موت کا لفظ یہاں محاورتاًاستعمال ہورہاہے ۔ایک موت جھٹکے سے ہوتی ہے،ایک ہزار واروں پہ محیط ۔چائینز ٹارچر بھی اسی کی ایک قسم ہے:ہلکی اذیت جوجاری رہتی ہے ،اُس حدتک کہ اس میں پھنسا ہوا چیخ اٹھے کہ اس سے تو موت بدرجہابہتر۔
کچھ ایسی ہی صورتحال اِس وقت مملکت خداداد میں نظر آرہی ہے ۔سابق وزیر اعظم جو ایک معمولی عدالتی جھٹکے سے فارغ ہوچکے ہیں،اذیت میںجکڑے ہوئے ہیں اوران کی حالت بہتر ہونے کی بجائے مزید خراب ہورہی ہے ۔ 111بریگیڈحرکت میں نہیں آئی ۔فوجی دستے اسلام آبادکی طرف نہیں چڑھ دوڑے ۔پی ٹی وی پہ کوئی قبضہ نہیں ہوا اورــ'میرے عزیز ہم وطنوـ' جیسی کوئی تقریر ادانہیںہوئی ۔لیکن وزیراعظم فارغ ہوگئے اورحکمران جماعت دباؤ کے نیچے آگئی۔بخار ہلکا سا ہے لیکن جان چھوڑنے کانام نہیں لے رہا۔
نواز شریف صاحب کے وکلاء نے نجانے کس اُمید سے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل دائر کی ۔صاف لگ رہاتھا کہ اپیل رد کردی جائے گی اوراب وہ رد ہوچکی۔نواز شریف اور اُن کے خاندان نے یہ جواز بنایا تھا کہ وہ احتساب عدالتوں کے سامنے پیش نہیں ہوں گے جب تک کہ نظر ثانی اپیل پہ فیصلہ نہ ہوجائے ۔وہ جواز جو پہلے ہی بہت کمزور تھا اب ختم ہوگیا۔ 19ستمبر کو احتساب عدالتوں کے سامنے پیشیاں ہیں۔دیکھتے ہیں اُس دن کیا ہوتاہے۔ نواز شریف اپنی زوجہ کے علاج کے سلسلے میں خود لند ن بیٹھے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ وہ واپس آتے ہیں یا مزید لندن قیام میں ہی عافیت سمجھتے ہیں ۔بچوں کا مسئلہ اپنی جگہ ہے ۔انہیں بھی نوٹس آئے ہیں ۔زیادہ دیر ٹال مٹول سے اب کام نہیں چلے گا ۔اوراگر یہ سب کچھ کافی نہیں تھا تو حدیبیہ پیپرز ملز کیس بھی کھلنے والا ہے ۔نیب چیئرمین قمر زمان چوہدری نے حتی الوسع کوشش کی کہ معاملات یہاں تک نہ پہنچیں ۔جس ہائی کورٹ کے فیصلے نے شریفوں کے حق میں یہ کیس ختم کرایا اُس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائرکرنے سے اُنہوں نے اجتناب کیا ۔لیکن سپریم کورٹ کے 28جولائی کے فیصلے کے بعد اُن کیلئے کوئی چارہ نہ رہا اورنہ چاہتے ہوئے بھاری دل سے اُن کے زیر کمان ادارے کو وہ اپیل کرنی پڑرہی ہے ۔فیصلہ تو سپریم کورٹ نے کرناہے کہ یہ پرانا کیس از سرنو کھلتا ہے یا نہیں ۔لیکن جیسی ہوائیں چل رہی ہیں اندازہ لگا یاجاسکتاہے کہ یہ مقدموں کا باپ، کیونکہ اس میں بہت سے راز پنہاں ہیں ، بھی کھلنے جارہاہے ۔
حدیبیہ کیس کی اہمیت یہ ہے کہ اُس میں جنابِ اسحاق ڈار کا گزوں لمبا اعترافی بیان موجود ہے جس میں انہوں نے تفصیل سے شریف خاندان کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے پردہ اٹھایا ۔سب کچھ وہاں درج ہے ،پاکستان میں جعلی بینک اکاؤنٹ کھلنے سے لے کر لندن تک کی رقوم کی ترسیل۔ اس اعترافی بیان کی زَد میں صرف نواز شریف نہیں آتے بلکہ خادم اعلیٰ بھی ۔جب 2014ء میں لاہور ہائیکورٹ کے ایک سنگل بینچ کے دوستانہ فیصلے کے تحت یہ سارامعاملہ ختم کردیاگیا اوراُس پہ منوں مٹی ڈال دی گئی تو کون سوچ سکتاتھا کہ یہ بظاہر مردہ قبرسے پھرنمودارہوگا۔یہ انہونی ہونے کو جارہی ہے ۔اسحاق ڈار کے آج کل کے فوٹوبتا رہے ہیں کہ وہ کس کَرب سے گزر رہے ہیں ۔چہرے پہ اضطراب کے آثار واضح ہیں ۔کیس پھر سے کھل گیا اوروہ اعترافی بیان عدالتی کارروائی کی زینت بنا تو پھر کیفیت کیا ہوگی؟
