"AYA" (space) message & send to 7575

پاناما کیس کی اہمیت کیا ہے؟

یہ کیس‘ جس نے ایک سنسنی خیز کیفیت اختیار کر لی ہے‘ کسی ایک شخص یا ایک خاندان کی مبینہ کرپشن، جعلسازی اور دیگر بدعنوانیوں کا نہیں ہے۔ اس کی اہمیت اس خاندان کے گناہ، بے گناہی یا ممکنہ مستقبل سے کہیں زیادہ ہے‘ کیونکہ اس سارے ماجرے سے یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ اگر آسمانوں نے ہم پہ رحم کیا تو شاید اس ملک کی حالت بدل جائے اور وہ آرزوئیں‘ جو اس ملک کے معرض وجود میں آنے میں پنہاں تھیں‘ پوری ہوتی دکھائی دیں۔
ہمارا مسئلہ کبھی ایمان کی کمی نہیں رہا۔ مسئلہ یہ نہ تھا کہ اسلام سے ہماری وابستگی کمزورتھی‘ بلکہ جس معاملے نے قومی قوتوں کو مضمحل کیا وہ ہماری نالائق قیادتیں تھیں۔ کوئی ایک قیادت نہیں بلکہ پورے کا پورا کاروان۔ جو سورما آئے پہلے سے زیادہ بگاڑ کرکے گئے۔ ابتدائی برسوں میں‘ جب جمہوریت اپنے پاؤں پر مضبوطی سے کھڑی نہ ہوئی تھی‘ ہم ڈکٹیٹرشپ کی طرف چل پڑے۔ جو کسر جمہوری حکومتیں پوری نہ کر سکیں وہ فوجی آمر کر گئے۔ ایشیا میں کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں‘ جہاں فوجی آمروں نے اپنی قوموں کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا۔ جنوبی کوریا میں ایک فوجی آمر جنرل پارک چنگ ہی نے Modernization کی بنیاد رکھی۔ سنگاپور میں لی کووان یو فوجی تو نہ تھے‘ مگر آدھے آمر ضرور تھے۔ تائیوان کوبھی ترقی پذیر بنانے میں ایک فوجی آمر جنرل Chiang Kai-shek کا بڑا ہاتھ تھا۔ ہانگ کانگ کی ترقی انگریز سامراج کی مرہون منت رہی۔ ہماری قسمت تھی کہ ہمارے فوجی آمر بھی نالائق نکلے۔
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ درسِ جمہوریت ہمارا اپنا نہ تھا۔ وہ انگریزوں کا ورثہ تھا۔ جنہیں ہم ادارے کہتے ہیں وہ ہمارے تخلیق کردہ نہ تھے۔ قانون کی حکمرانی ہماری تہذیب یا تاریخ کا کب حصہ تھا؟ غالباً یہی وجہ ہے کہ اب تک ایسے تصورات ہمارے خمیر کا حصہ نہیں بن سکے۔ یہ تلخ حقیقت ہے‘ لیکن اس سے پہلوتہی آسان نہیں کہ جب تک انگریزوں کا اثر رہا‘ ہماری حکمرانی ٹھیک چلتی رہی۔ جو کرپشن، بدعنوانی اور اقربا پروری اب دیکھنے کو ملتی ہے‘ اوائل برسوں میں اتنے زوروں پر نہ تھی۔
جنرل ایوب خان کے زمانے میں ہمارے جمہوری حلقوں نے اپنے ایمان کا جزو بنا لیا کہ الیکشن ہو جائیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ 1970ء میں پاکستان کے پہلے عام انتخابات ہوئے اور ایک سال کے اندر ہی ملک دو لخت ہو گیا۔
جنرل ضیا کی آمریت گو بہت سخت تھی لیکن جمہوریت کی پیاس بجھ نہ سکی۔ تب جمہوری ایمان کا اولین نکتہ یہ بنا کہ جمہوریت بحال ہو جائے تو پاکستان کامرانی اور خوشحالی کے سفر پر چل نکلے گا۔ جمہوریت آئی تو ایسے ایسے بازارِ کرپشن سجے کہ ماضی کی یادیں ماند پڑ گئیں۔ نواز شریف وغیرہ جنرل ضیا کے پیروکار اور بعد میں باقیات ٹھہرے۔ اس ٹولے نے فوجی چھتری تلے دولت کے ایسے انبار لگائے کہ پاکستان میں ایک نئے سیاسی کلچر نے جنم لیا۔ بے نظیر بھٹو اور ان کی پی پی پی‘ دونوں جمہوریت کے علمبردار تھے۔ انہوں نے بھی دولت کی اس دوڑ میں اپنے آپ کو پیچھے نہ رکھا۔
جنرل مشرف قوم کو درست کرنے نہیں آئے تھے۔ انہوں نے اور وجوہ کی بنا پر اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ نواز شریف صاحب نے انہیں ہٹانے کی کوشش کی‘ لیکن چونکہ بندوق ان کے ہاتھ میں تھی اور فوج کے Divisions وہ (پرویز مشرف) کمانڈ کر رہے تھے‘ چنانچہ انہوں نے نواز شریف کو ہٹا دیا۔ بہرحال دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں بدنام ہو چکی تھیں۔ عام لوگ ان سے اکتائے ہوئے تھے۔ یہ موقع تھا ایک نئی سیاسی شروعات کا‘ لیکن شاید سوچ کی کمی آڑے آئی یا تاریخی شعور اتنا نہ تھا۔ مشرف گِھسے پِٹے راستوں پر چلنے لگے‘ اور یہ موقع گنوا دیا۔
