نعرے اور وہ بھی فلک شگاف ،اسلام کے۔ بچوں کو داخلہ دلوانا ہو تو کرسچئن سکولوں میں یا اُن انگریزی سکولوں میں‘ جہاں او لیول اور اے لیول امتحانات ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں تو ہم سے ہندوستان بہتر ہے جہاں او لیول کے امتحانات 1964ء میں ختم کر دیے گئے تھے۔ ہم سے یہ نہیں ہو پا رہا۔ میرے گھر کے پاس ایک مولوی صاحب رہتے ہیں۔ ان کی وسیع و عریض مسجد میں مدرسہ بھی چلتا ہے‘ جہاں خالصتاً دینی تعلیم دی جاتی ہے۔ اُن کے اپنے بچے انگریزی سکولوں میں جاتے ہیں۔
رہبر شریعت حضرت مولانا محمد خان شیرانی قوم کو تو دین کا درس دیتے ہیں‘ لیکن اُن کے اپنے ایک فرزند ایچی سن کالج میں داخل ہوئے۔ یہ اور بات ہے کہ زیادہ دیر وہاں چل نہ سکے لیکن خواہش تو بہرحال انگریزی تعلیم کی تھی۔ بچے بڑے ہوں تو مالدار طبقات اُن کو یورپ یا امریکہ کی یونیورسٹیوں میں بھیجنا چاہتے ہیں۔ بہت نفاق ہو گا ہمارے معاشرے میں لیکن اس بات پہ مکمل اتفاق ہے کہ تعلیم ہو تو انگریزی طرز کی۔ قابل توجہ بات البتہ یہ ہے کہ زیادہ تر باہر پڑھنے والے ہمارے طالب علم سائنسی علوم یا ریاضی کو ترجیح نہیں دیتے۔ فضول سی ڈگریاں لے آتے ہیں اور فخر کرتے ہیں کہ ہم فلاں یونیورسٹی سے پڑھ کے آئے ہیں۔ فوج ہماری اسلامی فوج کہلاتی ہے‘ لیکن جس بڑے افسر کا بس چلتا ہے‘ بچوں کو تعلیم باہر سے ہی دلوانا چاہتا ہے۔
اچھی بات ہے کہ علم کے بار ے میں یہ جستجو رہے۔ ہمیں تو تلقین ہے کہ علم کے حصول کے لئے چین بھی جانا پڑے تو جائیں‘ لیکن اتنا تو ہو کہ ہم اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں کا اعتراف کریں‘ اور مانیں کہ علم کے حصول میں ہم باقی دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اور یہ بھی اعتراف کریں کہ اکثر ہمارے ہاں مذہب کو ایک نعرے کے طور پہ استعمال کیا جاتا ہے۔ کیپٹن صفدر کو ہی لے لیجیے۔ سامنا انہیں عدالتوں کا ہے‘ اور وہ بھی کرپشن کے کیسز میں۔ قومی اسمبلی میں تقریر فرماتے ہیں تو ایسا پتہ چلتا ہے کہ ان سے بڑا مبلغِ اسلام کوئی نہیں۔ میں اُن کے ساتھ پچھلی اسمبلی میں تھا‘ اور یہ گواہی دے سکتا ہوں کہ جاہلانہ گفتگو کرنے میں ان کا ثانی کوئی نہیں۔
ہمارے مالدار طبقات جائیدادیں بھی زیادہ تر کرسچئن ممالک میں رکھنا پسند کرتے ہیں۔ پیسے چھپانے ہوں تو انہی ممالک میں۔ کس کس کا نام لیا جائے۔ نواز شریف اور اُن کے خاندان کا نام لیتے لیتے زبان تھک چکی ہے۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ اُن کا نام لیتے اپنے سے چڑ ہونے لگتی ہے۔ کیا دین دار لوگ ہیں۔ مذہبی فریضہ کوئی نہیں چھوڑتے۔ بس چلے تو رمضان کے آخری دس ایام سعودی عرب میں گزارتے ہیں‘ لیکن کارنامے دیکھو تو انسان دَنگ رہ جاتا ہے۔ خاندان کے افراد صفائیاں پیش کرنے میں آئیں تو ہر فرد کا بیان دوسرے سے مختلف ہوتا ہے‘ لیکن اب ان کے کارنامے سادہ لوگوں پہ بھی عیاں ہیں۔ ن لیگی بِگل بردار دفاع کرتے ہیں‘ لیکن اُن کی آوازیں یقین (conviction) سے محروم ہو چکی ہیں۔ بس ڈیوٹی پوری کر رہے ہیں۔ اپنے دوسرے وزارت عظمٰی کے دور میں ایک آئینی ترمیم لانا چاہتے تھے‘ جس کی بدولت جمہوری نظام کا بستر گول ہوتا اور وہ خود امیرالمومنین کہلاتے۔ پاناما کے کارنامے دیکھیں تو پھر پتا چلتا ہے کہ امیرالمومنین کی اصل حالت کیا ہے۔
