کمیونزم کو بہت بُرا بھلا کہا جاتا ہے لیکن اُس کے اپنے ہی مزے تھے۔ 1974ء میں جب پاکستانی سفارت خانے ماسکو میں تعنیاتی ہوئی تو اڑھائی سال تک اُس نظام کو دیکھنے کا موقع ملا۔ چھوٹی موٹی کرپشن خاصی عام تھی لیکن روزمرّہ کی زندگی میں بہت سادگی پائی جاتی تھی۔ ماسکو کی تب آبادی اَسّی لاکھ کے لگ بھگ ہو گی اور پورے شہر میں پٹرول پمپوں کی تعداد ہاتھ کی انگلیوں پہ گنی جا سکتی تھی۔ کاریں بہت تھوڑی تھیں۔ یہ جو ٹریفک ہم اپنے شہروں میں دیکھتے ہیں اس نام کی کوئی چیز ماسکو میں نہ تھی۔ البتہ پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم بہترین تھا۔
بجلی پہ چلنے والی بسوں کا کرایہ چار پیسے تھا۔ ایک دفعہ بس پہ چڑھے، جتنی بھی مسافت طے کی ٹکٹ وہی ایک تھا۔ ماسکو کی زیر زمین میٹرو ریل دنیا کی سب سے اچھی ریل تھی۔ سٹالن نے اسے تعمیر کیا تھا اور اس کی خوبصورتی میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی تھی۔ ہر سٹیشن کی تعمیر الگ تھی اور اُن میں مختلف رنگوں کے سنگ مرمر کو استعمال کیا گیا تھا۔ میٹرو کا کرایہ پانچ پیسے تھا چاہے سفر چھوٹا ہو یا طویل۔ ایسا ٹرانسپورٹ کا نظام ہو تو کار کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟
ڈبل روٹی کے ایک لُوف کی قیمت تیرہ پیسے تھی اور یہ قیمت سٹالن کے دور میں مقرر ہوئی تھی اور پھر نہ بدلی گئی۔ دودھ، مکھن، پنیر کی قیمتیں بھی بہت کم تھیں اور ملاوٹ کا کوئی تصور نہ تھا۔ سرکاری دکانوں میں گوشت اچھا نہ ملتا تھا۔ گوشت کے حصول کیلئے پرائیویٹ مارکیٹوں میں جانا پڑتا اور پورے ماسکو میں چند ایک ایسی پرائیویٹ مارکیٹیں تھیں جہاں کسان اپنی سبزیاں اور گوشت لا کے بیچ سکتے تھے۔ رُوس کی آئس کریم بہت اچھی کوالٹی کی تھی البتہ پورے ملک میں آئس کریم کا ایک ہی برانڈ تھا۔ باہر ٹھیلوں پہ بھی وہی آئس کریم اور بڑے سے بڑے ریستوران میں وہی ایک آئس کریم دستیاب ہوتی۔ ووڈکا، وائن اور شیمپین کی قیمتیں پورے رُوس میں ایک جیسی تھیں۔ چھوٹا ریستوران ہو یا بڑا ہوٹل ان اشیاء کی مقررہ قیمت یکساں تھی۔ پاکستانی تقریباً بارہ، چودہ روپوں میں ووڈکا اور شیمپین ملتی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ شام ڈھلے ریستورانوں کے سامنے لمبی لائنیں لگتیں کیونکہ اندر جگہ بھر جانے کے بعد باہر انتظار کرنا پڑتا تھا۔
یہ تو اکثر دیکھنے کو ملتا کہ دوپہر کے وقت فوجی وردی میں ملبوس سینئر فوجی افسر اندر جانے کے انتظار میں قطار میں کھڑے ہیں۔ مجال ہے کہ وہاں کوئی ہلڑ بازی یا دھکم پیل ہوتی۔ دروازے پہ کھڑے دربان نے اجازت دی تو آپ اندر گئے۔ ہم جیسے دُور سے رُوبل کے نوٹ ہاتھ میں چپکے سے لہراتے اور دربان سمجھ جاتا اور ہمیں پہلے آنے کی اجازت ملتی۔ اس قسم کی کرپشن اُس دور کے سوویت یونین میں عام تھی۔ چھوٹے موٹے کاموں کیلئے بخشش کام آتی۔
ورکنگ کلاس کی اپنی اہمیت تھی۔ دکانوں میں سیلز گرل ہو اور اگر وہ کسی اور سیلز گرل سے باتوں میں مصروف ہو تو گاہک کو انتظار کرنا پڑتا کہ محترمہ گفتگو ختم کریں‘ کیونکہ اُس کے بعد ہی اُن کی طرف توجہ دیتیں۔ یہ ناممکن بات تھی کہ سیلز گرل سے آپ اُونچی آواز میں مخاطب ہوں۔ یہی حال ہوٹلوں اور ریستورانوں میں تھا۔ کسی ویٹر سے اُونچی آواز میں آپ مخاطب نہیں ہو سکتے تھے‘ بھلے وہ دیر لگا رہا ہے یا آپ کی بات صحیح نہیں سن رہا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اچھی صورتحال نہ تھی لیکن اس سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ مزدور طبقے کا سٹیٹس کیا تھا۔
