سیاست سے تو اب چڑ ہونے لگی ہے ۔سوئی ایک جگہ پھنسی ہے ۔رابرٹ موگابے سے نسبتاً جان چھڑانا آسان تھا ۔ اسحاق ڈار کو دیکھیے، جاتے جاتے بھی مکمل نہیں گئے ۔غائب نہیں اب تو مفرور ہیںلیکن وزارت کے رُتبے سے اب بھی چمٹے ہوئے ۔صحیح کہا اعتراز احسن نے کہ پاناما کا سارا ثبوت اسحاق ڈارکی چھاتی میںپنہاں ہے ۔اپنا علاج کیا کراناہے چار سالوں میں ہمارا خوب کر گئے۔ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ڈار صاحب کی مہربانیوں سے قرضوں تلے دبی ہے۔یونان جتنے قرضے تو نہیں ہوئے لیکن پھر بھی ہماری ادائیگی کی سکت سے کب کے باہر ہوچکے ہیں۔
احتساب نام کی چیز ہو تورہی ہے لیکن اس رفتا رسے کہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اختتام کو کب پہنچے ۔ بہرحال دنیا اُمید پہ قائم ہے ۔نواز شریف کے مقدمات بھی چل رہے ہیں اورماڈل ٹاؤن کیس بھی رینگتا رینگتا آگے آرہاہے ۔ ابھی تو باقر نجفی رپورٹ منظرعام پہ آنے کے احکامات جاری نہیں ہوئے ۔ لاہورہائی کورٹ میں اس پر غورجاری ہے اورتاریخیں پڑ رہی ہیں ۔ دیکھیے اس پر کب فیصلہ آئے اورکیس میں جان پڑے ۔ رابرٹ موگابے بھی بہت بڑے کھلاڑی تھے لیکن ہمارے داناؤں سے کچھ سبق لیا ہوتا تو مزید دن اقتدارمیں رہ لیتے۔
93سال کے تھے اور1980ء سے لے کر اب تک ڈٹ کے اقتدار کیا ۔ جب تک مغربی ممالک خاص کر برطانیہ اُن کے خلاف نہیں ہوئے۔ ہر سال کرسمس کو لندن جاتے اورہیرڈز (Harrods)میں شاپنگ کرتے۔ پہلی بیوی کی وفات کے بعد صدارتی محل کی ایک ٹائپسٹ سے عشق میں کھو گئے اورپھر شادی کرلی ۔ گریس موگابے خوش شکل تھیں ۔ خاتون اول بننے کے بعد ان کے سیاسی عزائم بھی جاگے اوراپنے خاوند کی جانشین بننے کے خواب دیکھنے لگیں۔ وہیں سے رابرٹ موگابے کاکام خراب ہونا شروع ہوا۔ سنبھل کے رہتے اورخاتون اول تھوڑی کنٹرول میں رہتیںتو اقتدار میں آخری ایام شایداتنے ڈرامہ خیز نہ ہوتے۔فرانسیسیوں کا مشہور مقولہ ہے ''cherchez la femme‘‘۔یعنی عورت کو ڈھونڈئیے۔ مطلب یہ کہ جنگ اورامن کے ہر مسئلے کے پیچھے عموماً کوئی خاتون ہی ہوتی ہے ۔زمبابوے کے حالات میں تو یہ بات سوفیصد درست ثابت ہوئی ۔گریس ان کی زندگی میں نہ آتیں تو رابر ٹ موگابے شاید آرام سے ،جیسا کہ انگریزی کامحاوراہے ،طلوع آفتاب میں چلے جاتے۔لیکن یہ بھی تو ہوسکتاہے کہ رابرٹ موگابے سے پوچھا جاتا تو وہ کہتے کہ گریس کے بغیر اقتدار اور دیگرآسائشوں کا کیا مزہ ۔نورجہاں کے بغیر جہانگیرکو سلطنت ہند کا کیا مزہ رہتا؟
