"AYA" (space) message & send to 7575

جنرل ضیاء کے سیاسی ورثے کا اختتام

جنرل ضیاء الحق کا مذہبی ورثہ تو کچھ دیر اوررہے گا ۔کب ختم ہوتاہے یا اس میں کیا تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں نہیں کہاجاسکتا لیکن ان کا سیاسی ورثہ اب ختم ہونے کو جا رہا ہے۔ نواز شریف اپنے آپ کو لاکھ جمہوریت کا دیوتاکہیں لیکن ہیں یہ جنرل ضیاء کے سیاسی ورثے کی سب سے بڑی نشانی۔ ان کی حیثیت اور سیاست نے اُسی رجعت پسند آمریت کے بطن سے جنم لیا ۔ وہیں سے ان کی سیاست کا آغاز ہوا اورجنرل ضیاء الحق اوران کے دیگر رفقاء کی چھتری تلے انہوں نے اپنے پہلے سیاسی قدم رکھے۔ 
کتنا طویل ان کی حکمرانی اورعروج کادور رہا ۔1981ء میں پہلی بار پنجاب کابینہ کے وزیر چنے گئے اور پھر 1985ء میں صوبہ کے وزیراعلیٰ بنے ۔ سیاست ان کی وہاں سے آئی لیکن ان کا اوران کے خاندان کا کمال یہ تھا کہ دولت اورکرپشن کو سیاست کے ساتھ نتھی کردیا۔ ایک سیاسی اورصنعتی سلطنت کی بنیاد رکھی اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے سیاسی کلچرکو بدل کے رکھ دیا۔ سیاسی میدان میں جو دوسری قوت تھی یعنی پیپلزپارٹی اس نے بھی پیسہ اکٹھا کرنے کی راہ اپنائی۔ایک طرف شریف خاندان مال بنا رہاتھا اوردوسری طرف جناب آصف علی زرداری۔ 
ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کو برباد کرنے کے ہزار جتن کئے لیکن کامیاب نہ ہوسکے ۔ان کے طویل دورِ حکمرانی میں مزاحمت کی نشانی پیپلز پارٹی ہی رہی ۔ لیکن جوکام ضیاء الحق نہ کرسکے آصف علی زرداری نے کر دکھایا۔ان کے ہاتھوں پیپلزپارٹی برباد ہوئی ۔ آج جو حشر ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کا ہے ، خاص طورپہ پنجاب میں، وہ زرداری صاحب کی ہنر مندی کا مرہون منت ہے۔
پیپلزپارٹی کی بربادی کے بعد میدان میں ن لیگ رہ گئی تھی اور کچھ عرصے پہلے تک دانا اورپنڈت کہہ رہے تھے کہ اگلے الیکشن اس کی جیب میں ہیں۔لیکن قدرت یا حالات کا کرنا دیکھیے۔جنہوں نے اقتدار میں رہنا تھا اُن کا بھی حشر ہمارے سامنے ہو رہا ہے۔ ایک سال پہلے تک نواز شریف ہر چیز پہ چھائے ہوئے لگتے تھے ۔آج وہ اوراُن کے بچے پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ دراصل جو کچھ پاکستان کے سیاسی منظرنامے پہ ہو رہا ہے ایک تاریخی عمل ہے ۔ایک شخص ختم نہیں ہورہا ،ایک لمبی سیاسی کہانی اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے ۔جنرل ضیاء کا سیاسی ورثہ جس کی نشانی نواز شریف ہیں ختم ہونے کوجارہاہے ۔
وہ سیاست جو ضیاء دور سے شروع ہوئی اورپاکستان کی تقدیر پر اتنا عرصہ قابض اورحکمران رہی وہ ہچکولے لیتی ہوئی اپنے انجام کو پہنچ رہی ہے اورایک نئے دور کا آغاز ہو رہاہے ۔ جو لوگ اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید پھر سے این آر او جیسا سمجھوتہ ہوجائے اورنوازشریف کی جان بخشی ہوجائے اوراُن کیلئے واپسیِ اقتدارکاراستہ کھل جائے، غلطی پر ہیں۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے پیچھے موڑا نہیں جاسکتا ۔ ایک چیز جس کی expiry date آن پہنچی ہو وہ کھوئی ہوئی توانائی واپس نہیں لے سکتی۔ وہ سیاست جس کے علمبردار نواز شریف ا ب تک رہے ہیں وہ توانائی اورافادیت کھو بیٹھی ہے۔
پانامہ پیپرز توایک ظاہراً ذریعہ تھا ۔اصل میں دو وجوہات کی بناء پہ حالات یہاں تک پہنچے ہیں ۔ اول ،ہمارے سیاست دان پرلے درجے کے نکمے نکلے۔لگتاہے کہ ایک ہی خواہش ان پہ حاوی رہی کہ جس ذریعے سے بھی ممکن ہو‘ مال بنایاجائے ۔ ہر طرف کی سیاسی قیادتیں ماسوائے تحریک انصاف اسی راہ پہ گامزن رہیں ،یہاں تک کہ وہ سمجھ نہ سکیں موجودہ حالات کے تقاضے کیا ہیں ۔دوئم ،جنرل راحیل شریف کی کمان میں فوج اوردیگر عسکری ادارے طاقت پکڑ گئے اوراُن کی عوامی پذیرائی میں بے حد اضافہ ہوا ۔یہ تبھی ممکن ہوسکا جب افواج نے 2014ء کے وسط میں فاٹا میں کارروائی کاآغاز کیااورپھررینجرز کے توسط سے وہ اقدام کئے جن سے کراچی کے حالات یکسر تبدیل ہو گئے۔ ان واقعات سے پہلے قوم کا مورال ڈوبا ہوا تھا اورایک خاص عدم تحفظ کا احساس پورے ملک پہ چھایا ہوا تھا۔سوچ رکھنے والے لوگ فکر مند تھے کہ دہشت گردی کرنے والے عناصر ریاست کے مستقبل پہ حاوی نہ ہوجائیں ۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے اقدامات تو سیاست دانوں کولینے چاہئیں تھے۔لیکن اُنہوں نے ایسا نہ کیا۔ ہر بات کیلئے کہتے تھے کہ آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے اوروہاں لمبی تقریروں کے سوا کچھ نہ ہوتا۔نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد 2013ء میں جو آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی ،اس نے فیصلہ کیا کہ دہشت گردوں سے بات چیت کی جائے۔اس وقت حال یہ تھا کہ پشاور میں آئے روز دھماکے ہوتے ۔ اے پی سی کے اعلامیے سے دہشت گردوں کے حوصلے اوربڑھے اور اس احساس کو تقویت ملی کہ ریاست میں دہشت گردی سے مقابلہ کرنے کیلئے دم خم نہیں۔یہ محض ایک افسانہ ہے کہ سیاسی حکومت نے فاٹا میں کارروائی کافیصلہ کیا ۔فوج نے یہ فیصلہ خودکیا اورسیاست دانوں کو بادل نخواستہ ہاں میں ہاں ملانا پڑی ۔
فوجی کامیابیوں کے سامنے سیاسی حکومت دبک کے رہ گئی یایوں کہیے کہ فوج کے سائے میں حکومت چلنے لگی ۔ یہ قابل رشک صورتحال نہ تھی۔یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ دھرنے حکومت کو مزید دفاعی پوزیشن پہ لے آئے لیکن حکومت بھی اپنی توانائیاں کبھی میڈیا کی جنگوں میں صَرف کرتی رہی یا حکمران خاندان حکمرانی کے تقاضے پورا کرنے کی بجائے اپنے وسیع وعریض کاروبار پر توجہ دیتا رہا۔ راحیل شریف کی مدت ملازمت پوری ہوئی تو حکمران طبقے نے سکھ کا سانس لیا اور سمجھا کہ ان کی مشکلات ختم ہونے کو ہیں۔ لیکن اُسی اثناء میں جب خوشی کی فضاء عروج پر تھی تو کہیں دور آسمانوں سے پانامہ پیپر زکابم آن پھٹا ۔ پھر ہم جانتے ہیں کیا ہوا ۔ ایک افسانے کو چھپانے کیلئے پے در پے افسانے گھڑے گئے ۔ خاندان کے ہر فرد کا بیان دوسرے سے مختلف تھا۔قطری خطوط تو ایسی کامیڈی نکلے کہ پوری قوم ہنستی رہ گئی۔معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا اورشریف خاندان کوئی ایک معقول کہانی نہ پیش کرسکا ۔خاندان کے لوگ واضح طورپہ یااشارے کنایوں سے کہتے ہیں کہ اُ ن کے خلاف سازش ہورہی ہے ۔ساز ش نہیں ایک نالائقی اوردروغ گوئی کی لمبی داستان ہے۔ چالاکی اور ڈرامہ بازی پہلے چل جاتے تھے اور بہت عرصے تک چلتے رہے ۔شریف خاندان کبھی قانون کے نرغے میں نہ آیا۔ بڑے بڑے سکینڈلز ہوئے لیکن وہ بچ نکلے۔ اب کی بار یہ نہ ہو سکا۔ ایک تو شایدتقدیرکی مار تھی اور دوسری یہ کہ فوج کی کامیابیوں کی وجہ سے طاقت کا توازن بدل چکا تھا۔ وہ ن لیگ جس نے بغیر کسی تامل کے 1997ء میں سپریم کورٹ پہ حملہ کردیاتھا اب عدالتی کارروائی اورعدالتی فیصلوں کے سامنے بے بس تھی ۔
وفاداران تو نہیں مانیں گے لیکن کچھ فیصلے حتمی ہیں ۔پیپلز پارٹی کی سیاست ختم ہوچکی ۔سندھ میں اپنا حصہ پارٹی لے جائے گی لیکن پنجاب میں وہ یکسر غیر متعلق ہوچکی ہے ۔ن لیگ سیاسی قوت رہے گی لیکن پارٹی کی قیادت کا زوال پیچھے مڑنے والا نہیں۔ نئی حقیقتیں جنم لے رہی ہیں ۔ مختلف سیاستدان اگلے انتخابات پر سوالیہ نشان لگارہے ہیں۔ حکومت جانے کی باتیں عام موضوع بحث بن چکی ہیں۔ سیاسی طبقات غیر یقینی کی گرفت میں ہیں ۔کیا ہوتاہے پتہ نہیں،پر یہ یقین سے کہاجاسکتاہے کہ وہ سیاسی نشانیاں جو ضیاء دور میں اُبھریں اوراتنے لمبے عرصے تک افق پہ چمکتی رہیں ا ب ڈھلنے اور مٹنے کو ہیں ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں