اپنی ہی پارٹی کے تاحیات قائد جناب نواز شریف نے اٹل فیصلہ کر لیا ہے۔ کہا ہے کہ جو ووٹ کی عزت نہیں کرے گا ہم بھی اُس کی عزت نہیں کریں گے۔ اُن کا عزم بجا ہے کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں ووٹ کی اتنی عزت کسی نے نہیں کروائی جتنی کہ نون لیگ کے تاحیات قائد نے۔
سیاست جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں سیکھی جن سے بڑا جمہوریت پسند اور ووٹ کا تقدس کرنے والا کوئی نہیں رہا۔ نواز شریف جنرل ضیاء کے چہیتے تھے اور اُن کے تقریباً سیاسی جانشین ٹھہرے۔ جب جنرل صاحب کی ناگہانی موت ہوئی تو نواز شریف نے زوردار اعلان کیا کہ اُن کے مشن کی تکمیل کریں گے۔ جنرل صاحب کا مشن کیا تھا اِس پہ مختلف آراء ہو سکتی ہیں‘ لیکن اُن کے بہت سے اقوالِ زریں میں سے ایک یہ تھا کہ آئین کیا چیز ہے، چند صفحات کا مجموعہ، جب چاہوں پھاڑ کے ایک طرف رکھ دوں۔
جنرل صاحب کی موت کے بعد جو انتخابات ہوئے اُس میں عددی کامیابی بینظیر بھٹو کو حاصل ہوئی‘ اور وہ چند ایک آزاد ممبران کو ملا کر وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ پنجاب میں آزاد ارکان کی سپورٹ سے نواز شریف صوبے کے وزیر اعلیٰ بنے۔ دو سال تک یہ نظام چلتا رہا لیکن اِس دوران صدر مملکت غلام اسحاق خان، اور فوج کے زیر کنٹرول ایجنسیوں‘ جن کے نواز شریف پروردہ تھے‘ نے مل کر حتی المقدور کوشش کی کہ بینظیر بھٹو کی وفاقی حکومت نہ چلنے پائے۔ ہر سازش اُس کے خلاف کی گئی۔ دل سے نواز شریف نے بینظیر بھٹو کو کبھی وزیر اعظم تسلیم نہ کیا۔ اُن کی نظروں میں یہ تھی ووٹ کی عزت۔
سازشوں کے علاوہ 1989ء میں بینظیر بھٹو کے خلاف باقاعدہ عدمِ اعتماد کا ووٹ نواز شریف قومی اسمبلی میں لائے۔ اِس اقدام میں ایجنسیوں نے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔ اِسی دورانیے میں بریگیڈیئر (ر) امتیاز اور میجر عامر کے نام مشہور ہوئے کیونکہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے اُن کی کاوشیں بہت تھیں۔
بعد میں یہ الزام بھی لگا کہ عدمِ اعتماد ووٹ کی کامیابی کے لئے نواز شریف نے اُسامہ بن لادن سے مدد چاہی تھی۔ اس داستان کے راوی بدقسمت خالد خواجہ تھے‘ جو آئی ایس آئی میں رہ چکے تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد مختلف سازشوں کا حصہ رہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں اُسامہ بن لادن سے نواز شریف کی ملاقات کرائی گئی‘ اور دوران میٹنگ اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے نواز شریف نے پوچھا 'پیسیاں دی گَل کَدّن کرے گا‘۔
یہ وہی خالد خواجہ تھے جو بعد میں وزیرستانی طالبان کے ہاتھوں اغواء ہوئے۔ اُن کے ساتھ اغواء ہونے والوں میں ایک صحافی اور دوسرے چکوال کے کرنل امام تھے۔ صحافی تو بھاری رقم کے عوِض رہا ہو گئے لیکن خالد خواجہ اور کرنل امام کو قتل کر دیا گیا۔ خالد خواجہ کی فیملی نے الزام لگایا کہ طالبان کے کسی کارندے نے ایک پاکستانی صحافی‘ جو کہ مختلف اوقات میں اپنے آپ کو مجاہدِ صحافت کہلاتے ہیں، سے خالد خواجہ کے بارے میں بذریعہ سیل فون پوچھا گیا۔ اِس کال کی آڈیو ریکارڈنگ موجود ہے اور اُس وقت منظر عام پہ بھی آئی۔ اِس میں خود ساختہ مجاہد صحافی نے خالد خواجہ پر سی آئی اے کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا تھا۔ کچھ دنوں بعد خالد خواجہ کو مار دیا گیا۔