بڑے سے بڑا آدمی اس کھیل میں پِٹ کے رہ جاتا ہے۔ نپولین سے بڑا فاتح اورکون تھا ۔ستائیس سال کی عمر میں جب جرنیل ہوا اوراقتدار میں نہیں آیا تھا تو جوزفین کے عشق میں غرق ہوگیا ۔ جوزفین طلاق شدہ خاتون تھیں اور پہلی شادی سے دو بچے تھے۔ لیکن جوان نپولین کو اُس سے قربت ہوئی تو ہوش اڑ گئے۔ کمال بات تو یہ ہے کہ نپولین سے شادی کے بعد بھی جوزفین کے اور مشتاق رہے۔ ان معاملات میں نپولین بھی اتنے سادہ نہ تھے اورمختلف جنگی مہموں کے دوران ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ۔لیکن جوزفین سے عشق دیر تک رہا۔
یہاں تو ایک نام لیا ہے ،تاریخ کے اوراق پھرولے جائیں تو عشق کی داستانوں سے بھرے پڑے ملیںگے ۔رومانس سے خالی تاریخ کا کیا مزہ رہ جاتاہے ۔نیلسن منڈیلا کتنی قدآور شخصیت کے مالک تھے۔ 25-26 سال جیل میں کاٹے اورجب رہا ہوئے تو عمر ڈھلنے کو تھی۔وِنی منڈیلا سے شادی ٹوٹ چکی تھی کیونکہ وِنی جو جوانی میں بہت دلفریب تھیں‘ نے بھی اِدھر اُدھر عشق کی نگاہوں سے کام لیا۔پرنیلسن منڈیلا اورخوبیوں کے ساتھ بہت رومانٹک انسان بھی تھے ۔ عشق کے بغیر کہاں رہ سکتے تھے ۔اُن کی نظر انتخاب موزمبیق کے آنجہانی صدر سمورا ماشیل(Samora Machel) کی بیوہ گریسا (Graca) پرپڑی اوردونوں میں دوستی ہوگئی۔ جب نیلسن میڈیلا جنوبی افریقہ کے صدر بنے تو اُن کی پارٹی افریقہ نیشنل کانگرس کے ساتھیوں نے چپکے سے کہا کہ اچھا نہیں لگتا کہ آپ بغیر شادی کے ایسے بندھن میں رہیں ۔ یہ ہمارے نوجوانوں کے لئے کوئی اچھی مثال نہیں۔توپھر نیلسن منڈیلا اوران کی محبوبہ کی شادی ہوگئی ۔
یہ نہیں کہ ہمارے ہاں عشق نہیں چلتا لیکن اس بھونڈے انداز اور چھوٹے پَن سے کہ عشق کم اورواردات زیادہ لگتی ہے ۔کم بارکر(Kim Barker) ایک امریکی صحافی کچھ عرصہ پاکستان میں تعینات رہیں۔ شگاگو ٹریبیون کی نمائندہ تھیں۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ کوئی بھی غیر ملکی صحافی آئے اورشکل قبول صورت ہو تو ہمارے اشرافیہ کی صفوں کے بیچ ایسی گزر جاتی ہیں جیسے مکھن سے چھری ۔ ہر کوئی دعو ت دے رہا ہوتاہے، ہرکوئی بچِھ رہا ہوتاہے ۔ بہت جلد اُن کی وسیع جان پہچان ہوجاتی ہے ۔کم بارکر کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ ذہین تھیں اورجاذب نظربھی ۔ قد پانچ فٹ گیارہ انچ تھا اور خوب جچتا تھا۔