جناب اسحاق ڈار سے بھی بڑا اسلام پسند کوئی نہیں۔ داتا دربار کی نگران کمیٹی کے ممبر بھی ہیں۔ کچھ سال پہلے میں داتا دربار گیا تو قدرے حیرانگی سے دیکھا کہ مرد و خواتین کے اندر جانے کے راستے الگ الگ ہیں جو کبھی خانقاہوں پہ نہیں ہوتا۔ خانہ کعبہ میں بھی مرد و خواتین ایک ساتھ ہی ہوتے ہیں اور یہی صورت سیہون شریف وغیرہ میں ہے۔ پتہ چلا کہ اسحاق ڈار کے فرمان کے تحت یہ ہوا ہے۔ اسمبلی میں، میں نے اُن سے کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے لیکن وہ نہ مانے۔ وہ تو چلیں ٹھیک ہے، اس کی معقول وجہ ہو گی‘ لیکن ایک طرف یہ اسلام پسندی اور دوسری طرف منی لانڈرنگ کے بارے میں اُن کے حیران کر دینے والے کمالات۔ جعلی بینک اکاؤنٹ کھولنا اور انہیں غیر قانونی طور پہ رقم کی ترسیل کے لئے استعمال کرنا۔
پیپلز پارٹی والوں نے کبھی نیک و پارسا بننے کی زیادہ کوشش نہیں کی۔ جو کیا ڈنکے کی چوٹ پہ کیا۔ آصف زرداری نے اپنے سر پہ کبھی دینداری کا چوغہ نہیں چڑھایا‘ لیکن ن لیگی قیادت ایسی ہے کہ گمان گزرتا ہے‘ پارسائی کا ٹھیکہ اُن کے پاس ہے۔ پنجاب کے دیندار طبقات نے شروع میں ن لیگ اور نواز شریف کا اس لئے ساتھ دیا کہ مذہب کے حوالے سے ن لیگ کو پی پی پی سے بہتر سمجھا۔ اب پارسائی کے دامن چاک ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے حوالے سے تو پہلے ہی کوئی بھول نہیں تھی۔ اب آنکھیں ن لیگ کے حوالے سے بھی کھل گئی ہیں۔ یہ تعلیم قوم کو پاناما پیپرز اور اُس کی پاداش میں جو کچھ ہو رہا ہے، سے ملی۔
قوم کی سوچ آگے کی طرف جا رہی ہے لیکن ہمارے بہت سے 'لبرل‘ دوست عجیب عجیب منطقیں پیش کر رہے ہیں۔ رہنماؤں کی بے دھڑک کرپشن ان کو نظر نہیں آتی۔ صرف یہ پکارے جا رہے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ لوٹ مار کی کھلی اجازت ہو اور کوئی پوچھ گچھ نہ ہو، اُن کی نظر میں یہ جمہوریت ہے۔
ہمارے وکلاء کا بھی کیا کہنا۔ افتخار چوہدری صاحب کی بحالی کی تحریک نے کیا گُل کھلائے۔ سبکدوش عدلیہ تو بحال ہوئی لیکن ساتھ ہی ساتھ وکلاء صاحبان بے لگا م ہو گئے۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اولمپک کمیٹی کی کوئی ضرورت نہیں۔ مُکا بازی اور کشتی کی ٹیمیں سلیکٹ کرنی ہوں تو یہ کام پاکستان بار کونسل کو سونپ دیا جائے اور وکلاء حضرات میں سے ہی یہ ٹیمیں سلیکٹ کر لی جائیں۔
حالات بدل چکے ہیں اور ن لیگ کا بس نہیں چلا‘ ورنہ اعلیٰ عدلیہ پر کب کی 1997ء جیسی یلغار ہو چکی ہوتی۔ اصل مروڑ ن لیگی قیادت کو یہی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ‘ پھر جے آئی ٹی اور اب احتساب عدالتوں کو وہ سبق نہ سکھا سکے۔ محترم ملک قیوم جیسے جج صاحبان تو اپنے گھر کے بندے کی حیثیت رکھتے تھے۔ فون اٹھایا‘ خادم اعلیٰ یا احتساب الرحمن نے اور ملک صاحب اور ان جیسے انصاف پسند مایوس نہ کرتے۔ رونا ہی اب یہ ہے کہ اِس بار ایسے چیزیں نہ ہو سکیں۔ اب تو حالت یہ ہے کہ ہسپتال میں پڑی بیگم کلثوم نواز کی تصویروں کی باقاعدہ تشہیر ہو رہی ہے۔ وہ بستر پہ لیٹی ہیں اور نوازشریف مغموم بیٹھے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسا کب ہوتا ہے۔ کون اپنے بیماروں کی تصویروں کی ایسی نمائش کرتا ہے۔ شرفاء اپنے غم اور تکلیفوں کو عام نظروں سے چھپاتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جا رہا تو مطلب صاف ہے کہ ہمدردی اُبھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ مایوسی (Depression) نہیں تو اور کیا ہے؟
جتنی ہم اسلام کی بات کرتے ہیں‘ اتنی ہی ہمارے معاشرے میں منافقت ہے، دکھاوے کچھ اصلیت کچھ پارسائی کے لبادے اور در پردہ حقیقت اور۔ کوڑا کرکٹ اٹھایا نہیں جاتا‘ گو ہمیں یہ بھی تلقین ہے کہ صفائی یا پاکیزگی نصف ایمان ہے۔ صفائی بھی آ کے چینی یا ترکی کمپنیوں نے کرنی ہے۔ ہم نے صرف مال بنانا ہے۔ اور کوئی پوچھے تو نعرہ بلند کرنا ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ 111 بریگیڈ حرکت میں نہیں آ رہی، بس سسٹم خود بخود تباہی کے دہانے کی طرف جا رہا ہے کیونکہ لیڈران عقل سے عاری ہیں اور دلوں میں منافقت بھری ہوئی ہے۔