قومی اسمبلی میں نثار علی خان سے مجھے یہ چڑ تھی کہ وہ اختصار سے کام نہ لیتے ۔ بات لمبی کرتے اوراپنے آپ کو دہراتے بہت ۔ میں اکثر کہتا کہ تفتیش کی غرض سے کسی ملزم کو ٹھیک کرنا ہو تو نثار صاحب کی ٹیپ شدہ تقریریں سنائیں ۔شام تک یا اگلے روز چیخنے لگے اوررحم کی بھیک مانگے گا۔ لیکن چڑ کے باوجود یہ ماننا پڑ ے گا کہ آج کل نثار علی خان شاید واحد لیگی ہیں جو عقل کی بات کررہے ہیں۔کہتے ہیں سپریم کورٹ کو پاناما پیپرز کے مسئلے میں الجھنے کی دعوت ن لیگی قیادت نے خود دی ۔ خود ہی تحقیقاتی کمیشن کا ذکر چھیڑا ۔ سپریم کورٹ کو خط بھی نواز شریف نے خود لکھا ۔ تو اگر پہل یہاں سے ہوئی تو پھر سازش کیسی ؟
اس استدعاکو کیسے جھٹلایا جاسکتاہے ؟ لیگی قیادت پہل کرتی گئی اورپاناما کی دلدل میں پھنستی گئی ۔سپریم کورٹ نے بہت بعد اس مسئلے کو اُٹھایا۔ جب بات وہاں پہنچی تو نواز شریف اورفیملی نے پھنسنا ہی تھا کیونکہ پاناما سے اٹھنے والے سوالات کا اُن کے پاس ایک بھی ڈھنگ کا جواب نہ تھا ۔پھر نہ قطری کہانیاں کام آئیں نہ پاکستان کے چوٹی کے وکیل کچھ کرسکے کیونکہ شریف خاندان کا دفاع صداقت پہ مبنی نہ تھا ۔
نثار علی خان کا یہ مشورہ بھی صائب ہے کہ اداروں سے ٹکر نہ لی جائے ۔ اس ضمن میں اداروں کا مطلب کیا ہے ؟ عدلیہ اورفوج ۔کیا ن لیگ کوئی چی گو یرا (Che Guevara) کی جماعت ہے یا اُس کی قیادت ہوچی مِن (Ho Chi Minh)کررہے ہیں ؟ یہ ایک روایتی اورقدامت پسند جماعت ہے جس کی موجودہ شکل فوج اورآئی ایس آئی نے دہائیوں پہلے ترتیب دی۔ ''ہمیں یاد ہے وہ ذرا ذرا ،تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘‘۔نواز شریف کو لیڈر بنانے والے ہی جرنیل صاحبان تھے ۔ ایسی جماعت ٹکراؤ کی راہ پہ کیسے چل سکتی ہے ؟
پیپلزپارٹی ن لیگ کی نسبت زیادہ ترقی پسند جماعت تھی ۔ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کے وقت جماعت کی قیادت نے ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کرنا چاہی۔حاصل کچھ نہ ہوا البتہ بہت سے پارٹی کارکنوں کو جیل اور کوڑوں کی اذیت اٹھانی پڑی ۔ ضیاء الحق کے جانے کے بعد پارٹی پھر اقتدار میں آئی اوراس کی قیادت نے اقتدار کے خوب مزے لوٹے ۔ لیکن ورکروں کے ہاتھوں سوائے دسترخوان سے گرے ہوئے ٹکڑوں کے کیا آیا؟نثار علی خان درست کہتے ہیں کہ ن لیگی قیادت کی اکثریت تصادم کی پالیسی کے خلاف ہے ۔روایتی ایم این ایز اورایم پی ایز کو اپنے کاموں سے غرض ہوتی ہے۔ ڈی پی او تو دور کی بات رہی اپنے مقامی ایس ایچ او سے ٹکر نہیں لے سکتے ۔ ایس ایچ او سے شکایت ہوتو چیف منسٹر کے سامنے روتے ہوئے پہنچ جاتے ہیں کہ ایس ایچ او منہ زور اوربدتمیز ہے ،اسے تبدیل کیاجائے ۔میرے اپنے تجربے کی بات ہے کہ کسی ایس ایچ او کے تبادلے کے احکامات چیف منسٹر دفتر سے آئے ہوں۔یہ ہے ہمارے سیاستدانوں کی حالت ۔ شریف خاندان کو تو سعودیوں نے بچا لیا لیکن جب پرویز رشید پر تشدد ہوا اور رانا ثناء اللہ کو رات کے اندھیر ے میں درخت سے باندھ کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو انہیں کون بچانے آیا ؟
حالات خرابی کی طرف نہیں الیکشن کی طرف جارہے ہیں ۔سوائے ایک شخص کے پورے سیاسی منظر نامے میں کوئی نہیں چاہتا کہ نظام لپیٹا جائے ۔و ہ شخص ہے میاں نواز شریف ۔برطرفی کے بعدزخم خورد ہ ہیں اوردل کینے سے بھراہے ۔اُ ن کی سوچ یہ لگتی ہے ،میں نہیں تو پھر کوئی نہیں ۔ اسمبلیاں تحلیل ہوں ،آئین پرے رکھ کے کوئی غیر جمہوری نظام کھڑا کیاجائے ، اُن کے وارے میں ہے ۔نہیں وارے میں تو ایک چیز :ایسے الیکشن جس میں عمران خان کے وزیراعظم بننے کی اُمید پیدا ہو ۔ فوجی حکومت برداشت کرلیں گے عمران خان نہیں ۔نثار علی خان کا مشورہ بالکل جائز ہے کہ نواز شریف کو اپنی ذات کے دائرے سے نکل کر پارٹی کی بقاء کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