موٹر کاریں چونکہ بہت کم تھیں تو پورے ماسکو میں موٹر ورکشاپیں بھی برائے نام تھیں۔ وہاں کام کرنے والے بھی بادشاہ ہوتے اور اپنی مرضی چلاتے۔ میں اس واقعے کا گواہ ہوں کہ ایک دفعہ وردی میں ملبوس ایک جنرل صاحب ورکشاپ میں کھڑے تھے اور مکینک سے توجہ مانگ رہے تھے۔ مکینک نے کوئی خاص پروا نہ کی حتیٰ کہ جنرل کے ساتھ کھڑے آدمی نے کہا کہ یہ ہیرو آف دی سوویت یونین ہیں جو کہ بہادری کا سب سے اعلیٰ ایوارڈ تھا، ہمارے نشان حیدر کے برابر۔ یہ سنتے ہی مکینک کھڑا ہوا پھر دھیان سے بات سُنی۔
ہماری بڑی دکانوں اور شاپنگ مالز میں جو چیزیں ملتی ہیں ماسکو میں ناپید ہوا کرتیں۔ برانڈڈ کپڑوں کا تصور نہ تھا۔ سوائے اُن لوگوں کے جن کو مخصوص فارن کرنسی دکانوں تک رسائی تھی عام لوگوں، مرد و خواتین، کے ملبوسات اتنے فیشن ایبل نہ ہوتے تھے۔ خوبصورتی بہت تھی لیکن کپڑوں کا معیار اتنا اُونچا نہ تھا۔ اسے بھی بُرا کہا جا سکتا ہے لیکن اس میں اچھائی کا پہلو بھی تھا۔ یہ نہیں کہ وہاں اونچ نیچ نہیں تھی لیکن مغربی ممالک میں یا ہمارے ہاں جو مختلف طبقات میں گہری تفریق ہے کم از کم وہ نہ تھی۔ تعلیم اور صحت کا نظام معیاری اور بالکل مفت تھا۔ حصول تعلیم اور حصول طب کے لئے ایک پیسہ خرچ نہ کرنا پڑتا تھا۔ کیوبا میں بھی ایسا ہی ہے۔ غریب ملک ہے لیکن تعلیم اور صحت کے نظامات کے حوالے سے ترقی یافتہ ملکوں سے آگے ہے۔ ہمارے ہاں دیکھ لیجیے غدّر مچا ہوا ہے۔ اچھے سکولوں اور اچھے ہسپتالوں تک رسائی صرف بھاری جیبیں رکھنے والوں کے لئے ممکن ہے۔ ہم نے دو قسم کے پاکستان بنائے ہیں، ایک امیر طبقات کیلئے دوسرا باقی عوام کیلئے۔ باتیں ہم بہت کرتے ہیں اور یہاں تو یہ بھی مذاق ہوتا ہے کہ اشرافیہ کے لوگ انقلاب کی بات کرتے شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ سیٹھ لوگ با آواز بلند حبیب جالب کی نظمیں پڑھتے ہیں۔ فیض کی غزلوں پہ جھومتے ہیں۔
ہم باتوں کے بادشاہ ہیں۔ ہر بات پہ اسلام کا ذکر چھیڑ دیتے ہیں جبکہ ہماری اجتماعی زندگی کا اسلام سے دُور دُور تک واسطہ نہیں۔ شام ڈھلے ماسکو کے چھوٹے بڑے ریستورانوں میں ریکارڈڈ موسیقی کی بجائے لائیو بینڈ پرفام کرتے تھے اور شائقین ڈانس فلور پہ آ کے محو رقص ہو جاتے تھے۔ جیسے اوپر ذکر کیا ہے قیمتیںکم ہونے کے سبب یہ چیزیں سب کی پہنچ میں تھیں جس کی وجہ سے ریستورانوں میں چھوٹے بڑے کی تمیز نہ رہتی تھی۔ ورکر ہو یا فیکٹری منیجر وہی ووڈکا، وائن اور وہی لائیو میوزک۔ ٹھیک گیارہ بجے ریستوران بند ہو جاتے اور لوگ گھروں کو چل دیتے۔ نشے میں دھت لوگ نظر آتے لیکن کوئی غل غپاڑہ نہ ہوتا۔ یہ چیز ناممکن تھی۔ جب سوویت یونین ٹوٹا اور کمیونزم کا نظام زمین بوس ہوا تو لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال بگڑ گئی۔ ماسکو اور دیگر شہروں میں جرائم بڑھ گئے اور بڑے بڑے مافیا گینگز نے وسیع پیمانے پر لوٹ مار شروع کر دی۔ لیکن جس دور کی میں بات کر رہا ہوں اُس میں اِن روشوں نے ابھی سر نہ اٹھایا تھا۔ میٹرو ٹرین رات ایک بجے تک چلتی۔ اکیلی لڑکی یا خاتون بغیر جھجک رات گئے اس میں سفر کرتی۔ اُس زمانے میں لاء اینڈ آرڈر کی یہ صورتحال تھی۔
ظاہر ہے اُس نظام میں جمہوریت کی آسائشیں نہیں تھیں۔ ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات ریاستی کنٹرول میں تھے اور ایک ہی لائن ہوتی تھی یعنی جو کمیونسٹ پارٹی کہے وہی سچ تھا اور اُس سے انحراف یا اختلاف ناممکن ہوتا۔ ہمارے ہاں جمہوریت ہے اور اظہار رائے کی آزادی بھی۔ لیکن سوچا جائے تو یہ آزادیاں کتنے لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ ہم مڈل کلاسیوں کیلئے یہ آزادیاں کام آتی ہیں لیکن اکثریتی عوام کیلئے بے معنی چیزیں ہیں۔ مارشل لاء ہو یا سویلین جمہوریت بیشتر آبادی کے اوقات کٹھن رہتے ہیں۔ سہولیاتِ زندگی جو ہونی چاہئیں وہ بہُتوں کی پہنچ سے باہر ہیں ۔ تھانوں اور پٹوار خانوں میں وہی پرانی رسمیں رواں رہتی ہیں چاہے مارشل لاء کے سائے ہوں یا جمہوریت کی رعنائیاں۔