی، ایک جے آئی ٹی بنے گی اور تمام کا تمام کچا چٹھا سامنے آ جائے گا۔ موسم بدلا یا قسمت کی دیوی نے انگڑائی لی؟ ایک ہی پیرِ کامل تھا، صدر ممنون حسین، جس نے ایک سال پہلے کہہ دیا تھا کہ یہ مسئلہ آسمان سے گرا ہے اور آپ دیکھیں گے اس میں کون کون سے نام آتے ہیں۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بات سچ ثابت ہوئی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں