ڈنڈے کا استعمال مگر مخمل میں لپٹا ہوا۔ باتیں منوائی جائیں مگر لبادہِ آئین اوڑھ کے۔ آئین کی ظاہرہ حکم عدولی ہرگز نہ ہو۔ فوجی ٹرکوں کو اسلام آباد کی طرف دوڑا دینا اور وہی گھسی پٹی رسم پوری کرنا‘ پہلے ٹی وی سٹیشن پر قبضہ، پھر کے بلاک (K Block) ‘جو آئی بی کا ہیڈ کوارٹر ہے کو محاصرے میں لینا اور پھر شام ڈھلے عزیز ہم وطنوں سے مخاطب ہونا اور بے معنی قسم کے وعدے کرنا۔ یہ ایک فرسودہ کہانی ہے، گزرے وقتوں کی داستان۔ ہمارے لیڈران تبدیل نہیں ہوئے، پرانے وقتوں میں بس رہے ہیں اور سوچ پہ تالے لگے ہوئے ہیں۔ لیکن زمانہ آگے کو جا چکا ہے اور بحرانوں کے حل کے لئے نئی ترغیبات اور نئے ارادوں کی ضرورت ہے۔
سیاستدانوں کے کرتب تو ہم دیکھ رہے ہیں۔ ان پہ تکیہ کیا جائے اور انہی پہ بات چھوڑ دی جائے تو موجودہ بحران لمبا ہوتا جائے گا اور الیکشن وقت پہ نہ ہو سکیں گے۔ نفاق اور کنفیوژن پیدا کرنا ہو تو ہمارے اکابرین کو اکٹھا کر لیا جائے۔ ڈھنگ کے فیصلوںکی توقع اُن سے نہیں کی جا سکتی۔ بحران کا حل ڈھونڈنا ہے اور الیکشن ٹائم پہ کرانے ہیں تو جیسے پاناما پیپرز والا مسئلہ بادلوں کو چیرتا ہوا آسمان سے گرا‘ ایسا ہی کوئی فیصلہ آسمان سے آئے‘ اور اس حکومت کے سر پہ ٹوٹے۔ پھر ہی کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے۔
سعودی عرب میں شاہ سلمان کے ولی عہد پرنس محمد بن نائف تھے۔ وہ مرضی سے پرنس محمد بن سلمان کے حق میں دستبردار نہ ہوئے۔ رات کو بلاوا آیا، شاہ سلمان کے سامنے پیشی ہوئی، دیگر شہزادے انہیں ایک طرف لے گئے اور قائل کرنے لگے کہ ولی عہد کی پوزیشن سے دستبردار ہو جائیں۔ نہ مانے لیکن قائل کرنے کی کوشش جاری رہی۔ رات کے پہر گزرتے گئے۔ شہزادہ محمد بن نائف ذیابیطس کے مریض ہیں۔ کچھ سال پہلے بم حادثے میں زخمی بھی ہوئے تھے‘ جس کے اثرات ابھی تک باقی ہیں۔ ان کا موبائل لے لیا گیا اور وہ کہیں کال نہ کر سکتے تھے۔ کہتے ہیں کہ دوا کا ٹائم آیا تو وہ بھی نہ لینے دی گئی۔ آخر مان گئے اور دنیا نے ٹی وی پر وہ مناظر دیکھے جس میں موجودہ ولی عہد محمد بن سلمان سبکدوش ولی عہد کے ہاتھ چوم رہے ہیں‘ اور اُن سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیشہ آپ کی رائے کو قیمتی سمجھوں گا۔ چند روز پہلے کی پرج (purge) میں کئی اہم شہزادے اور سابق وزراء تحویل میں لیے گئے ہیں۔ یہ لوگ شہزادہ محمد کے مخالف سمجھے جاتے تھے‘ اور ان کے ہٹائے جانے سے کہا جا رہا ہے کہ ان کی پوزیشن زیادہ مستحکم ہو گئی ہے۔
کہانی بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ریڈیکل (Radical) تبدیلیاں ایسے ہی نہیں آتیں۔ چیئرمین ماؤ کا قول تو ہم سب جانتے ہیں کہ طاقت بندوق کی نالی سے بہتی ہے۔ جنرل ڈیگال نے بھی یہی کچھ کہا کہ تلوار دنیا کی محور ہے اور اس کی طاقت حتمی ہے۔ اپنے تک ہمارے سیاستدانوں کو جو جمہوری اقدام لینے ہیں‘ وہ بھی نہیں لیں گے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ قبل از وقت انتخابات منعقد ہوں اور ایک مضبوط عبوری حکومت معرض وجود میں آئے۔ لیکن موجودہ حکومت میں پہل کرنے کی سکت نہیں رہی، فیصلہ سازی کی صلاحیت سے وہ محروم ہو چکی ہے۔ جس وزیر اعظم کو اتنی سمجھ نہ ہو کہ آج کل کے تناظر میں لندن سکول آف اکنامکس کے چند طلباء کے سامنے لیکچر دینے جیسی فضول حرکات سے پرہیز کرنا چاہیے‘ اس سے کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ فوری الیکشن جیسا بڑا فیصلہ کر سکے؟۔
