"AYA" (space) message & send to 7575

جناب خادم اعلیٰ کی خدمت میں

خادم اعلیٰ ضروری مصروفیات کی وجہ سے لندن میں تشریف فرما ہیں۔ مملکت خداداد کے بہت سارے کام کاج لندن میں ہی نمٹائے جاتے ہیں۔ برطانوی راج ختم ہوا‘ لیکن مختلف زاویوں سے ہمارا رشتہ راج سے نہیں تو کم از کم برطانیہ سے بدستور قائم ہے اور بڑھتا ہی جاتا ہے۔ بہرحال واپس لوٹیں گے تو اُمید ہے کہ یہ عرضی ان کے سامنے رکھ دی جائے گی۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ اُن کے پرنسپل سیکرٹری امداد بوسال یا معاونِ خصوصی شعیب بن عزیز یہ مہربانی فرمائیں گے۔ 
چکوال پوسٹ گریجویٹ کالج فار بوائز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قیام پاکستان کے بعد پورے پاکستان میں یہ پہلا کالج تھا جس کی پوسٹ گریجویٹ حیثیت کے آرڈر حکومت کی طرف سے آئے۔ ہمارے دوست جمیل یوسف‘ جو جانے پہچانے شاعر اور اس سے بڑھ کے زندہ دل شخصیت کے مالک ہیں... یہ ہرگز لازم نہیں کہ ہر شاعر زندہ دل ہو اور ہر زندہ دل شاعر ہو، کئی شاعروں کو دیکھ کے تو ہاتھ پستول یا ڈنڈے کی طرف جاتا ہے...‘ یہ کہتے ہیں کہ چکوال کالج کا یہ سٹیٹس مشہور مسلم لیگی رہنما اور قائد اعظم کے ساتھی راجہ غضنفر علی کے مرہون منت ہے۔
بڑی روایات اس کالج کی رہی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک زمانے میں، اور یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان میں تعلیم کا انحطاط اتنا نہ ہوا تھا‘ جو آج کل مشاہدے میں آتا ہے۔ جب کالج میں سالانہ کھیلیں ہوتیں اور سالانہ مباحثے منعقد ہوتے تو بڑا سماں بندھ جاتا تھا۔ co-education تھی اور طالبات زیادہ تر بغیر برقعے کے شہر کے محلوں سے چل کے کالج آتی تھیں۔ مجال ہے کہ کوئی چھیڑ خانی ہوتی ہو یا کسی اور قسم کی بدمزگی۔کلاسز میں طالبات آگے کے بینچوں پہ بیٹھتیں اور کبھی بھی سننے میں نہ آتا کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔
آج کل کالج کی حالت خاصی اچھی ہو گئی ہے اور فیکلٹی کے ممبران فخر سے کالج کی کامیابیوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ co-education اب بھی ہے اور بہت ساری ایسی کلاسز ہیں جن میں زیادہ تناسب طالبات کا ہے۔ کالج سے وابستہ افراد، چاہے اساتذہ ہوں یا طالب علم، یہ خواہش دامن میں رکھتے ہیں کہ ان کی مادرِ علمی ایک دن یونیورسٹی کا درجہ حاصل کرے۔ کالج کی البتہ ایک کمزوری ہے کہ وہ شہر کے اب تقریباً وسط میں ہے اور اس کا رقبہ جاذب نظر اور دل فریب ہے۔ حاسدوں کی نظریں اس پہ لگی رہتی ہیں۔ ناظمین کے دور میں ایک احمقانہ منصوبہ تیار ہوا تھا‘ جس کے تحت اس کی قطعہ اراضی پہ چاروں طرف پلازے بنائے جانے تھے۔ بھلا ہو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہ انہوں نے اس مضحکہ خیز آئیڈیا کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اسے دفنا دیا۔ اب ایک اور سکیم نے سر اٹھایا ہے، جو مضحکہ خیز تو نہیں لیکن کم فہم ضرور ہے۔
صوبائی حکومت نے ایک پوسٹ گریجویٹ کالج فار گرلز کی منظوری دی ہے جو کہ بہت اچھا اور قابل ستائش اقدام ہے۔ قباحت البتہ یہ ہے کہ بجائے کسی اور جگہ کے یہ کالج پرانے کالج کی زمین پہ بننے جا رہا ہے۔ ارادہ ہے تیس کنال اراضی پہ قبضہ کرنے کا۔ جس کا مطلب ہو گا کہ نہ نئے کالج کو آئندہ سالوں میں خاطر خواہ اور مطلوبہ بڑھوتی یا expansion کی جگہ میسر ہو گی نہ پرانے کالج کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری ہو سکیں گی۔ نیا کالج بننا چاہیے، ضرور بننا چاہیے لیکن کسی اور جگہ پہ بنائیے۔ پرانے کالج کا بیڑہ غرق نہ کیجئے۔ معاملہ فہمی دکھائیے۔ اساتذہ سے مشورہ کیجئے۔ ان کی سنیے کہ کیا کہتے ہیں۔ پرنسپل صاحب سے رجوع کیجئے۔ طلباء اور طالبات کی رائے جاننے کی کوشش کیجئے۔ ہمارے چھوٹے شہروں کا
ایک پرابلم شوقِ تختی کُشائی بھی ہے۔ ضرور فیتہ کاٹیے، داد سمیٹے، لیکن یہ بھی دیکھیے کہ کیا موزوں ہے اور کیا نہیں۔
یہ تو ایسا ہی ہے کہ ایک نیا ہسپتال بنانا ہو تو میو ہسپتال کے ایک کونے پہ قبضہ کرکے بنا دیا جائے۔ نیا کالج بنانا ہو تو گورنمنٹ کالج لاہور کے لان میں اس کی دیواریں کھڑی کر دی جائیں۔ عجائب گھر بنانا ہو تو لاہور عجائب گھر کے سامنے والے لان میں بنا دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ خادم اعلیٰ نے ہیلی کاپٹر پہ بیٹھ کے چکوال کا طائرانہ جائزہ نہیں لیا۔ لاکھ اختلاف ہو، وہ اپنی جگہ‘ لیکن علم دوست انسان ہیں، شاعری سے شغف رکھتے ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں گائیکی بھی اچھی کر لیتے ہیں۔ اُن کے سامنے جب تجویز آئی ہو گی کہ چکوال میں پوسٹ گریجویٹ گرلز کالج بننا چاہیے‘ تو بخوشی منظوری دی ہو گی۔ تمام حالات ان کے سامنے نہ ہوں گے۔ کالج میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ پوری فیکلٹی گھبراہٹ کے عالم میں ہے۔ طالب علم ناخوش ہیں۔ ظاہر ہے خادم اعلیٰ کو بہت سارے معاملات کا سامنا ہے۔ ان معاملات کے سامنے یہ چھوٹا مسئلہ ہے‘ لیکن چکوال کالج کے لئے یہ چھوٹا مسئلہ نہیں۔ امید ہے اسے دوبارہ دیکھا جائے گا۔
یہ سنی سنائی بات نہیں میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ چیف منسٹر صاحب کے نوٹس میں بات آئے تو ایکشن فوری اور مثبت ہوتا ہے۔ حال ہی میں میرے گاؤں میں ایک واقعہ رونما ہوا۔ ایلیمنٹری سکول کے ایک طالب علم کو مار پڑی اور اس کے ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ جناب شعیب بن عزیز کی وساطت سے جب چیف منسٹر صاحب کو اس واقعے کا علم ہوا تو یوں سمجھیے کہ منٹوں میں پوری پنجاب حکومت حرکت میں آ گئی۔ لڑکے کے فوری علاج کا کہا گیا۔ چکوال انتظامیہ نے بھرپور کارروائی شروع کی۔ پولیس کیس ہوا، ڈاکٹری رپورٹ لکھی گئی۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے معاشرے کے اپنے ہی طور اطوار ہیں۔ گاؤں کے چند معززین حرکت میں آئے۔ بچے کے والد کو پہلے پوچھا نہ گیا پھر اس کی منتیں شروع ہو گئیں۔ پیسے آفر ہوئے۔ نتیجتاً لڑکا اپنا بیان بدلنے پہ مجبور ہوا۔ اس نے کہا: مار نہیں پڑی میں گر گیا تھا اور چونکہ منہ کے بل گرا تو ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ لاہور سے ایک انکوائری ٹیم آئی اور سکول کے اساتذہ بچوں کو یہ سبق پڑھانے بیٹھ گئے کہ مضروب بچہ واقعی زمین پہ دھڑام سے گرا تھا۔ یہ تو گاؤں کی روداد تھی لیکن جو ایکشن چیف منسٹر کے حکم پہ ہوا‘ وہ اپنی جگہ ہے۔
مجھے یقین ہے کہ چکوال کالج کے بارے میں لاہور کے متعلقہ حکام جلد بازی سے کام نہیں لیں گے‘ اور معاملے کو پھر سے دیکھیں گے۔ امید ہے یہ بات چیف منسٹر صاحب کے نوٹس میں لائی جائے گی۔
ایک اور معاملہ بھی خادم اعلیٰ کی توجہ کا طالب ہے۔ لاہور میں چند خود ساختہ ہارٹی کلچرل ایکسپرٹ باغ جناح کے دَر پے ہیں۔ باغ کے عین وسط میں پانچ ایکڑ اراضی پہ وہ ایک ہارٹی کلچرل انسٹیٹیوٹ بنانا چاہتے ہیں۔ اس کی منظوری بھی ہو گئی ہے اور کچھ فنڈ بھی ریلیز ہو چکے ہیں۔ عرض ہے کہ سمجھدار اور اپنے آپ کو مہذب کہنے والے ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔ پبلک باغات پہ کسی بھی بہانے ڈاکہ نہیں ڈالا جاتا۔ ایسی حرکت آپ لندن ہائیڈ پارک یا نیو یارک سنٹرل پارک میں نہیں کر سکتے۔ کوئی اس کی اجازت نہیں دے گا۔ ہارٹی کلچرل انسٹیٹیوٹ بنانا ہے‘ ضرور بنائیں۔ لیکن اور کئی جگہیں ہیں، باغ جناح کو ہی مزید برباد کرنا ہے؟ ویسے بھی بطور قوم ہمیں درختوں سے بیر ہے۔ پرانے درختوں کو کاٹیں نہیں تو روح کو چین نہیں آتا۔ دیکھ لیں راولپنڈی میں لیاقت باغ کا ہم نے کیا حشر کیا ہے۔ باغ تو اب برائے نام ہی رہ گیا ہے۔ طرح طرح کی بلڈنگز وہاں کھڑی ہو گئی ہیں۔ باغ جناح کے ساتھ بھی کیا ہم یہی کچھ کرنا چاہتے ہیں؟ خادم اعلیٰ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں