یہاںہرکوئی سی پیک پہ ایکسپرٹ بنا ہوا ہے اوراس سارے منصوبے کے ساتھ ایسی ایسی باتیں گھڑ رہے ہیں جن کے بارے میں ہمارے چینی دوستوں کو شاید کبھی وہم وگمان بھی نہ تھا۔ فوجی ہو یا ن لیگی قبیلے کاکوئی خودساختہ دانشور وہ اس سے حیران کرنے والی سٹریٹیجک گفتگو فرماتا ہے۔
اس منصوبے کا نام اکنامک کاریڈور ضرورہے۔ لیکن اس سے پاکستان اور چین کے مغربی حصے کے درمیان کوئی بڑی تجارت نہیں ہونے جا رہی۔ سنکیانگ چین کا سب سے کم ترقی یافتہ علاقہ ہے اور چین کی مجموعی برآمدات میں اس کا ایک فیصد سے زیادہ حصہ نہیں۔ چین کی زیادہ تجارت انہی بندرگاہوں سے جڑی رہے گی جیسا کہ اب ہے۔ نہ مشرق وسطیٰ کا تیل گوادر سے سنکیانگ جا سکتا ہے۔ گوادر فری ٹریڈ زون ضرور بننے جا رہا ہے لیکن چین کا کوئی ارارہ نہیں کہ اسے بحری اڈہ بنایا جائے۔ ایسی باتیں ہم اور ہمارے دانشور کر رہے ہیں۔
اگر یہ صورتحال ہے تو پوچھا جا سکتا ہے کہ اس منصوبے کاحاصل اور فائدہ کیا ہے؟ فائدہ اس میں ہمارا ضرور ہے۔ ہماری سڑکیں بن رہی ہیں، ہمارا ریل کانظام بہتر ہونے جا رہا ہے اور پاور پلانٹوں کے لگنے سے ہمارا انرجی بحران حل ہونے کو ہے۔ کوئی اور ملک ہمیں پیسے دینے کو تیار نہیں۔ یورپ اور امریکہ یہاں پاور پلانٹ لگانے یا ہمارے ریلوے نظام کو اَپ گریڈ کرنے میں قطعاً دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان تمام پراجیکٹس کے بننے سے ہمارا انفراسٹرکچر بہتر ہو جائے گا۔ اس سے ہم کیا فائدہ لیتے ہیں‘ وہ ہمارے پہ منحصر ہے۔ ریلوے نظام کی بہتری ہماری پہلی ترجیحات میں نہیں تھا۔ یہ چینی تھے جنہوں نے ہمیں سمجھایا کہ دیرپا انویسمنٹ سڑکوں کی بجائے ریلوے سسٹم میں ہونی چاہیے۔ چینیوں نے ہی کہا کہ سڑکیں اور ریل ہی کافی نہیں ساتھ ساتھ انڈسٹری بھی لگنی چاہیے۔ سی پیک منصوبے میں بہت سارے انڈسٹریل پارک کا تصور ہے۔ یہ اور بات ہے کہ باتوں کے علاوہ ہم اب تک ایک بھی انڈسٹریل پارک نہیں بنا سکے۔
چینی پریشانی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سی پیک منصوبے پہ کھلے یا اشارتاً طرح طرح کی تنقید ہو رہی ہے۔ کچھ سیانے کہتے ہیں کہ ہم چین کی کالونی بننے جا رہے ہیں۔ یہ باتیں بھی کی جاتی ہیں کہ چینی قرضے بڑے مہنگے ہیں اور ہم قرضوں میں جکڑ ے جائیں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کوئلے پر چلنے والے پلانٹس سے آلودگی بہت پیدا ہو گی اور یہ کہ تمام پراجیکٹس میں پاکستانیوں کی بجائے چینی ورکروں کو چین سے بُلا کے کام پہ لگایا گیا ہے۔ میری محدود معلومات کے مطابق ساہیوال کا پاور پلانٹ جدید ترین ٹیکنالوجی پر مبنی ہے اور وہاں کی پیدا کردہ آلودگی ایک عام سے اینٹوں کے بھٹے کے برابر ہے۔ کچھ وقت پہلے یہ شور بھی بہت مچا تھا کہ کراچی بندرگاہ سے کوئلے کی ترسیل کے سبب راستے میں آلودگی پھیلے گی۔ یہ کام تو حکومت کے دانشوروں کا تھا کہ وہ قوم کو بتاتے کہ کراچی سے ساہیوال تک تمام کوئلہ اوپر سے ڈھکی ہوئی حالت میں آتا ہے۔
اس حکومت کے دو بڑے دانشور ہیں۔ ایک خادم اعلیٰ جو ہر موضوع پہ بولنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ جوشِ جذبات میں با ترنم شاعری پہ بھی اُتر آتے ہیں۔ دوسرے خود ساختہ پروفیسر احسن اقبال جو یہ تاثر دیتے ہیں کہ سی پیک پہ تمام فکری اور نظریاتی ٹھیکہ اُنہوں نے لیا ہوا ہے۔ میں نے کبھی بھی خادم اعلیٰ کو ساہیوال پاور پلانٹ کے بارے میں درست تفصیلات بتاتے نہیںسُنا۔ بس وہ انجینئروں کا ہیٹ پہنے کبھی یہاں کبھی وہاں کا دورہ کرتے ہیں۔ پروفیسر احسن اقبال کی حالت یہ ہے کہ وہ چینیوں کو بھی سی پیک پہ سیر حاصل لیکچر دیتے ہیں۔ چینیوں کا چونکہ ایسا کلچر ہے وہ اُن کی طویل باتوں کو شریفانہ انداز میں سُنتے اور سر ہلاتے رہتے ہیں۔ اُن کے دل پہ کیا گزرتی ہو گی، علیحدہ مسئلہ ہے۔
ہمارا پلاننگ ڈویژن تو بغیر دانت کے ادارہ ہے۔ اس کے مدمقابل جو چین کا پلاننگ ڈویژن ہے‘ اُس کا نام ریفارمز اینڈ پلاننگ کمیشن ہے جو نہایت ہی طاقتور ادارہ ہے۔ کسی پلان یا پراجیکٹ کے لئے اس کی منظوری لازمی شرط ہے۔ اُس کے سربراہ حال ہی میں تبدیل ہوئے۔ پروفیسر احسن اقبال بیجنگ کے دورے پر گئے اور پلاننگ کمیشن کے سربراہ سے اُن کی ایک گھنٹہ طویل ملاقات رہی۔ اُس ملاقات میں پروفیسر صاحب پینتالیس منٹ بولتے رہے۔ بعد میںاُنہوں نے کہا میٹنگ بہت اچھی رہی، نئے سربراہ تھے میں نے ضروری سمجھا کہ سی پیک کی باریکیوں کے بارے میں تفصیلاً آگاہ کروں۔ اگر چینیوں کے ساتھ اُنہوں نے یہ کیا تو کوئی حیرانی نہیں کہ نارووال ہو یا اسلام آباد‘ کوئی مقام ہو، وہ سی پیک پہ بے سر و پا لیکچر دینا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ ن لیگ کا کارنامہ ہے کہ جس پراجیکٹ کو متنازع نہیں ہونا چاہیے تھا اُنہوں نے اپنی بے جا راز داری اور بے وقوفانہ طرز بیاں سے عوام کے ذہنوں میں خواہ مخواہ شکوک پیدا کر دئیے۔ ن لیگی دانشور اگر دانشوری کم دکھاتے اور پراجیکٹ کے تمام پہلوئوں پہ جائز روشنی ڈالنے کو ترجیح دیتے تو خواہ مخواہ کے شبہات پیدا نہ ہوتے۔ مثلاً میں نے یہ کسی لیگی دانشور کے منہ سے نہیں سُنا کہ ملتان سکھر موٹروے پہ جو پندرہ ہزار مزدور کام کر رہے ہیں اُن میں سے تیرہ ہزار پاکستانی اوردو ہزار چینی ہیں۔
ایک اور چیز جس نے سی پیک کے بارے میں عوامی تاثر کو دھندلا کیا ہے وہ لاہور کا اورنج ٹرین منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کے بارے میں چینیوں کے اپنے تحفظات تھے۔ اُنہیں یہ تو گمان نہ تھا کہ عدالتی سٹے آرڈر آئے گا لیکن اُنہوں نے یہ تنبیہ ضرور کی کہ کسی بڑے شہر کے درمیان سے ایسی لائن کا نکالنا آسان نہیں اور زمین حاصل کرنے کی اپنی مشکلات ہوںگی۔ لیکن ہر اعتراض پہ شہباز شریف نے کہا کہ مشکلات جانیں اور میں جانوں۔ مشکلات کے علاوہ بنیادی بات البتہ یہ ہے کہ یہ غیر ضروری منصوبہ ہے جس کی لاہورکو قطعاً ضرورت نہ تھی۔ لیکن ہر دورہ چین پہ جب شہباز شریف‘ وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ جاتے تو کھڑے ہو کے اورنج لائن کے بارے میں بولنا شروع ہو جاتے۔ چینیوں کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا اور لاہور کو تحفے میں یہ دردِ سر مل گیا۔
چینیوں کی پریشانی یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ پوری نیک نیتی سے اپنے پرانے دوست پاکستان کی مدد کو آئے اور یہاں یہ حالت ہے کہ اُن کی نیک نیتی پہ مختلف انداز سے شبہ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے چین کو پہلی دفعہ ایسی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سے پہلے اگر پاکستان میں کوئی موضوع تنقید سے مبرّا تھا تو وہ پاک چین دوستی تھی۔ اب لیگی دانشور وں کے ہاتھوں ایک ایسی صورتحال پیدا ہو چکی ہے کہ غیر متنازع چیز کو شکوک کے سہارے رگیدا جا رہا ہے۔
ہمارے حالات دیکھیے۔ ایک زمانہ تھا جب چینی پاکستان آتے تھے اور ہماری ترقی پہ حیران ہوتے تھے۔ لی لان کنگ (Li Lan Qing) چین کے ایک نائب وزیراعظم رہے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جب وہ جونیئر افسر کے طور پر ایک وفدکے ہمراہ کراچی کے دورے پر آئے تو آئی آئی چندریگر روڈ پہ حبیب بینک بلڈنگ کو دیکھ کر چینی وفد حیران رہ گیا کہ پاکستان اتنی بلند عمارتیں بنا سکتا ہے۔ کراچی بندرگاہ دیکھی تو اس کے نظارے اور ایڈمنسٹریشن سے بھی حیران ہوئے اور یہ کہتے سنے گئے کہ کاش شنگھائی کراچی جیسا ہو سکے۔ اُنہیں ایک بریفنگ دی گئی اور وہ اکنامک افیئرز ڈویژن کے افسر راحت العین کی گفتگو سے اتنے متاثر ہوئے کہ جب واپس بیجنگ میں پاکستان کے دورے کے بارے میں اُنہوں نے تفصیلی رپورٹ پیش کی تو چینی حکومت نے اُسی راحت العین کو بیجنگ آنے کی دعوت دی۔ وہ جب چین گئے تو چینی حکومت کے سینئر ترین عہدیداروں نے اُن کی باتیں سنیں۔ یہ تب کی بات ہے اور اب ہم پتا نہیں کہاں پہنچے ہوئے ہیں۔
اب ہمارا وقت چینیوں سے سیکھنے کا ہے۔ لیکن ہم تب ہی کچھ سیکھ سکتے ہیں جب شعبدہ بازی اور فنکاری کوایک طرف رکھیں۔ دیانت داری سے کام کرنے کا کھویا ہوا ہنر پھر سے ڈھونڈ نکالیں۔