1977ء کی پوری پی این اے تحریک میں اتنے لوگ نہیں مارے گئے‘ جتنے ایک صبح آپریشن کے دوران ماڈل ٹاؤن میں پولیس کی گولیوں سے چھلنی ہو گئے۔ 9-10 اپریل 1977ء کو انار کلی کے پاس گولی چلی تھی‘ جس سے دو اشخاص جاں بحق ہوئے تھے۔ پاک فوج کے دو بریگیڈیئرز نے استعفے دے دئیے کہ وہ عوام پہ گولی نہیں چلائیں گے۔ ان دو میں سے ایک چکوال کے بریگیڈیئر نیاز (مرحوم) تھے جنہوں نے بعد میں اسلحے کے کاروبار میں خاصا نام کمایا۔ جنرل پرویز مشرف بریگیڈیئر نیاز کی بہت مانتے تھے۔ انہی کی وساطت سے شریفوں کو سعودی عرب میں جلا وطنی کے دوران اپنے پاسپورٹ واپس ملے‘ اور پھر ہی وہ کبھی کمر درد اور کبھی کسی اور چیز کے بہانے سعودی عرب سے نکلنے‘ اور لندن میں مقیم ہونے میں کامیاب ہوئے۔ خیر یہ پرانی باتیں ہیں‘ تاریخ کے جھروکے کے پیچھے رُونما ہونے والی۔
کوئی اور زمانہ ہوتا تو چودہ افراد کے قتل کے بعد حکومت ایک دن بھی قائم نہ رہ سکتی۔ شریفوںکی ہُنرمندی کہیے کہ اتنے سنگین واقعے کے بعد بھی انہوں نے اُس پہ پردہ ڈالنے کی کوشش کی اور بہت حد تک کامیاب ہوئے۔ پہلے تو پرچہ ہی درج نہیں ہونے دیا، بالآخر درج ہوا تو جنرل راحیل شریف کی مداخلت پر۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ فوج اپنے پَر بڑے پھیلاتی ہے۔ جب قانون کے محافظ قانون توڑنے اور انصاف مسخ کرنے لگ جائیں تو لاچار لوگوں نے جو دروازہ دستیاب ہو اُسی پہ دستک دینی ہے۔ پاکستان عوامی تحریک نے بھی تب آرمی چیف سے ایف آئی آر کا مطالبہ کیا‘ اور اُن کے کہنے پہ کارروائی کا آغاز ہوا‘ گو شریفوں نے تفتیش دبانے اور متاثر کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا۔ جے آئی ٹی بنی اور اُس سے من پسند رپورٹ لکھوائی گئی۔ پولیس والے خود اس مسئلے میں پھنسے ہوئے تھے‘ لہٰذا اُن کا اور شریفوں کا مفاد مشترک تھا کہ حقائق چھپائے جائیں۔
لیکن کہاں تک اور کب تک؟ عام کہاوت کیا ہے کہ خدا کے ہاں دیر ہو سکتی ہے‘ اندھیر نہیں۔ یہاں بھی یہ کچھ ہو رہا ہے۔ چھپے ہوئے حقائق سامنے آ رہے ہیں اور شریفوں کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ شہباز شریف اور پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا دُرست خیال تھا کہ باقر نجفی رپورٹ کو دَبے ہی رہنا چاہیے۔ اُس میں لکھی ہوئی چیزیں اتنی دھماکہ خیز تھیں کہ وہ صحیح سمجھتے تھے کہ رپورٹ منظر عام پہ آئی تو ہر شے ہِل کے رہ جائے گی۔ ایسا ہی ہوا۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے تحت رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد ایک طوفان سا اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے استعفوں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے عندیہ دیا ہے کہ مطالبہ پورا ہونے تک ایک اور دھرنے کا سوچا جا سکتا ہے۔ عمران خان نے حمایت کا اعلان کیا ہے اور ق لیگ نے بھی۔ سابق صدر آصف علی زرداری ڈاکٹر طاہرالقادری کو ملنے ماڈل ٹاؤن پہنچ گئے‘ اور دوٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ عوامی تحریک کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ جو وسیع تر شریف مخالف اتحاد نہیں بن رہا تھا وہ اب بنتا نظر آرہا ہے۔
شریفوں سے ہمدردی رکھنے والے حلقے تو یہی کہیں گے کہ سازش ہو رہی ہے۔ وہ پاناما پیپرز کو سازش کہتے تھے اور جے آئی ٹی کی کارروائی کو بھی۔ دیکھا جائے تو یہ مکافاتِ عمل ہے۔ کیا کبھی چودہ لاشوں کا حساب نہ ہونا تھا؟ اِن میں دو خواتین بھی تھیں۔ عقل اور دانشمندی کی انتہا دیکھیے۔ ہٹانے چند بیریئر گئے تھے، اُس قسم کے بیریئر جو موٹر وے کے درمیان لگے ہوئے ہیں‘ چودہ بندے مار دئیے اور 70-80 کو زخمی کر ڈالا۔ مقصد ساری کارروائی کا اور تھا، ڈاکٹر طاہرالقادری اور عوامی تحریک کو وارننگ دینی تھی کہ سنبھل کے رہیں۔ وارننگ کیا کام دکھاتی اُلٹا گلے پڑ گئی۔ بربریت اپنی جگہ لیکن شہباز شریف انتظامیہ کی حماقت کا کیا کہنا۔