دیگر ممالک جو جمہوریت کا نام لیتے ہیں‘ ان میں 30-35 سال بہت طویل عرصہ سمجھا جاتا ہے۔ حکومتیں آتی جاتی ہیں اور نئی قیادتیں ابھرتی ہیں۔ لیکن ہمارا حال دیکھیے کہ پچھلے 35 سال سے وہی چہرے سامنے ہیں۔ ان چہروں کی دولت سے رغبت ایک طرف، لیکن ان کو نہ تو پاکستان کے مسائل کا ادراک ہے اور نہ ہی ان مسائل کا کوئی حل ان کے پاس ہے۔ وہی پرانی تقریریں، وہی کہنہ وعدے، وہی میگا پروجیکٹس۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم وہیں کے وہیں ٹھہرے ہوئے ہیں۔
پاناما ایک ایسی جگہ ہے کہ بیشتر پاکستانی شاید اسے دنیا کے نقشے پہ ڈھونڈ بھی نہ پائیں‘ لیکن جہاں سے بھی یہ طوفان ابھرا ہے اس نے پاکستانی سیاست کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ مضبوط پاؤں‘ جن کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ کبھی نہ لڑکھڑائیں گے‘ اس دلدل میں پھنس اور دھنس چکے ہیں۔ بظاہر زد میں تو ایک خاندان ہے‘ لیکن معاملہ ایسا ہے کہ ہمارا مستقبل اس سارے معاملے اور اس کے ممکنہ اختتام سے جڑا ہوا نظر آتا ہے۔ نتیجہ تو ابھی باقی ہے لیکن اب تک جو جھٹکے لگ چکے ہیں‘ انہوں نے ہر چیز کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔
یہ بات بہت دفعہ کہی جا چکی ہے کہ 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں تک ہم ایشیا کے بہت سارے ممالک سے بہت ساری چیزوں میں آگے تھے۔ آج وہ سب ممالک ہم سے کہیں آگے ہیں اور ہم ان سے بہت پیچھے۔ کیا کمی تھی ہماری قومی زندگی میں کہ ایسا ہوا؟ پوچھا تو یہ جاتا ہے کہ فلاں قوم کی ترقی کا راز کیا ہے؟ ہمیں تو پیچھے رہ جانے کا راز ڈھونڈنا پڑ رہا ہے۔ ہمارے جیسے ممالک میں جہاں سوچ Backward ہے اور سیاسی کلچر فرسودہ‘ اداروں سے زیادہ قیادت کی اہمیت ہے۔ بیشتر ادارے تو ہم نے تباہ کر ہی دیے۔ ان کی بحالی اب درست قیادت سے ہی ممکن ہے۔ 
ہم تو چھوٹی موٹی سازشوں کے ماہر ہیں۔ موجودہ حکمران ٹولے کی ساری سیاسی زندگی سازش اور اسٹیبلشمنٹ سے گٹھ جوڑ سے عبارت ہے۔ عسکری سازشوں کا بھی ایک پرانا Pattern یا خدوخال ہیں۔ پاناما جیسا سیکنڈل ہماری صلاحیتوں سے باہر تھا۔ آج کے انوکھے جمہوریت پسند تو سازش کا واویلا کر رہے ہیں‘ لیکن اگر سازش تھی تو آسمانوں پہ۔ اور اب تو لگ رہا ہے کہ سارا منظر نامہ ہی بدلنے کو ہے۔ اب کیا ہوتا ہے‘ نجومی اور سنیاسی ہی اندازہ لگا سکتا ہے‘ لیکن اتنا طے ہے کہ پرانی سیاست نہ چل سکے گی۔ یہ نہیں ہو گا کہ طوفان گزر جائے اور اس کے اثرات نہ رہیں۔ قوم کی سوچ آگے کو جا چکی ہے۔ ہم سوشل میڈیا کا ہی جائزہ لیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ قوم کا حسِ مزاح اپنے عروج پر پہنچا ہوا ہے۔ حکمرانوں کے بیانات اور تاویلوں پر ایسے ایسے جملے کسے جا رہے ہیں کہ ہنسی رکنے کا نام نہیں لیتی۔ ایک جاری کمنٹری تو ہر شام ٹی وی چینلز پر ہوتی ہے‘ لیکن اس سے کہیں دلچسپ سوشل میڈیا پر۔ اورکچھ نہیں تو پاناما کیس نے قوم کی تعلیم ضرور کر دی ہے۔ اور یہ ایک لکیر سمجھی جائے گی: پاکستان پاناما کیس سے پہلے اور پھر اس کے بعد۔
اگر کوئی سمجھے کہ اس کے بعد بھی قوم بے وقوف بنی رہے گی تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں