عارضی وزیر اعظم تو نہیں‘ وہ کسی اور کی آواز ہیں، جیسا کہ پرانے گرامو فون ریکارڈوں پہ لکھا ہوتا 'His master's voice‘۔وقفے وقفے کے بعد احکامات لینے جاتی امرا جاتے ہیں۔ باقی باتیں چھوڑئیے کپڑوں کے بارے میں اُنہیں نصیحت کی ضرورت ہے۔ قومی لباس اوروں نے بھی پہنے، مثال کے طور پہ سردار عبدالرّب نشتر اور نواب کالا باغ۔ لیکن اسلوب سے پہنتے تھے۔ خاقان عباسی ایسے لگتے ہیں کہ ابھی بستر سے اُٹھے ہوں۔ شیروانی پہن لیں تو صورتحال بہتر ہو جائے۔
متعدد وجوہ کی بنا پہ اسلام آباد اور مختلف صوبوں میں حکومتیں اپنا رعب اور دبدبہ بہت حد تک کھو چکی ہیں۔ معاملات اِن سے نمٹائے نہیں جا رہے۔ ہر صوبے کی پولیس تو شترِ بے مہار ہو کے رہ گئی ہے۔ راؤ انوار نے شہرت پائی ہے لیکن دیکھا جائے تو ہر جگہ راؤ انوار موجود ہیں۔ قصور، لاہور کے پڑوس میں ہے۔ تقریباً لاہور کا حصہ بن چکا ہے‘ لیکن وہاں کے واقعات ایسے ہیں کہ گمان ہوتا ہے‘ شاید قصور فاٹا کا حصہ ہے حالانکہ قصور جیسے واقعات فاٹا میں کبھی رُونما نہیں ہوئے۔ عوام احتجاج کریں اور ٹی وی چینلوں پہ خبریں چلیں تو پھر ہی انتظامیہ اور پولیس‘ حرکت میں آتی ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ صوبوں کے گورنر یا چیف منسٹر اگر کوئی واقعہ ہو جائے تو اپنی ذاتی بے عزتی سمجھتے تھے۔ ایسی روایت تو اب رہی نہیں اور خاص طور پہ ہم پنجاب میں دیکھتے آئے ہیں کہ صوبے کے سربراہ اشتہار بازی اور دیگر قسم کی فنکاریوں میں اپنی مثال آپ بن چکے ہیں۔ تمام شعبوں کی کارکردگی گرتی جا رہی ہے‘ لیکن پنجاب حکومت کے اشتہار دیکھیں تو لگتا ہے کہ کسی ترقی یافتہ ملک کی بات ہو رہی ہے۔ قصور میں بچیوں کے ساتھ زیادتی کے چھ سات کیس ہوئے لیکن سوائے شعبدہ بازی کے نہ قصور انتظامیہ‘ نہ پنجاب حکومت نے کچھ کرنے کی زحمت کی۔ زینب کیس نے چونکہ ہر ایک کو ہلا کے رکھ دیا اور قصور کے عوام سراپا احتجاج ہو گئے تو خادمِ اعلیٰ اور اُن کی حکومت‘ دونوں حرکت میں آئے اور جو بہت پہلے زیادتیوں کے حوالے سے ہونا چاہیے تھا بالآخر ہوا۔
صرف پنجاب میں ایسا نہیں۔ ہر جگہ یہی کچھ ہو رہا ہے اور کراچی میں تو لگتا ہے کہ پولیس ہر ضابطے اور قانون سے مبرّا ہو گئی ہے۔ انتظار نامی لڑکے کا قتل دیکھ لیجیے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج سے صاف پتہ چلتا ہے کہ انتظار کو کیسی پلاننگ سے قتل کیا گیا۔ مقتول کے والد کی ہمت ہے کہ اُس نے شور مچایا اور پبلک اور میڈیا کی توجہ اس طرف مبذول کرائی‘ ورنہ کوئی کمزور آدمی ہوتا تو یہ قتل بھی رات کے اندھیروں میں گم ہو جاتا۔ اچھا ہوا کہ عمران خان کو اب یاد آیا کہ اُنہیں کراچی جانا چاہیے اور انتظار اور نقیب اللہ محسود کے گھر تعزیت کرنی چاہیے۔ یہ اُنہیں پہلے کرنا چاہیے تھا۔ بہرحال دیر آید درست آید۔
راؤ انوار کو اسلام آباد ائیرپورٹ پہ دبئی جانے سے روک دیا گیا‘ لیکن پھر اُنہیں وہاں سے جانے کی آزادی دی گئی اور جیسا کہ کوئی بے وقوف آدمی بھی اندازہ لگا سکتا تھا‘ وہ اب روپوش ہو گئے ہیں۔ پولیس اور ایف آئی اے کے ہاتھوں کوئی کمزور آدمی چڑھ جائے تو اُسے دن چھوڑئیے، ہفتوں کیلئے غیر قانونی طور پر تھانوں میں پابند کر لیتے ہیں۔ راؤ انوار کے سلسلے میں اسلام آباد ائیر پورٹ پہ تعینات ایف آئی اے یکدم قانون کی علمبردار بن گئی۔ کہا گیا کہ راؤ انوار کا نام نہ ای سی ایل میں تھا‘ نہ اُن کے خلاف کوئی مقدمہ درج تھا، لہٰذا قانون اجازت نہیں دیتا تھا کہ اُنہیں پابند کیا جائے۔ اسے کہتے ہیں ہوشیاری۔ قانون کو اپنے ہاتھ لینے میں ہمارے ادارے کبھی کوئی دِقت محسوس نہیں کرتے لیکن بہانہ تراشنا ہو تو قانون کے پاسدار بن جاتے ہیں۔ راؤ انوار کے پیچھے بڑے لمبے اور طاقتور ہاتھ ہیں۔ دیکھتے ہیں اب وہ کیسے پکڑے جاتے ہیں۔