حکمران پارٹی کی قیادت اپنی مصیبتوں میں پھنسی ہوئی ہے‘ اور ان مصیبتوں میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ انہیں بحران کے حل سے کوئی سروکار نہیں۔ اپنی جان کی فکر ہے۔ الیکشنوں میں تاخیر ہوتی ہے تو ایک لحاظ سے یہ خوش ہوں گے کہ ہمارے بغیر بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ ایک نیب مقدمات ان کے سروں پہ سوار ہیں‘ دوسرا‘ عمران خان۔ کیا یہ چاہیں گے کہ یہ خود مقدمات میں پھنسے رہیں اور عمران خان کی سیاسی قوت میں روز بروز اضافہ ہوتا رہے؟ کیا یہ ایسے انتخابات چاہیں گے جس سے فائدہ ان کے اس نہ تھکنے والے دشمن کو ہو؟ انہیں تو سوٹ کرتا ہے کہ سب کچھ اُلٹ پُلٹ ہو جائے‘ اس آرزو کی تکمیل میں کہ ہم نہیں تو کوئی نہیں۔
الیکشن ہونے ہیں تو کروانے پڑیں گے۔ قومی مفاد کے تقاضے شاہد خاقان عباسی خود نہ سمجھ سکیں گے۔ انہیں سمجھانے پڑیںگے۔ شہباز شریف ابھی تک اپنی خود ساختہ احمقوں کی جنت میں بس رہے ہیں۔ اپنے آپ کو اگلے وزیر اعظم کے رُوپ میں دیکھ رہے ہیں۔ دل میں دھڑکا تو ہو گا کہ پردہِ سکرین کے پیچھے ماڈل ٹاؤن کیس اور حدیبیہ پیپر ملز والا قصہ موجود ہیں۔ دونوں کے مرکزی کردار خادم اعلیٰ ہیں۔ اس کے باوجود وزارتِ عظمیٰ کے خواب دیکھے جا رہے ہیں۔ یہ خود فریبی نہیں تو اور کیا ہے؟
حدیبیہ ملز کیس میں پہلا اعترافی بیان تو صرف مریضِ اول جناب اسحاق ڈار کا تھا۔ اس پہ ان کے قریبی رفیق نیشنل بینک کے چیئرمین سعید احمد نے ایک اور اعترافی بیان دے کر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے‘ جس کے مندرجات جناب ڈار کی باتوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ ابھی تو احتساب کا عمل شروع ہوا ہے اور پہلی پیشیاں ہو رہی ہیں۔ اگلے دو تین ماہ میں معاملات پتہ نہیں کہاں جا پہنچیں۔ اس لئے شاہد خاقان کے ساتھ خادم اعلیٰ کو بھی سمجھانے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ سمجھنے سمجھانے کا سلسلہ تب ہی شروع ہو سکتا ہے‘ جب فیصلہ جہاں ہونا ہے، جنہوں نے چیئرمین ماؤ اور جنرل ڈیگال کے اقوال سے سبق اخذ کرنا ہے، ایسا کر دکھائیں۔
یہ عمل پہلی بار نہ ہو گا۔ ہماری تاریخ میں اس نوع کی ایک درخشندہ مثال موجود ہے۔ 1993ء میں بھی ایک بحران پیدا ہوا تھا اور وہ تبھی حل ہوا جب جنرل وحید کاکڑ اُس وقت 10 کور کمانڈر جنرل غلام محمد کے ہمراہ پہلے وزیر اعظم نواز شریف اور پھر صدر غلام اسحاق خان سے ملے۔ اُن کی گفتگو ایسی پُر اثر ثابت ہوئی کہ جن دو صاحبان نے ہٹ دھرمی کے ریکارڈ قائم کر دئیے تھے‘ اپنے اعلیٰ منصبوں کو چھوڑنے پہ تیار ہو گئے۔ ایک عبوری حکومت بنی۔ باہر سے ایک وزیر اعظم لائے گئے‘ اور عین آئینی تقاضوں کے مطابق الیکشن ہوئے اور بے نظیر بھٹو دوسری بار وزیر اعظم بن گئیں۔ اُس وقت نواز شریف کے چہرے پہ یہ ملال واضح نظر آتا تھا کہ میرے ساتھ ہاتھ ہو گیا۔ بالکل اسی طرح جیسے وہ آج کل پوچھتے پھرتے ہیں کہ مجھے نکالا کیوں گیا۔
الیکشن وقت پہ کرانے ہیں اور آئین کو بچانا ہے اور ٹرکوں کی اسلام آباد کی طرف آمد کو روکنا ہے تو جنرل کاکڑ کی مثال کو سامنے رکھنا پڑے گا۔ ایک بات اور درکار ہے۔ ماضی میں تو یہاں کسی کو زُکام ہوتا تو نام ای سی ایل میں ڈال دیاجاتا تھا۔ اب مگرمچھوں کا کھیل جاری ہے۔ اسحاق ڈار بھی باہر چلے جاتے ہیں، اُن کے بچوں کی پیشی ہوتی ہے اور وہ نہیں آتے۔ ماڈل ٹاؤن کیس کا کسی کو پتہ نہیں کہاں ہے۔ حدیبیہ کیس بھی کہیں گم پڑا ہے۔ احتساب کو مذاق نہیں بننا تو اس عمل میں تیزی کی ضرورت ہے۔ ای سی ایل قانون کے سہارے کا وقت بھی شاید آن پہنچا ہے۔
لیکن بنیادی سوال وہی ہے۔ الیکشن وقت پہ کرانے ہیں یا نہیں؟ کرانے ہیں تو آئین کی باریکیاں وکلاء کی تشریحات میں نہیں بلکہ جنرل کاکڑ کی عینکیں چڑھا کے دیکھنا پڑیںگی۔