جیسے جہاندیدہ لوگ جانتے ہیں پاکستانی سیاست اور رموزِ حکمرانی لطیفے سے کم نہیں۔ ایک ہی گرامو فون ریکارڈ ہے جو کب سے چل رہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ریکارڈ بہت گھِس چکا ہے اس لئے آواز بھی گھِسی ہوئی آتی ہے۔ اس میں ہمارے گناہوں کا کچھ ضرور دخل ہو گا۔ اگر ہمارے نصیب میں یہی سرکس کے شیر ہیں تو کچھ تو ہم سے سرزد ہوا ہو گا کہ مسلسل سزا بھگت رہے ہیں۔
ن لیگ میں خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں۔ قائد جمہوریت جناب نواز شریف پارٹی کے پھر سے صدر منتخب‘ ہو گئے ہیں۔ ہماری پارٹیوں کے الیکشن ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے کہ سٹالن کے روس میں ہوا کرتے تھے۔ لیکن یہ موضوع کسی اور وقت کے لئے۔ صدارت کے راستے میں قانون آڑے آ رہا تھا‘ جس کے تحت عدالت سے نااہلی کا سرٹیفکیٹ لینے والا شخص کسی پارٹی کا صدر نہیں بن سکتا تھا۔ قومی اسمبلی میں تو ن لیگ کی بھاری اکثریت ہے۔ وہاں سے اس بل کا پاس ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔ اصل کارنامہ تو سینیٹ میں ہوا‘ جہاں ن لیگ کو اکثریت میسر نہیں تھی۔ وہاں ن لیگ کے معاون کے طور پہ وہ نالائقوں کا ٹولہ آیا جو پی ٹی آئی کے جھنڈے تلے سیاست کرتا ہے۔ پی ٹی آئی والوں کی سمجھ میں نہ آئی کہ معاملہ کیا ہے۔ لہٰذا جو تندہی اور سنجیدگی درکار تھی وہ سرے سے غائب رہی اور ووٹنگ کے دن پی ٹی آئی کے کئی سینیٹر صاحبان سین سے غائب رہے۔ فقط ایک ووٹ سے ترمیم منظور ہوئی جس کی بدولت نواز شریف اپنی ہی لیگ کے پھر صدر چُنے گئے۔ اس معرکے کے اصل ہیرو تو پھر پی ٹی آئی والے ہیں۔
مزید برآں عین اس وقت جب پی ٹی آئی کی تمام توجہ اس ترمیم پہ ہونی چاہیے تھی اس نے اپوزیشن کی صدارت کا مسئلہ چھیڑ دیا۔ جہاں ہر کوشش اتحاد کی طرف ہونی چاہیے تھی، پی ٹی آئی نے کمال ہوشیاری سے ایک بے تُکا مسئلہ کھڑا کر دیا۔ نہ ترمیم رکی نہ اپوزیشن کی صدارت ملی۔ یہی جرنیلی (generalship) کیفیت آگے رہی تو پتہ نہیں کیا مزید کارنامے پارٹی کے نصیب میں ہوں۔
مبارکباد کے مستحق تو نواز شریف ٹھہرے مگر کچھ ہمدردی کے مستحق چھوٹے بھائی جان بھی ہیں۔ پہلے تو انہیں وزارتِ عظمیٰ کے خواب دکھائے گئے اور بات پھیلائی گئی کہ مستقل وزیر اعظم وہ ہوں گے۔ جب وہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا تو دوسری لالٹین اُن کو پارٹی کی صدارت کی دکھائی گئی۔ شہباز شریف اور ان کے فرزندوں کے دماغ تب کُھلے جب یعقوب خان ناصر قائم مقام پارٹی صدر بنائے گئے۔ پھر اندیشہ ہوا‘ دال میں کچھ کالا ہے اور تب جا کر ولی عہد پنجاب حمزہ شہباز غصے میں آئے اور NA-120 کے ضمنی انتخاب کو چھوڑتے ہوئے لندن روانہ ہو گئے۔ لندن‘ جیسا کہ ہم جانتے ہیں اب شریف خاندان کا دوسرا نہیں بلکہ پہلا گھر ہے۔ سب کچھ وہاں ہے۔ یہاں صرف حکمرانی ہے اور وہ تابعدار دنبوں کا ریوڑ جس کا نام ن لیگ ہے۔ بیماری ہو تو لندن کا سفر، پریشانی ہو تو وہیں کا رخ۔ اسی اصول کے تحت حمزہ شہباز خفت مٹانے لندن گئے۔ غم کی وجہ بھی کم نہ تھی۔ ابا جان وزیر اعظم ہوتے تو ولی عہد پنجاب نے عملاً صوبے کا چارج سنبھال لینا تھا۔ سامنے جو بھی ڈمی چیف منسٹر ہوتا اصل حکم حمزہ کا چلتا۔ لیکن تایا جان کی سیاست بھاری رہی۔ ایسی چالیں چلی گئیں اور اس رازداری سے کہ خادم اعلیٰ اور ان کے خانوادے تکتے ہی رہ گئے۔
مریم صفدر تو آگے نہ آ سکیں اور یہ بات ابا جان کو ستائے رکھے گی۔ لیکن حمزہ وغیروں کو تو سبق سکھا دیا گیا۔ اور اگر تکمیل عشق کے بعد کوئی مزہ ہے تو وہ اپنے شریکوں سے انتقام لینے میں ہے۔ معاملہ تو شریفوں کا فوج سے تھا‘ گو سمجھدار ہوتے ہوئے فوج کا نام اونچا نہیں لیتے۔ بس اشارہ کنایوں سے بات چلتی ہے۔ عدلیہ سے بھی معاملہ تھا کیونکہ عدلیہ نے ہی قائد جمہوریت کو فارغ کیا۔ لیکن عدلیہ کے پیچھے بھی ن لیگ کو فوج ہی نظر آتی ہے۔ اداروں سے تو حساب برابر نہیں ہوا۔ قانونی مقدمات اپنی جگہ موجود ہیں اور اُن کے حوالے سے خاندان اول کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ فی الحال شریفوں کے ایک حصے نے دوسرے حصے سے حساب برابر کیا ہے اور حمزہ وغیروں کو اپنا اصل مقام دکھا دیا ہے۔ دستیاب حالات میں فی الحال یہ ہی کافی ہے۔ اور چونکہ دنیا اُمید پہ قائم ہے‘ تو یہ آرزو اپنی جگہ یقینا موجود ہو گی کہ وقت آنے پہ اوروں سے بھی حساب برابر کر لیا جائے گا۔
وقت کے تغیر کا بہرحال کمال دیکھیے۔ نواز شریف کی سیاست بھٹو دشمنی پہ قائم ہوئی۔ آج جس تاریخی واقعے کا سب سے زیادہ حوالہ نواز شریف دیتے ہیں وہ ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ ہے۔ یعنی حاصل مفہوم اُن کا یہ ہے کہ بھٹو کے ساتھ وہ ہوا اور میرے ساتھ یہ ہو رہا ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ نااہلی کے بعد اپنے آپ کو نظریاتی بھی کہتے ہیں۔ یہ لطیفے ہمارے ہاں ہی ہو سکتے ہیں۔ بھٹو کے سیاسی وارث کون ہیں؟ آصف علی زرداری جن کی سیاست کا دور سے بھی رشتہ بھٹو کے افکار سے نہیں ہے۔ بھٹو پہ جو گزری اس سے مشابہت کون تلاش کر رہا ہے؟ نواز شریف‘ جن کے اول پیر و مُرشد جنرل ضیاء الحق تھے۔ وہ جنہوں نے بھٹو کو پھانسی کے تختے پہ لٹکایا۔ نواز شریف اس انداز سے اپنے آپ کو نظریاتی کہتے ہیں کہ گناہگار کانوں پہ گمان گزرتا ہے کہ ایک نیا ماؤزے تُنگ پیدا ہو گیا ہے۔
اصل ارمان بہرحال موجود ہے اور ن لیگ کا کرسی صدارت پہ دوبارہ قبضہ اس زخم کو بھر نہیں سکتا۔ وزارت عظمٰی تو ہاتھ سے گئی۔ قصرِ اقتدار چھوڑنا پڑا اور کچھ سامان پنجاب ہاؤس لے جانا پڑا۔ پنجاب ہاؤس پہ قبضہ موجود ہے اور ظاہر ہے کہ قائد جمہوریت جب وہاں قیام کرتے ہیں تو طعام اور دیگر معاملات کا بوجھ پنجاب کے غیور عوام ہی اٹھاتے ہیں۔ لیکن کہاں وزیر اعظم ہاؤس کی شان و شوکت اور وہاں سے نظر آنے والے مارگلہ پہاڑوں کے دلفریب مناظر اور کہاں پنجاب ہاؤس کی نسبتاً کم رعنائیاں۔ خود کا اقتدار گیا اور اقتدار تفویض کرنے کے منصوبے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے۔ مریم بی بی کو جانشین کے طور پہ پیش کیا جاتا رہا لیکن پتہ نہیں کہاں سے پانامہ نام کی آفت آئی اور یہ سب منصوبے ایسے ہی رہ گئے۔ اتنا لمبا اقتدار اور اس کا یہ انجام۔ لیگی صدارت کیا کرشمہ دکھائے گی جب اصل صورتحال کچھ اور ہے۔
احسن اقبال نے دل کی بات کہہ دی کہ ریاست میں ریاست نہیں ہونے دیں گے۔ یہی غم کھائے جا رہا ہے کہ ظاہری اقتدار یوں تو ہمارا ہے لیکن اصل اقتدار کہیں اور ہے۔ وزیر داخلہ کی عقل کو بھی داد دیجئے۔ احتساب عدالت کے جج کہتے ہیں کہ عدالت تماشہ نہ بنے اور اس ضمن میں حکم دیتے ہیں کہ وزراء کا دکھاوا گروپ عدالت پہ یلغار نہ کرے۔ پر وہ دکھاوا گروپ کیا ہوا جو دکھاوا نہ کر سکے۔ تو وزیر داخلہ وہاں پہنچ گئے اور رینجرز جوان جو عدالت کی حفاظت پہ مامور تھے انہوں نے اندر جانے سے روکا اور وزیر صاحب نے طوفان کھڑا کرنے کی کوشش کی اورغصے کی حالت میں ریاست میں ریاست والی بات کہہ ڈالی۔
وزیر خارجہ امریکہ جاتے ہیں تو ظاہراً ہدف تنقید حافظ سعید اور حقانی گروپ کو بناتے ہیں۔ یہ بھی اشاروں کنایوں کی باتیں ہیں۔ اصل ٹارگٹ وہی ادارہ ہے جس کے حوالے سے دل بغض سے بھرے ہیں پر جس کا نام لبوں پہ آہستہ ہی آتا ہے۔ ملک بدنام ہوتا ہے تو ہو۔ اصل ٹارگٹ پہ نظریں جمی ہوئی ہیں۔