خلا ہو تو اُسے کوئی نہ کوئی چیز پُر کرتی ہے۔ حکومتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جب اپنے کام نہیں کرتے تو کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہیے اگر جج صاحبان اپنی کچہریاں لگائیں۔ سپریم کورٹ قصور میں زینب کیس کا نوٹس لیتی ہے‘ اور پھر مردان میں چھوٹی بچی کے قتل اور زیادتی کا بھی ازخود نوٹس لیتی ہے۔ حکومتیں کام کر رہی ہوں تو ایسا نہ ہو۔ پینے کے صاف پانی کا مسئلہ ہو تو اُس پہ بھی توجہ چیف جسٹس آف پاکستان دلاتے ہیں۔ حال ہی میں چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ ملک میں ایک تعلیمی نظام کیوں نہیں ہے؟ کیوں نہیں کہ پورے ملک میں ایک نصاب اور ایک یونیفارم والا تعلیمی نظام ہو؟ بات تو اُنہوں نے بالکل درست کہی‘ لیکن ان معاملات پہ غور کرنے کا اصلی کام سیاسی پارٹیوں اور حکومتوں کا ہے۔ تعلیمی نظام کی خرابیاں کیا ہیں اور اُن کا حل کیا ہونا چاہیے۔ اِس بارے کچھ کرنا تو درکنار کوئی سرسری سی گفتگو بھی نہیں کرتا۔
نواز شریف‘ جنہیں جڑانوالہ کے (ن) لیگیوں نے قائد پاکستان کا خطاب دے دیا ہے‘ نے دو نئے شوشے چھوڑے ہیں کہ ہر بے گھر کو گھر مہیا کیا جائے گا‘ اور نظامِ عدل بہتر کیا جائے گا۔ تین بار وزیر اعظم رہے۔ مجموعی طور پہ اُن کا عرصۂ اقتدار فوجی ڈکٹیٹروں سے زیادہ نہیں تو برابر کا رہا ہے۔ تب اُنہیں اِن چیزوں کا خیال نہیں آیا؟ آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کا ڈرامہ خادمِ اعلیٰ نے رچایا تھا‘ اور وہ بھی اُن سے مکمل نہ ہوا‘ اور سب کے مہربان ایک شخص کو اُن کی مدد کیلئے آنا پڑا۔ پھر یہ پراجیکٹ وہیں ختم ہو گیا۔ اب اُس پہ ایک نیب انکوائری چل رہی ہے لیکن اُس کا کیا بنے گا خدا جانے۔
خادمِ اعلیٰ کا نام تو حدیبیہ کیس میں بھی نمایاں تھا لیکن اُس مسئلے کو ایسا نمٹایا گیا کہ لگتا ہے کہ یہ سکینڈل کبھی بنا ہی نہ تھا۔ اب خادمِ اعلیٰ خواب دیکھ رہے ہیں خادمِ پاکستان بننے کے۔ خدا خیر کرے۔ پنجاب میں اُن کے کارناموں پہ پورا ایک ناول لکھا جا سکتا ہے۔ خادمِ پاکستان بن گئے تو اس حادثے سے اور کچھ ہو نہ ہو‘ شاہد خاقان صاحب کا کپڑوں والا مسئلہ نہیں رہے گا۔ ہمیں شاید بیگم ٹینا درانی کا شکریہ ادا کرنا پڑے جن کی وجہ سے خادمِ اعلیٰ اچھے خاصے خوش لباس ہو چکے ہیں۔ ایک زمانے میں امریکہ میں ہیٹ پہننے کا رواج تھا۔ بیشتر سیاست دان ہیٹ پہنتے تھے۔ جان ایف کینیڈی صدر منتخب ہوئے تو اُنہوں نے یہ روایت فرسودہ سمجھتے ہوئے توڑ دی۔ لیکن یہ خوش آئند بات ہے کہ خادمِ اعلیٰ نے اپنی ذات کی حد تک اُس روایت کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اپنے آپ کو قائد اعظم سے جا ملایا ہے۔ مال لاہور پہ یہ اشتہار لگ چکے ہیں کہ اُوپر تصویر قائد اعظم کی‘ ہیٹ پہنے ہوئے اور نیچے خادمِ اعلیٰ کی‘ سر پہ ہیٹ رکھے ہوئے۔ یقینا لاہور کے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش ہو گی کہ اُن میں اور قائد اعظم میں بہت سی صلاحیتیں مشترک ہیں۔
فوج پہلے بھی طاقتور تھی لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں اُس کی حیثیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ بہرحال ایک بات غور طلب ہے۔ فوجی کمان کی طرف سے کچھ کہا نہیں جا رہا لیکن یہ بھی نہیں کہ وہ حالات کو دیکھ نہیں رہے۔ نواز شریف بدستور عدلیہ پہ حملہ آور ہیں۔ چیف جسٹس صاحب سے پوچھا گیا کہ ان حملوں کا نوٹس کیوں نہیں لیا جا رہا تو اُن کا جوا ب تھا کہ ہمیں سب پتا ہے کیا ہو رہا ہے۔ نوٹس لیا جائے گا تو مناسب وقت پر۔ وہ وقت کب آئے گا؟ انتخابات میں کافی دیر ہے‘ لیکن بے یقینی کی سی کیفیت ملک پہ چھائی ہوئی ہے۔ کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ کیا ہونے کو ہے اور انتخابات سے پہلے یا اُن کے انعقاد کے نزدیک کیا منظرنامہ ہو سکتا ہے۔