میں بھی ایک دو بار انہیں ملا اوربڑا ہنس مکھ اورکھلے ڈُلے مزاج کا پایا ۔ اُنہوں نے اپنی تعیناتی پہ کتاب لکھی ہے اوروہ بڑی مزیدار ہے۔ لکھتی ہیں کہ ایک بھاری بھرکم شخص ان پہ تقریباً فریفتہ ہوا ۔اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں ،ایسا ہوتاہے ایسے کاموں میں اورہم سب موقع ملنے پہ ڈُلنے لگتے ہیں۔لیکن میری ہنسی نہ رُکی جب پڑھا کہ بھاری بھرکم شخصیت نے بڑے اہتمام سے اُنہیںایک آئی پیڈ گفٹ کیا۔ یہ واقعہ کم بارکر نے بڑا مزہ لے لے کے لکھا ہے ۔ظاہرہے میں کسی کانام نہیں لوںگا لیکن کم بارکر کی کتاب کاحوالہ باآسانی انٹرنیٹ سے مل سکتاہے ۔کہنے کا مطلب یہ کہ جن کو اس قوم نے پتہ نہیں کس اونچائی پہ بٹھا رکھاہے ان کا لیول بس آئی پیڈ تک کا ہی ہے۔آصف زرداری نے کسی کو کچھ دینا تھا تو ڈائمنڈ سے بھرا ہار دیا۔یہ اور بات ہے کہ ہار ہمارے پیسوں سے ہی آیاتھا کیونکہ رقم اُن سوئس بینک اکاؤنٹس سے ادا ہوئی جو کوٹیکنا (Cotecna)کمپنی سے کمیشن کے طورپہ لی گئی تھی ۔پر کم ازکم سوچ تواونچی تھی۔
پیسے ہر جگہ ہمارے ہی ہیں یعنی اس خوش قسمت قوم کے‘ جسے پتہ نہیں کن انجانے گناہوں کی پاداش میں یہ تیمور اوررُستم نصیب ہوئے ہیں۔ کوئی لیڈر شپ کا لیول بھی ہونا چاہیے۔اتنی بھی یہ گئی گزری قوم نہیں کہ ایسے لیڈرملیں جو اس کی تقدیر میں آئے ہیں ۔ جیسا اُوپرکہا ،رابرٹ موگابے 1980ء میں اقتدار میں آئے۔ ہمارے پہلوان جنرل ضیاء الحق کی مہربانیوں کی بدولت 1981ء میں پہلی مرتبہ صوبائی وزیر بنے۔یعنی حساب تقریباً برابر کا ہے۔ زمبابوے کی جان چھوٹ گئی، ہماری نہ چھوٹی ۔رابرٹ موگابے اگر خواجہ حارث کو وکیل کرلیتے تو شاید کچھ دن اور نکال لیتے ۔ لیکن جھٹکا دینے والوں نے جھٹکا دیا اورموگابے آنسو پونچھتے چلتے بنے۔ ہمارے ہاں جھٹکا نہیں لگ رہا۔ اس لئے معاملہ تھوڑا پیچیدہ تو نہیں البتہ لمبا ہوگیاہے۔
اتنا لمبا کوئی سٹیج ڈرامہ ہو تو برداشت کیا جائے ؟اب تک تو سامعین اُٹھ کھڑے ہوں اورہوٹنگ شروع کردیں ۔ کُرسیاں بھی چل جائیں۔ لیکن یہاں ڈرامہ کھنچتا چلا جارہاہے اوربوریت طاری ہونے لگی ہے۔ زمبابوے میںمعاملات موگابے پر چھوڑے جاتے تو اور وقت بیت جاتا۔ جھٹکا لگا تو بات آگے کو چلی۔ وہاں بھی آئین اورقانون کو ملحوظ خاطر رکھا گیا۔خوبصورتی یہ ہے کہ یہاں بھی رکھا جائے۔ آئینی تقاضوں سے ہرگزتجاوز نہ کیا جائے ۔ لیکن جیسے گاڑی نہ چلے تو آپ اُسے کرنٹ کا جھٹکا دیتے ہیں یہاں بھی کچھ ایسی ہی ضرورت ہے۔