امریکہ سے بگاڑ کے موسم میں ہمیں اپنے اندرونی مسائل پہ کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ ایک تو ہمارے سیاسی حالات ٹھیک نہیں۔ قیادت کمزور اور سیاسی ادارے بحرانی کیفیت میں ہیں۔ شاہد خاقان تو چلیں حالات کی پیداوار ہیں لیکن اگر حکومت کے اصل قائد نواز شریف ہیں تو اُن کی حالت کچھ بہتر نہیں۔ تین بار وزیر اعظم رہنے والے تین روز سعودی عرب میں ایڑیاں رگڑتے رہے اور پھر بالآخرایک بتیس سالہ نوجوان‘ جو وہاں کے ولی عہد ہیں‘ نے اُنہیں صبح تین بجے ملاقات کا ٹائم دیا۔ باہر نواز شریف کی یہ حالت اور ملک لوٹتے ہی شیر بن جاتے ہیں۔ کچھ عدلیہ اوراشارتاً کچھ فوج پہ برس پڑتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کمان کس کی ہے‘ سویلین حکومت کی یا فوج کی؟ یہ مخمصہ ہم سے حل ہو نہیں رہا اور الیکشن تک یہی صورتحال رہے گی۔ صدر ٹرمپ نے ہم سے کہیں زیادہ ایران اور شمالی کوریا کو دھمکیاں دی ہیں۔ شمالی کوریا کو تو یہاں تک کہا ہے کہ ایسا آگ کا کھیل کھیلا جائے گا جو دنیا نے کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔ کانپنا تو شمالی کوریا کو چاہیے لیکن جو بھی کہیں وہاں کی حکومت مضبوط ہے اور کم جونگ اُن (Kim Jong-Un) دھڑلے کا لیڈر‘ اور ڈرنے کی بجائے جواباً یہ کہتا ہے کہ صدر ٹرمپ پاگل آدمی ہے۔ بحث یہ نہیں کہ ہمیں ایسی زبان استعمال کرنی چاہیے۔ ایسی زبان شمالی کوریا کو ہی جچتی ہے لیکن یہاں ڈھنگ کی قیادت تو ہو۔ ایسے لیڈر تو نہ ہوں جن کا شیوہ سعودی عرب کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا ہو۔ ہمارا قیادت کا بحران کیسے حل ہو گا کسی کو پتہ نہیں۔ موجودہ حکومت تماشہ زیادہ اور حکومت کم لگتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ قرضوں میں جکڑا ہوا ملک کسی سے آنکھ میں آنکھ ملاکے کیا بات کر سکتا ہے۔ اپنے پیروں پہ کھڑے ہوں پھر ہماری بات میںکچھ وزن پیدا ہو۔ ہمارے ایک ہاتھ میں ایٹم بم ہے اور دوسرے میں لوہے کا کشکول جو کبھی ٹوٹتا ہی نہیں۔ شمالی کوریا غربت میں رہتا ہے یا جیسے بھی‘ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا۔ ایرانیوں کے اپنے مسائل ہیں‘ لیکن وہ بھی ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ ہمارے پاس تیل نہیں، پھر کیا ہر ملک تیل کی دولت پہ جیتا ہے؟ امریکہ ہم سے بھونڈی زبان میں مخاطب ہے لیکن اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ ہم کہیں جو پیسے دے رہے ہو نہ دو۔ دنیا کی ہم ہر بات کر رہے ہیں لیکن یہ نہیں کہہ رہے کہ اپنی امداد اپنے پاس رکھو۔
موجودہ دھمکیوں کے بعد تو ہمیں یو ایس ایڈ (US-Aid) کو کہنا چاہیے کہ اپنے دفاتر بند کریں اور اپنے آدمیوں کو واپس بلا لیں۔ ہم خود مختاری کی بات کر رہے ہیں، کہہ رہے ہیں کہ دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوں گے لیکن پیسوں والی بات اُس انداز میں نہیں کر رہے۔ افواج کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ اُن کے افسران امریکہ میں ٹریننگ کیلئے نہیں جائیں گے۔ بڑا تمغہ جو امریکہ نے ہمیں دیا ہوا ہے‘ وہ نان نیٹو الائے (non-Nato ally) کا درجہ ہے۔ اُس سے ہمیں فوجی امداد فوری بنیادوں پہ ملتی ہے۔ موجودہ موسم کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہمیں ذہن بنا لینا چاہیے کہ امریکہ یہ درجہ ختم کر سکتا ہے۔ مطلب یہ کہ خود انحصاری کی طرف ہم قدم تو بڑھائیں اور پھر جو ہوتا ہے اُس کیلئے تیار رہیں۔ اَکڑ ہم ضرور رہے ہیں لیکن نہ سیاسی بحران حل ہونے کی ترتیب بن رہی ہے‘ نہ معاشی خود انحصاری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ایک لحاظ سے امریکی دھمکیوں کو غنیمت سمجھنا چاہیے کہ اپنے حالات ٹھیک کرنے کا ہمیں موقع مل رہا ہے۔ اپنی عیاشیاں تھوڑی کم کریں، فضول منصوبوں پہ پیسہ برباد نہ کریں اور معاشرے میں جو ناہمواریاں پائی جاتی ہیں اُنہیں دُور کرنے کی کوشش کریں۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ یوں لگتا ہے جیسے پاکستان میں دو ہی کام ہو رہے ہیں: شادی ہالوں کا بننا اور نت نئی ہاؤسنگ کالونیوں کا اجرأ۔ انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ کیسا فضول معاشرہ ہے جہاں ایسی فضول خرچیوں کو نہ صرف برداشت کیا جاتا ہے بلکہ فروغ دیا جاتا ہے۔ جہاں تک ہاؤسنگ کالونیوں کا تعلق ہے‘ غریبوں کیلئے ہوں تو اور بات ہے لیکن یہ سب پیسے کا ضیاع امیر اور خوشحال طبقات کیلئے ہو رہا ہے۔ سکیموں کے اشتہار پڑھیں تو ایسا لگتا ہے کہ نیا ہی پاکستان بنایا جا رہا ہے‘ جو صرف خوشحال لوگوں کیلئے ہے۔ باتوں اور تبصروں سے یہ چیزیں ختم نہیں ہوں گی۔ کوئی ڈھنگ کی حکومت آئے وہی ایسے اقدامات کر سکتی ہے۔ لیکن یہاں نہ کوئی ایسی ترقی پسند پارٹی ہے اور نہ کوئی قیادت جس کے سامنے ایسا پروگرام ہو۔ لے دے کے ایک عمران خان ہی ہیں جن سے توقع کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کو نئی راہوں پہ ڈالے۔ یہ اُن کی مدح سرائی نہیں حقیقت پہ مبنی قیاس ہے کیونکہ ہرطرف دیکھیں تو آپ کو نکمّی قیادتیں ملیں گی یا ایسے لیڈر جن کی نگاہ خود غرضی سے باہر نہیں جاتی۔
نواز شریف کو دیکھیں‘ سازشوں کی بات کر رہے ہیں اور تقریباً دھمکی دے رہے ہیں کہ حالات نہ سدھرے تو وہ ان سازشوں کو بے نقاب کریں گے۔ اُن سے کوئی یہ تو پوچھے کہ قوم کا اتنا درد دل میں بسا ہوا ہے تو ذاتی کاروبار اور ذاتی منافع خوری سے ہاتھ ذرا کھینچ لیتے۔ یہ دلچسپ حُب الوطنی ہے کہ اقتدار میں رہتے ہوئے پیسے تواتر سے کمائے جائیں اور اندرون اور بیرون ملک دماغ ہلا دینے والی جائیدادیں بنائیں‘ اور پھر جمہوریت کا رونا روئیں۔ بُہتے لیڈروں کے بارے میں مجھے گمان رہتا تھا کہ اِن کے پاس اتنی دولت ہے کہ یہ دورانِ اقتدار ہیرا پھیری سے پرہیز کریں گے۔ ہر بار یہ گمان ٹوٹا۔ دیکھا یہ کہ جس کے پاس جتنی دولت ہے اتنے ہی لمبے ہاتھ مار رہا ہے۔ بڑے بڑے فنکار ہوتے ہیں جو اِن کاموں میں لگے رہتے ہیں‘ لیکن کم از کم اخلاقیات اور حُب الوطنی پہ لیکچر تو نہیں دیتے۔ ہماری عجیب قسمت ہے کہ پچھلے تیس چالیس سال میں جو آیا‘ اس نے ہاتھ کی صفائی دکھائی اور ساتھ ہی لیکچر بھی دئیے۔ شریف خاندان تیس پینتیس سال سے مختلف روپ میں حکمرانی کر رہا ہے۔ پنجاب کی تاریخ میں اتنا لمبا اقتدار تو صرف مہاراجہ رنجیت سنگھ کا رہا‘ لیکن اِ ن حاکموں سے پوچھا جائے کہ ان تیس پینتیس برسوں میں انہوں نے پنجاب کی کون سی تقدیر بدلی۔ ایک دو بڑے پراجیکٹ ضرور بنائے لیکن معاشرے کی تشکیل نو‘ جس کی پاکستان کو اشد ضرورت ہے‘ اُس میں اُن کا کردار کیا رہا۔ اپنی قسمت خوب سنوار گئے۔ کہاں سے شروع ہوئے کہاں تک پہنچ گئے‘پر اپنی ذات سے باہرکبھی نہ نکلے۔
ایسے تو کام نہیں چلے گا۔ قوم کو ایسی قیادت چاہیے جس کے سامنے قومی ترقی کے واضح اہداف موجود ہوں اور جس میں یہ صلاحیت ہو کہ ہر وقت افواج سے اُلجھتی نہ رہے۔ سول ملٹری خلیج ہمارا مسئلہ ضرور ہے لیکن نالائق قیادتوں سے یہ خلیج کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ فوج کا مسئلہ دیگر ممالک میں بھی رہا لیکن وہاں ایسی سمجھدار قیادتیں سامنے آئیں‘ جنہوں نے دانش، فہم اور اپنی کارکردگی کی بناء پر اس مسئلے کا حل ڈھونڈا۔ ترکی کو دیکھ لیں‘ جہاں فوج نے متعدد بار اقتدار پہ قبضہ کیا‘ لیکن جب طیب اردوان حکومت میں آئے تو پہلے اُنہوں نے بہتر کارکردگی دکھائی۔ ترکی کی معاشی حالت بدلی اور پھر اس پوزیشن میں ہوئے کہ فوج کے اُوپر سویلین بالا دستی کے تصور کومستحکم کیا۔ یہ نہیں جو ہمارے ہاں رواج رہا ہے کہ لیڈر آئیں‘ اپنی جیبیں بھریں اور پھر آئینی تسلط اور سویلین بالادستی کی بات کریں۔ پہلے خود کا امتحان لازم ہے، خود کو آزمائش میں ڈالنا‘ اس کے بعد ہی پھر اخلاقیات اور اعلیٰ اصولوں کی بات اچھی لگتی ہے۔
امریکہ کو جواب تحمل سے دینا چاہیے۔ زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ ہم اپنے معاملات ٹھیک کریں۔ یہ کون کرے گا؟ سب سے اہم سوال ہمارے سامنے یہ ہے۔