آثار بتاتے ہیں کہ یہ بات اب رُکنے والی نہیں۔ باقر نجفی رپورٹ کی صورت میں جو ہتھیار مطلوب تھا وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہاتھ آ گیا ہے۔ مسئلہ بھی ایسا ہے کہ انصاف کا مطالبہ جذباتی کشش رکھتا ہے۔ ایک دھرنے سے وفاقی اور پنجاب حکومتیں نمٹ نہیں سکیں اور آخر فوج سے مدد طلب کرنا پڑی۔ ماڈل ٹاؤن واقعے پہ ایک اور دھرنا ہو گیا تو یہ حکومتیں کیا کریں گی؟ ویسے بھی یہ فالج زدہ حکومتیں ہیں، فیصلہ سازی کی قوت سے محروم۔ شہباز شریف کو اپنی پڑی ہو گی کیونکہ باقر نجفی رپورٹ میں تمام واقعہ کے ذمہ دار نام سے نہیں تو واقعتاً وہ ٹھہرے ہیں۔ حدیبیہ کیس ابھی باقی ہے اور اُس کے مرکزی کردار اسحاق ڈار کے بعد شہباز شریف ہیں۔ دل کو جب دھڑکا لگ جائے تو حکمرانی خاک رہ جاتی ہے۔
نیب ریفرنسز کا فیصلہ بھی اگلے ماہ تک آ جانا چاہیے۔ 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا۔ اُس فیصلے میں نیب عدالت کو ہدایت تھی کہ جو ریفرنسز دائر ہونے ہیں اُن کا فیصلہ چھ ماہ میں آئے۔ تاریخوں کو جیسے بھی کھینچا جائے مارچ سے پہلے نیب عدالت کے فیصلے آنے چاہئیں۔ یہ نہیں کہ نواز شریف ان ریفرنسز میں قصوروار ٹھہرائے جائیں گے۔ بری بھی ہو سکتے ہیں‘ لیکن اگر سزا یافتہ ہوئے تو اُن کے سامنے یہ سوال شدت سے اُبھرے گا کہ وطن میں رہیں اور سزائیں کاٹیں یا اپنی پسندیدہ جگہ لندن میں عافیت ڈھونڈیں۔ ن لیگی کہتے ہیں کہ پارٹی متحد ہے اور اس میں دراڑیں نہیں آئیں۔ متحد کیوں نہ ہوں کیونکہ اُوپر اور نیچے حکومتیں اپنی ہیں۔ روایتی سیاست دان حکومتوں کے سائے میں رہنا پسند کرتے ہیں‘ لیکن دھرنا نُما تحریک شروع ہو جائے‘ اور حکومتیں خطرے میں پڑ جائیں تب دیکھنا ہو گا کہ اتحاد کہاں تک کارگر رہتا ہے۔
لبیّک کے فیض آباد دھرنے کے دوران دیکھا گیا کہ عملاً حکومت نہ اسلام آباد‘ نہ لاہور میں تھی۔ حکومت کے کَل پُرزے مفلوج اور پولیس ڈری ہوئی تھی۔ فوج مداخلت نہ کرتی تو بحران شدت اختیار کر جاتا۔ باقر نجفی رپورٹ کے شائع ہونے سے سیاسی ماحول ایکدم گرم ہو گیا ہے اور وسوسے بڑھ گئے ہیں کہ پتہ نہیں آنے والے دنوں میں کیا ہو گا۔ لبیّک والوں نے اوروں کو راہ دکھا دی ہے۔ عوامی تحریک نے ماڈل ٹاؤن واقعے کے حوالے سے اپنے حساب چُکانے ہیں۔ موقعہ آن پہنچا ہے اور لاوا بھی پک رہا ہے۔ انتظار کی کیفیت میں اتنی شدت آ چکی ہے کہ محسوس کی جا سکتی ہے۔ ایک سیاسی دور ختم ہونے کو ہے، آنے والا دور ابھی رُونما نہیں ہوا۔ اس گومگو کی صورتحال سے قوم گزر رہی ہے۔ کہاں جا کے حالات سنبھلیں گے، موجودہ سنسنی خیزی کیسے ختم ہو گی، کم ہی لوگوں کے پاس ان سوالوں کے جواب ہوں گے۔
کوئی معاشرہ یا قوم ایسی غیر یقینی صورتحال کی متحمل نہیں ہو سکتی، کم از کم اتنی دیر کیلئے نہیں۔ پاناما سے چلنے والا بحران بہت لمبا ہو چکا ہے اور ہر شعبہء زندگی بشمول معیشت پہ اس کے اثرات پڑ رہے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن رپورٹ نے البتہ حالات میں تیزی پیدا کر دی ہے۔ ایک تو عدالتوں میں معاملات چل رہے ہیں‘ اور بہت کچھ سیاسی محاذ پہ رُونما ہو رہا ہے۔ اب تک فیصلہ کن حیثیت عدالتی فیصلوں کی رہی ہے۔ اب سیاسی محاذ بھی گرم ہو رہا ہے۔ کچھ عرصے سے ڈاکٹر طاہرالقادری سائیڈ لائن (sideline) ہو چکے تھے۔ اب ایکدم سنٹر سٹیج (centre-stage) کھڑ ے ہیں۔ پیپلز پارٹی میں بھی ایک نئی لہر آتے دکھائی دیتی ہے۔ آصف زرداری کے پاس تو کوئی ایشو رہ نہیں گیا تھا‘ لیکن ماڈل ٹاؤن کیس کو فوری پکڑ کے اپنے لئے اہمیت ڈھونڈ لی ہے۔ اتحاد بنتا ہے تو اُس کا حصہ ہوں گے۔ عمران خان آصف زرداری کو تنقید کا نشانہ بنائے رکھتے ہیں۔ اُنہیں کون سمجھائے کہ ٹارگٹ ایک رکھتے ہیں۔ اُنہیں دیکھنا چاہیے کہ اُن کے سامنے بڑا اور اوّلین مقصد کیا ہے۔ دوسرے محاذوں کو فی الوقت پسِ پشت رکھنے میں اُن کا فائدہ ہے۔