اس مجموعی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ن لیگ کے پاس ایک ہی دفاع رہ گیا تھا کہ تاریخ کی نظر میں ججوں کی عدالت سے افضل عوام کی عدالت ہوتی ہے۔ جی ٹی روڈ مارچ اس عوام کی عدالت کو حرکت میں لانے کی کاوش تھی ۔لیکن وقت گزر نے کے ساتھ یہ عدالت ٹھنڈی پڑ چکی ہے ۔ ن لیگ کی طرف سے لگائی گئی آوازیں سہم سی گئی ہیں ۔ حلقۂ وفاداران کی پہلے کی گرج چمک نہیںرہی۔وزراء تو چُپ ہی ہیں اوراپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں لیکن بگل بجانے والوں کا جوش بھی ٹھنڈا پڑچکاہے ۔ لگتاہے بیشتر ن لیگیوں نے حقیقت جان لی ہے کہ اُن کی جماعت کے دن بدل رہے ہیں اورآسمان نے آنکھیں پھیرلی ہیں ۔وہ تصویر پتہ نہیں کس ستمگر نے لی جب نواز شریف صاحب لندن جانے کیلئے جہاز میں بیٹھے تھے ۔ ہزار الفاظ بیان نہیں کرسکتے جو فوٹوسے عیاںہوتا ہے ،چہرے پہ تھکاوٹ اورمایوسی کے گہرے اثرات۔ذوالفقار علی بھٹو بھی معزول ہوئے اوراُ ن پہ تو مہربانوں نے قتل کا مقدمہ بنا ڈالا ۔لیکن اُس سارے عرصے میں ایسی مایوسی اورشکست کبھی اُن کے چہرے سے نہ جھلکی۔اورتو اوربھائی بھائی کے مکمل ساتھ نہیں ہے اوربھتیجے تایا کے ساتھ کھڑے دکھائی نہیں دے رہے ۔نثار علی خان جو خادم اعلیٰ کے رازدان ہیں ایسی ایسی باتیںکہہ رہے ہیں جن کا اثر نمک پاشی سے کم نہیں ۔
عروج تو ہم اس طویل ترین حکمرانی کا دیکھ چکے ۔یہ اب زوال کے منظر نامے ہیں۔لیکن زوال بروئے کار لایاجارہاہے دھیرے دھیرے سے۔جھٹکے سے نہیں‘ ہزارچھوٹے زخموں سے۔ پاکستان کی تاریخ کاایک باب ختم ہونے کو ہے۔ جو سوچ رہے ہیں کہ نواز شریف کی واپسی کا کوئی راستہ نکل آئے گا خود فریبی کا شکارہیں۔ یہ 1999ء کاcoupنہیں ۔اُس واردات نے نواز شریف کے تاریخی کردار کو چار چاند لگادئیے۔کہاں وہ جنرل ضیاء الحق کی گود میں پلے پوسے اورکہاں جنرل مشرف کی مہربانی سے راتوں رات جمہوریت کے چیمپئن بن گئے ۔اب جو ہو رہاہے سراسر مختلف ہے ۔سابق وزیراعظم کو پہلے سامان ِرسوائی اٹھاناپڑا، عدالتی فیصلے سے معزولی بعد میں آئی ۔پانامہ پیپرز تو پچھلے سال اپریل میں سامنے آئے اورآہستہ آہستہ اس سارے عمل نے زور پکڑا ۔معزولی بھی ہوگئی لیکن امتحان ختم نہیں ہوا ۔ منیر نیاز ی کوتو ایک اوردریا کا سامنا تھا ۔یہاں تو دریا دَر دریا ہیں ،نہ ختم ہونے والا دریاؤں کا سلسلہ ۔نیب ریفرنسز پھر حدیبیہ کیس اورنجانے اورکیا کچھ۔ماڈل ٹاؤن کیس بھی دھیمی آگ پہ سُلگ رہاہے ۔ اس پہ اگر عدالتی فیصلہ آتاہے کہ جسٹس باقر نجفی رپورٹ برسرعام لائی جائے تومصیبت زدہ حکمران خاندان کی مصیبتوں میں اوراضافہ ہوگا ۔
آصف علی زرداری بدنام ہوچکے اوراُن کی پارٹی cut down to sizeہوگئی ۔یہی عمل اب نواز شریف اوراُن کی جماعت کے ساتھ ہورہاہے ۔ہمارے ہاں جنہیں ہم مقتدر قوتیں کہتے ہیں طاقتور تو ہوتی ہی ہیں اورسیاست کا میدان کمزور بنیادوں پہ رہتاہے ۔لیکن اس حقیقت سے بھی صرف نظر نہیں کیاجاسکتا کہ سیاستدانوں کو مرنے کا شوق بھی رہاہے ۔ہوسِ اقتدار تو اپنی جگہ اورسیاست میں یہ اتنی برُی چیز بھی نہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ ہوسِ زرودولت ہمارے موجودہ دور کے جمہوری حکمرانوں کی نفسیات کا حصہ رہی ۔دونوں طرف کا حکمران طبقہ ، پیپلز پارٹی سے منسلک یا ن لیگ سے، اس بیماری میں مبتلارہا ۔اس سے پاکستانی سیاست تباہ اورپاکستان کی جمہوریت بدنام ہوئی اورمقتدر قوتوں کے حوصلے بڑھے۔
لیکن آگے کیا ہونا ہے اورہم کہاں جارہے ہیں ؟اِس وقت پاکستان ایک ایسی کشتی کی مانند ہے جو حالات اورموجوں کے رحم وکرم پرہے ۔ قوم میں تو خوبیاں ہوں گی یاکم ازکم اس کے گناہ اتنے نہ ہوں جتنی اسے سزا مل رہی ہے ۔پر کیا قیادت اس قوم کے نصیب میںآئی ۔ چھوٹے لوگ اور اس سے بھی چھوٹی ان کی سوچ ۔ لیکن پھر بھی غور طلب بات ہے کہ جس تجربے سے قوم اب گزر رہی ہے اس سے کچھ بہتری بھی آئی گی ؟یا ہم یونہی بھٹکتے رہیںگے؟