جی ٹی روڈ ڈرامے کا کیا بنا ؟ زمین کون سی ہل گئی ۔ فرمان جاری ہوا کہ چودہ اگست کو آئندہ کا لائحہ عمل واضح کریں گے۔ کہنے کو کچھ ہوتا تو کہتے ۔ سخت کنفیوزڈ ہیں اوربڑھتی ہوئی مصیبتوں کا گھیرا ہے ۔نیب کی پیشیاں ہیںگو ان سے کترارہے ہیں ۔ پر کب تک ۔ پھر جانا ہی پڑے گا اورمزید عزت افزائی کاسامان میسر ہوگا۔
سپریم کورٹ نے حکم تو دیا کہ نیب مقدمات درج کرے اورتفتیش کرے ۔ لیکن ایک رکاوٹ ہے اورسب جانتے ہیں‘ وہ کیا ہے ۔ نیب کے چیئرمین ہمارے دوست قمر زمان چوہدری دہائیوں سے شریف خاندان کے وفادار ہیں ۔ ان کے ہوتے ہوئے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ نیب اس تندہی سے کام کرے جو جے آئی ٹی نے دکھائی؟جیسا کہ ہم جانتے ہیں چوہدری صاحب ٹال مٹول اورمعاملات کو قالین کے نیچے دھکیلنے کے ماہر ہیں۔
بہرحال سلطنت شریفیہ کی مصیبتوں میں اضافہ ہی ہوتاجارہاہے اوررونا دھونا بھی اسی رفتار سے جاری ہے ۔میاں نواز شریف تو رونے کے نئے ریکارڈ قائم کررہے ہیں ۔پر بات بن نہیں رہی ۔ ان کیلئے سب سے تکلیف دہ امر یہ ہے کہ اقتدار سے وہ محروم ہوگئے لیکن کوئی طوفان نہیں اٹھا ، کوئی زلزلہ نہیںآیا۔ مملکت کے طول وعرض میں معمول کی زندگی جاری ہے اورنئے وزیر اعظم جو ان کے اپنے نامزد ہیں‘ہر بات پہ جاتی امراء سے ہدایات نہیں لے رہے ۔اسحاق ڈار جو کہ نواز شریف صاحب کے سمدھی ہیں اورجو تقریباََ نائب وزیر اعظم کی حیثیت رکھتے تھے ان کے کئی پَر کاٹے جاچکے ہیں ۔ دو درجن کمیٹیوں کے سربراہ تھے ۔ہر معاملے میں ان کی ٹانگ اڑی ہوئی تھی ۔ لیکن اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی اور پرائیوٹائزیشن کمیشن کی سربراہی سے انہیں فارغ کردیاگیاہے ۔کیا یہ نوازشریف صاحب کی مرضی سے ہوایا شاہد خاقان نے خود ہی فیصلہ کیا ؟
وزیر اعظم خاندان شریفیہ سے نہیں ۔حالات کا جبر سمجھیے کہ ایسا ہوا ۔لیکن نواز شریف اوران کے خاندان کیلئے کیا یہ صدمہ کم ہوگا؟ ان کا بس چلتا تو ایسا نہ ہوتا ۔ جانشین تو مریم صفدر تھیں اورانہیں اس روپ میں باقاعدہ پیش بھی کیا جاتارہا ۔ پاناما پیپرز اوران سے اٹھنے والے ہنگامے کی بدبختی کہ جانشینی کی ساری تدبیریں خاک ہوگئیں ۔اس سکینڈل کے چھوٹے زخم شدہ تین ہیں:حسن ،حسین اوراسحاق ڈار ۔بڑے زخم شدہ نواز شریف اورمریم صفدر ہیں۔ اولاََوزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے ، دوئم جانشینی سے ۔پاناما سے پیدا شدہ غموں میں یہ بڑا غم گنا جائے گا۔
یہ قسمت کے کھیل ہیں ۔شاہد خاقان کا انتخاب بادل نخواستہ کیاگیا ورنہ شریفوں کے مزاج کے برعکس ہے کہ اقتدار میں حصہ کسی اور کو بھی دیں ۔اگر حالات ایسے ہی رہے تو شاہد خاقان اگلے دس ماہ تک وزیراعظم رہیں گے ۔وقت گزرنے کے ساتھ وہ خود فیصلے بھی کریں گے ۔ جیسے پہلے کہاگیا وہ ہربات کی اجازت رائے ونڈ سے نہ لیں گے ۔ آنے والے دنوں میں خاندانِ شریفیہ یہ سب کچھ کیسے برداشت کرسکے گا ؟نواز شریف ،دونوں صاحبزادگان اور صاحبزادی نیب کی پیشیاںبھگتیںاور شاہد خاقان ٹھاٹ سے حکومت کرے ۔کیا یہ تکلیف دہ امر نہ ہوگا؟ اورپھر درباری جن کی کوئی کمی نہیں کان میں کہتے پھریں گے کہ وزیراعظم اپنے بوٹوں سے بڑا ہوگیا ہے ۔اگر کلثوم نواز قومی اسمبلی میں پہنچ گئیں تو وفاداروں کا جمگھٹاان کے گرد ہوگا ۔پھر کوئی بعید نہیں کہ ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے بیچ سرگوشیاں اٹھیں کہ کلثوم نواز کو وزیراعظم ہونا چاہیے ۔ایسا ہوا تو خوب تماشا لگے گا اورپارٹی کے اندر انتشار کے آثار مزید واضح ہوں گے۔
لیکن لگتا نہیں کہ حالات ایسی کسی کارروائی کی اجازت دیں ۔بہت سوںکیلئے نواز شریف کوہی بطور وزیراعظم برداشت کرنا مشکل تھا۔بیگم کلثوم نواز کی وزیر اعظم بننے کی کوشش کو پذیرائی کہاں سے دستیاب ہوگی ؟
نوازشریف صاحب کو یہ بھی صدمہ لاحق ہوگا کہ وہ تو گئے لیکن نظام وہیں کا وہیںکھڑا ہے ۔کوئی اُلٹ پُلٹ نہیں ہوئی ۔مارشل لاء نہیں لگا، افواج حرکت میں نہیں آئیں ،پارلیمنٹ اپنی جگہ موجود ہے۔ اس طرح حالات کا معمول پہ رہنا ،معزول وزیر اعظم کو کہاں راس آسکتاہے ؟ان کی بات تو تب بنتی کہ وہ کہہ سکتے کہ دیکھیں جمہوریت برباد ہوگئی اورآمریت اصلی شکل میں یا حلیہ چھپا ئے قائم ہوگئی ۔پھر وہ اپنے آپ کو شہادت کے رتبے پر فائز کرتے اورایک بار پھر جمہوریت کے چیمپئن بن کے پیش ہوتے ،اس امید کے ساتھ کہ قوم ایک بار پھر بیوقو ف بننے کو تیار کھڑی ہے ۔لیکن جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں ایساکچھ نہیں ہوا ۔تمام چیزیں آئین اورقانون کے مطابق چل رہی ہیں ۔آزادیء اظہارپہ کوئی پہرا نہیں ہے اورنہ ہونا چاہیے۔ جس کا جو جی چاہے کہہ رہاہے ۔جی ٹی روڈ مارچ کے دوران نواز شریف صاحب نے خود بھی کوئی کسر نہ چھوڑی اور سپریم کورٹ ،خاص طورپہ پانچ رکنی بینچ، پر جودل میں آیا کہہ ڈالا ۔توہین عدالت کے مقدمات نے بننا ہوتا تو پچھتر بن سکتے تھے۔لیکن ایساکچھ نہ ہوا ۔ان کے رونے دھونے اورشورمچانے پر کوئی قدغن نہ لگی۔
یہی چیز ان کو مارے جارہی ہے کہ ان کی معزولی کے سوا دیگر تمام معاملات معمول سے چل رہے ہیں ۔وہ بھی کیا رانجھا ہوا کہ چلائے جائے اوراس کا کوئی نوٹس نہ لے ؟جی ٹی روڈ مارچ تو اس لئے کیا گیا تھا کہ ہر چیز اِدھر سے اُدھر ہوجائے ۔اپنے محبوب قائد کیلئے پنجاب کے عوام اٹھ کھڑے ہوں اورہر لب پہ یہ آواز ہو ''کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہاہے‘‘ ۔لیکن مارچ اپنے اختتام کو پہنچا ،نواز شریف جاتی عمرا جا بیٹھے اورمزیدکچھ نہ ہوا ۔ اسے کہتے ہیں فرسٹریشن(frustration)۔
ساتھ ہی ساتھ دو اطراف سے مسلسل نمک پاشی ہورہی ہے ۔عمران خان اورشیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے انہیں مزید پریشان کرنے کیلئے ۔شیخ الاسلام کے چاہنے والے بہت ہیں اور نقاد بھی ۔ پر ہرکوئی مانے گا کہ ان جیسا مقرر مملکت خداداد میں اِس وقت موجود نہیں ۔ مال روڈلاہور کے دھرنے کے موقع پر ان کی تقریر کیا تھی ،بس دھلائی تھی ۔کیا کیا القاب سے دونوں برادران کو انہوں نے نہ نوازا۔مطالبہ ان کا سید ھا سادا ہے ،کہ ماڈل ٹاؤن سانحہ کے متعلق جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ منظر عام پہ لائی جائے ۔واقعہ کے بعد شہباز شریف صاحب نے خود استدعا کی تھی کہ ایک جوڈیشل کمیشن بنایا جائے اوراگر ان کی ذات پہ معمولی حرف بھی آیا تو وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اپنی کرسی سے اتر جائیں گے ۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس باقر نجفی اس کام کیلئے نامزد ہوئے ۔انہوں نے معاملے کی چھان بین کی ،گواہوں کوسنا اورپھر باقاعدہ رپورٹ مرتب کی ۔رپورٹ میں لکھا کیاہے اورکس کو قصوروار ٹھہرایا گیا ہے جسٹس صاحب جانیںیا پنجاب حکومت ۔ لیکن شہباز شریف نے یہی بہتر سمجھا کہ رپورٹ کو صیغہ راز میں رکھاجائے ۔ ان سے پوچھا جائے ،کس لیے؟آخر چودہ جانیں جن میں دو خواتین بھی تھیں پولیس کی گولیوں کی نذر ہو گئیں۔60-70اشخاص گولیوں سے زخمی ہوئے اوریہ جنہیں نااہلی کے بعد انصاف اورجمہوریت کے تقاضے اچانک یادآگئے اس رپورٹ کو منظر عام لانے سے بھاگ رہے ہیں ۔
لیکن کب تک ؟کب تک نیب پیشیوں سے بھاگیں گے ؟کب تک جسٹس باقر نجفی رپورٹ کو چھپائے رکھیں گے ؟دیر ہوسکتی ہے پر اتنا بھی اندھیر نہیں ۔حساب لینے کا عمل شروع ہوچکا اوریہ آگے بڑھتا جائے گا۔کوئی مارشل لاء نہیں لگے گا ،کوئی نظام پٹڑی سے نہیں اکھڑے گا ۔سب کچھ آئین اورقانون کے مطابق ہوگا ۔اوررونا دھونا جاری رہتاہے تو رہے ۔جیسا کہ ہم اکثر کہتے ہیں ،یہ بھی جمہوریت کا حُسن ہے۔