یہ قصہ تو تمام ہوا۔ جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ بہت سارے لوگوں نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں لیکن نوشتہء دیوار یہ تھا کہ نواز شریف کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ آئین اور قانون اپنی جگہ اور نواز شریف اور ان کے خاندان کی سچ سے پہلوتہی بھی ایک طرف‘ قدرت کا بھی ایک قانون ہے اور ایک نظام۔ جیسا کہ ابراہم لنکن نے کہا تھا: کچھ لوگوں کو آپ کچھ دیر کے لئے تو بیوقوف بنا سکتے ہیں‘ لیکن ساری مخلوق کو ہمیشہ کے لئے نہیں۔
اتنی طویل حکمرانی کسی اور خوش نصیب کی پاکستانی تاریخ میں نہیں رہی۔ کہاں 1981ء‘ جب ایک فوجی گورنر نے نواز شریف کو پنجاب کا وزیر خزانہ چُنا اور کہاں 2017ء اور تیسری بار کی وزارتِ عظمیٰ۔ یعنی ایک پوری عمر بیت گئی ان کے دورِ عروج کی‘ اور یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے اچھے دنوں کا سورج کبھی نہیں ڈھلے گا۔ لیکن بدعنوانی اور ہیرا پھیری کی بھی اتنی ہی لمبی داستان کہ اس کی نظیر ہماری قومی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ بہت ساری چیزوں سے بچتے رہے اور انہیں یقین کامل تھا کہ قدرت کا یا کسی اور کا ہاتھ ان پر کبھی نہیں پڑے گا۔
فیصلہ اب ہمارے سامنے ہے۔ گو ہم میں سے بہت ساروں کو یہ یقین تھا کہ یہ ایسا ہی آئے گا کیونکہ جھوٹ کے انبار بہت بڑے تھے‘ اور سچ نام کی چیز ان کے دفاع میں کوئی پیش نہ ہو سکی۔ پھر بھی جب فیصلہ آیا تو یوں لگا کہ زمین ہل کے رہ گئی ہے۔ بدنامی تو ایک طرف، اب نیب میں ریفرنسز بھی ہوں گے‘ تاریخیں بھی پڑیں گی اور ضمانتیں بھی کرانا پڑیں گی۔ پیشیاں بھگتنی ہوں گی۔ اور کوئی بعید نہیں کہ مزید فائلیں کھل جائیں اور مزید مقدموں کا سامنا بھی کرنا پڑے۔
اگر اصغر خان کیس ہی دوبارہ کھل جائے اور اس پر کارروائی ہو تو ن لیگ میں بہتوں کو جان کے لالے پڑ جائیں۔ اصغر خان کیس کی زد میں شہباز شریف بھی آتے ہیں۔ اوروں نے تو اور ذریعوں سے 1990ء کے انتخابات کے دوران پیسے لیے ہوں گے‘ شہباز شریف کو مبینہ طور پر بائیس لاکھ کی TT کی گئی تھی۔ اگر یہ کھاتہ کھلتا ہے تو خادم اعلیٰ اس کا کیا جواب دیں گے؟
ماڈل ٹاؤن کیس بھی پڑا ہے۔ اس میں اگر پیش رفت ہوئی تو خادم اعلیٰ اور رانا ثناء اللہ کا کیا بنے گا؟ 14 لوگ پولیس گولیوں سے مارے گئے۔ ان میں دو عورتیں بھی تھیں، 60-70 افراد گولیوں سے زخمی ہوئے‘ اور اب تک معاملہ کہیں گم ہے‘ اور جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ بھی کہیں گمشدہ کونے میں پڑی ہوئی ہے۔ اگر ہمارے نرالے شیخ الاسلام، ڈاکٹر طاہرالقادری سنجیدگی سے یہ مسئلہ اٹھاتے ہیں اور پاکستان عوامی تحریک اس مسئلے کو سڑکوں پر لاتی ہے تو شہباز شریف مصیبت میں پڑ جائیں گے۔ غرضیکہ بہت سارے چھپے ہوئے معاملات ہیں اور وہ سب دوبارہ جان پکڑ کر اُٹھ سکتے ہیں۔ تو شریف خاندان کے مسائل اور معاملات‘ جو پہلے ہی بہت گمبھیر ہو چکے ہیں‘ مزید بگاڑ کا شکار ہو جائیں گے۔ نثار علی خان نے ٹھیک ہی نواز شریف کو صبر کی تلقین کی۔ نواز شریف نے اپنے دوسرے دورِ اقتدار میں بینظیر بھٹو کے خلاف ایسا احتسابی عمل شروع کیا کہ محترمہ کی ایک دن تاریخ راولپنڈی ہائیکورٹ میں پڑتی، دوسرے دن لاہور ہائیکورٹ میں اور تیسرے دن کراچی میں۔ ملک قیوم وہ جج تھے جن کے سامنے محترمہ کی پیشیاں ہوتیں‘ اور ان کا رویہ ایسا تھا کہ ایک دن تو باقاعدہ بینظیر رو پڑیں۔ وہ دن اگر نواز شریف یاد رکھیں تو شاید وہ اپنے لئے کچھ حوصلہ پیدا کر سکیں‘ کیونکہ ان کے امتحان کا ابھی تو ایک مرحلہ پورا ہوا ہے۔ دوسرا اب شروع ہو رہا ہے اور کہاں جاتا ہے اور یہ کتنی طویل داستان بنتی ہے‘ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
قدرت کا بھی نظام دیکھیے۔ نہ قطری خط کام آئے نہ کوئی مدد اُن اطراف سے آ سکی۔ راز‘ جو نہ کھلنے والے تھے‘ وہ کھل گئے۔ کون یہ سمجھ سکتا تھا کہ مریم بی بی کی آف شور کمپنی کی ملکیت بھی ثابت ہو جائے گی‘ یا یہ راز بھی افشا ہو گا کہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کے وزیر اعظم کی جیب میں عرب امارات کا ایک اقامہ نکل آئے گا؟ اور کون تصور کر سکتا تھا کہ جعلسازی کے ثبوت بھی پکڑے جائیں گے؟
پرانا سوال ہے۔ انسان کو کتنی دولت چاہیے؟ اس کا جی کتنی سے بھرتا ہے؟ اقتدار اور بے پنا ہ دولت لیکن نواز شریف اور ان کا خاندان پھر بھی مطمئن نہ ہوا اور یہ بڑے مناصب پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ مسلسل کاروبار میں ہاتھ پیر مارتے رہے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ پورے کا پورا خاندان رسوا ہو کے رہ گیا۔ بڑی بڑی بے عزتیاں پاکستانی تاریخ کے سورماؤں نے جھیلی ہیں‘ لیکن پاناما کیس کی شکل میں شاید اتنی رسوائی کسی اور خاندان کے نصیب میں نہ آئی ہو۔ ایسے لندن کے مہنگے فلیٹ کا کیا مزہ، ان کے رہنے میں کیا آسودگی؟ آصف علی زرداری نے بھی بڑے پیسے اکٹھے کیے۔ ساتھ ہی ساتھ بڑی رسوائی کمائی۔ دولت کا نشہ اور مزہ تو ہوتا ہی ہے لیکن اتنی بے عزتی بھی ہو تو پھر کیا فائدہ؟
بہرحال یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے۔ پاکستان کے لئے اس فیصلے کی اہمیت یہ ہے کہ جج صاحبان نے ایک مثال قائم کر دی ہے۔ یہ ثابت کر دیا ہے کہ بڑے سے بڑے پر ہاتھ پڑ سکتا ہے اور اگر پاکستان کے سب سے طاقتور خاندان کا یہ انجام ہو سکتا ہے تو یہ اوروں کے حصے میں بھی آ سکتا ہے۔
ن لیگ کے لئے چیلنج واضح ہے۔ اس نے نیا وزیر اعظم چننا ہے اور یہ اہتمام کرنا ہے کہ پارٹی انتشار کا شکار نہ ہو۔ نواز شریف کے بعد ایسی کوئی قد آور شخصیت نہیں جس کے پیچھے پارٹی متحد ہو کر کھڑی رہے۔ سینئر وزرا ایک دوسرے سے اچھے مراسم نہیں رکھتے‘ اور جو چند نام سامنے آ رہے ہیں‘ ان میں سے ہر کوئی اپنے آپ کو وزارتِ عظمیٰ کا حقدار اور اہل سمجھتا ہے۔ ن لیگ ان حالات سے کیسے نبٹتی ہے‘ یہ اس کے لئے بڑا ٹیسٹ ہے۔
پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچے گا اور عمران خان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ہی پاناما کے ایشو کو زندہ رکھا‘ اور بالآخر سپریم کورٹ میں لے گئے۔ لیکن پارٹی کیسے منظم ہوتی ہے اور انتخابات کے لئے اپنی تیاری کیسی کرتی ہے‘ یہ اِس کے لئے بڑا چیلنج ہے۔ بہت سے ن لیگی ممبران اسمبلی اپنے علاقوں میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور یہ سمجھنا کہ الیکشن میں ن لیگ کو شکست دینا آسان ہو گا درست سوچ نہیں۔ 2008ء کے الیکشن میں ق لیگ پر بُرے دن آ چکے تھے‘ لیکن پھر بھی قومی اسمبلی میں وہ 50-55 سیٹیں لے گئی۔ تو پی ٹی آئی کے لئے راستہ آسان تو ہو گیا ہو گا‘ لیکن آج کی صورتحال اور اقتدار حاصل کرنے میں بہت سے مراحل ابھی باقی ہیں۔
بہرحال ایک بات تو ہو چکی۔ پاکستان پر جس کرپٹ قسم کی سیاست کا قبضہ تھا وہ تو اس فیصلے سے ٹوٹ گیا۔ اب ایک نیا dynamic پیدا ہو گا۔ یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ نئی ہوائیں چلیں گی۔ اس میں پاکستان کی بہتری ہو سکتی ہے‘ کیونکہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ نااہل اور کرپٹ قیادت کا تھا۔ کیا پتا ہمارے دن بدلیں اور نئی چیزیں سامنے آئیں۔ قوم کو جے آئی ٹی اور سب سے بڑھ کر سپریم کورٹ کے جج صاحبان جنہوں نے یہ فیصلہ صادر کیا‘ کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ اور قدرت کی مہربانی کا بھی احساس ہونا چاہیے جس نے پاناما کا مسئلہ کہیں بادلوں سے ڈھونڈ کے پاکستان کے لئے ذریعہء نجات بنایا۔