حالات یونہی رہے تو ن لیگ کیلئے اچھے نہ ہوںگے۔ اس وقت پاکستان میں تین قابل ذکر قوتیں ہیں ، باقی چھوٹے موٹے مہرے ہیں بشمول مذہبی جماعتوں کے:(1)فوج (2)زخم شدہ ن لیگ اور (3) روز بروز مزید طاقت پکڑتی ہوئی پی ٹی آئی ۔ الیکشن وقت پہ ہوئے تو پھر بھی اُن کے انعقاد میں10-9ماہ باقی ہیں ۔جیسے برطانوی پرائم منسٹر ہیرلڈ ولسن نے کہا تھا سیاست میں ایک ہفتہ لمبا عرصہ ہوتاہے ۔دس ماہ تو قیامت ثابت ہوسکتے ہیں ۔1970ء میں الیکشن مہم نے دس ماہ چلنا تھا پھر مشرقی پاکستان میں سائیکلون (cyclone)کی تباہی کی وجہ سے الیکشن کو پیچھے کیا گیا ۔یوں مہم ایک سال رہی ۔لاوہ اتنا پکا کہ ملک کی بنیادیں ہل کے رہ گئیں ۔ ابھی تک تو ن لیگ کو ہلکا سا جھٹکا لگا ہے تو اُس میں نفاق اورریخت کا عمل شروع ہوگیاہے ۔بھائی کی بھائی سے نہیں بن رہی، دُختر اپنے چچا زادوں سے اختلاف رکھتی ہیں ۔ن لیگی ایم این ایز اورایم پی ایز آسودہ نہیں۔آگے کی سوچ رہے ہیں ،اگلے الیکشن کی فکر انہیں لاحق ہے ۔اگلی الیکشن مہم کی قیادت کون کرے گا ؟یہ ایک سوالیہ نشان بنا ہواہے ۔ جہاں ن لیگ کی یہ حالت ہے وہاں عمران خان پُر اعتماد نظر آتے ہیں ۔ میانوالی اورمنڈی بہاؤالدین جیسی جگہوں پہ جلسے کرتے ہیں تو عوام اُمنڈ آتے ہیں ۔ اُن کے پاس کہنے کو ایک واضح پیغام ہے ۔ ن لیگ کے پاس کچھ بھی نہیں سوائے شریف خاندان کی مظلومیت کی داستان کے۔ پرابلم یہ ہے کہ فلیٹ آپ کے لندن میں ہوں،علاج بھی وہاں کرائیں اوردولت آپ کی دنیا کے چاروںکونوںپھیلی ہو تو مظلومیت کا بیانیہ پُر اَثر نہیں رہتا۔
ن لیگ میں شوشے قسم کے بہت لوگ ہیں خاص طورپہ وہ گروپ جو مریم صفدر کے اردگرد ہے ۔لیکن پارٹی کے سمجھدار لوگ پارٹی کامسئلہ سمجھ رہے ہیں۔ وہ سُوجھ رکھتے ہیں کہ اگر حالات ایسے رہے ،نواز شریف کے دل میں پلنے والا کینہ کم نہ ہوا اوروہ ایسی باتیں کرتے رہے جن سے اداروں سے لڑنے کا تاثر اُبھرے تو یہ صورتحال ان کی پارٹی کیلئے اچھی نہیں ۔اس صورتحال کا فائدہ عمران خان کو ہورہاہے ۔
لیگی چہرے تو دیکھیے ، رنگ اُڑے اُڑے سے لگتے ہیں ۔ اسحاق ڈار کی حالت تو سب سے زیادہ خراب ہے ۔ اندر کی پریشانیاں چہرے پہ نمایاں ہیں ۔ میں اگر غلطی پہ نہیں تو رانا ثناء اللہ بھی پریشان لگتے ہیں ۔پہلے کا پرُاعتماد لہجہ کمزور پڑ گیاہے ۔نواز شریف بھی کچھ ڈھیلے ڈھیلے لگتے ہیں۔ انہیں دیکھنا تو آگے کو چاہیے تھا اورپارٹی کے حوالے سے ایک جہاندیدہ مدّبر کا کردار ادا کرنا چاہیے تھا ۔لیکن اپنی ذات اورپریشانیوں سے باہر نہیں نکل پا رہے جوکہ ان کی پارٹی کیلئے نیک شگون نہیں۔
فوج اقتدار پہ قبضہ کرے تو اس سے بڑی حماقت ہو نہیں سکتی ۔ فوجی کمانڈر خود بھی یہ سمجھتے ہیں۔ہر چیز بتاتی ہے کہ انہیں یہ ادراک ہے کہ کسی ایک ادارے کے بس میں نہیں کہ ملک کی باگ ڈور سنبھا ل سکے ۔ ریاست بحران کی کیفیت میں تو ہے لیکن قوموں کی تاریخ میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ مسئلہ تو تب بنتاہے جب بحران قوموں کی تقدیر پہ حاوی ہوجائیں۔ ہمارے ساتھ ایسا نہیں ۔ہمارے اس بحران کا حل موجود ہے : وقت ِ مقررہ پہ آئین کے مطابق انتخابات ۔جسے عوام کی تائید حاصل ہو اقتدارسنبھالے ۔یہ کہاں لکھا ہے کہ ہم نے نکموّںاور بددیانتوں کے ہاتھوں ہی ہمیشہ مرنا ہے ؟