1990ء میں صدر غلام اسحاق خان نے تب کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کی مدد سے بینظیر بھٹو کی حکومت کو برخاست کیا۔ ڈھیر سارے کرپشن کے ریفرنسز بینظیر بھٹو اور اُن کے شوہر جناب آصف علی زرداری کے خلاف دائر کئے گئے۔ یاد رہے کہ تب تک جنابِ زرداری کی بطور مسٹر ٹین پرسنٹ مشہوری ہو چکی تھی۔ نامساعد حالات تو پیپلز پارٹی کے خلاف تھے ہی لیکن میاں نواز شریف اور اُن کے اسلامی جمہوری اتحاد کے لئے مزید آسانیاں پیدا کی گئیں۔ بہت دفعہ اس واقعے کا ذکر آ چکا ہے‘ لیکن ووٹ کی عزت کے حوالے سے داستان کا ایک بار پھر ذکر بے محل نہ ہو گا۔ ایک مہران بینک ہوا کرتا تھا‘ جس کے مالک اور سربراہ کراچی کے بزنس مین یونس حبیب تھے۔ مختلف حوالوں سے ان صاحب کے ایجنسیوں سے گہرے تعلقات تھے۔ مدد مانگنے پر یونس حبیب صاحب نے ہماری سب سے بڑی ایجنسی کو چودہ کروڑ روپے کا عطیہ دیا۔ اِس میں سے آدھی رقم ایجنسی کی کتابوں میں رہی اور آدھی رقم، یعنی سات کروڑ، آئی جے آئی کے چیدہ چیدہ راہنماؤں میں تقسیم کرنے کے لئے مختص کی گئی۔ اس خوش قسمت لسٹ میں چند نامور صحافی بھی تھے۔ زیادہ تر رقم کی ادائیگی بنفس نفیس ہوئی، یعنی بند بریف کیس خوش بخت سیاستدانوں کو دئیے گئے۔ یہ کوئی سُنی سُنائی بات نہیں، سب ریکارڈ پہ موجود ہے اور متعلقہ دستاویز سپریم کورٹ کے سامنے بھی پیش کی گئیں۔ آئی ایس آئی کے سربراہ ہمارے دوست لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی تھے‘ جو بعد میں بینظیر بھٹو کی دوسری وزارتِ عظمیٰ میں جرمنی میں سفیر تعینات کئے گئے۔ وہاں اُن سے مشہور زمانہ رحمان ملک‘ جو اُس وقت ایف آئی اے کے نائب سربراہ تھے، ملے۔ اللہ بہتر جانے کہ اُنہوں نے کیا ترکیب استعمال کی‘ لیکن جنرل اسد دُرانی وہ تمام نام دینے کو تیار ہو گئے‘ جن کو 1990ء کے انتخابات میں رقوم تقسیم کی گئیں۔ دستاویز کے نیچے جنرل صاحب نے اپنے باقاعدہ دستخط کئے۔ یہ لسٹ رحمان ملک نے تب کے وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر کے ہاتھ تھمائی اور اُنہوں نے مرحوم ائیر مارشل اصغر خان کو دی جنہوں نے اس شاہی سکینڈل کے بارے میں سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر رکھی تھی۔ نام حیران کر دینے والے ہیں: نواز شریف تینتیس لاکھ روپے، شہباز شریف بائیس لاکھ روپے (جن کو یہ رقم بذریعہ ٹی ٹی ارسال کی گئی) اور دیگر درخشندہ ستارے۔ سب کے نام لئے جائیں تو کالم میں جگہ نہ رہے۔ اِن میں ایسے نام بھی ہیں جو سالہا سال قوم کو اعلیٰ اخلاقیات کا درس دیتے رہے۔
یہ کیس‘ جسے اصغر خان کیس کہا جاتا ہے‘ مائی لارڈ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے سامنے آیا۔ دستیاب شواہد کی بنیاد پر اُنہوں نے فیصلہ صادر کیا کہ 1990ء کے انتخابات‘ جن کی بدولت نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم بنے، دھاندلی زدہ تھے۔ لیکن اس عمومی فیصلے کے بعد اُنہوں نے ہاتھ ذرا کھینچ لئے اور صرف اِسی پہ اکتفا کیا کہ ایف آئی اے اس بارے تحقیقات اور قصورواروں کے خلاف کارروائی کرے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر اس ڈرامے کے فنکاروں کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہوتا تو اُنہیں دہکتے انگاروں پہ بُھونا جاتا۔ نون لیگ سے تعلق تھا اس لئے ہاتھ ہولا رکھا گیا۔ کیس ختم نہیں ہوا، ابھی تک ایف آئی اے میں زیر التواء ہے۔ اَب جب نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے تو اُنہوں نے ایک تحریر شدہ بیان ایف آئی اے کے حوالے کیا جو کسی ادبی شاہکار سے کم نہیں۔ اِس کے بارے میں کئی بار لکھ چکا ہوں‘ لیکن استدعا ایسی ہے کہ دُہرانے سے مزہ خراب نہیں ہوتا۔ اس میں اُنہوں نے کہا کہ الیکشن میں بہت لوگ ملتے ہیں اس لئے یاد نہیں پڑتا کہ ایسی رقم دی گئی ہو۔ لیکن اگر ایسا ہوا بھی ہو تو وہ تمام پیسے مع سود کے واپس کرنے کو تیار ہیں۔ اس سے زیادہ سادگی کی مثال ملنا مشکل ہے۔
بینظیر بھٹو پہلی بار وزیر اعظم بنیں تو نواز شریف بن لادن تک پہنچ گئے۔ دوسری بار وزیر اعظم بنیں تو کسی ذریعے سے صدر فاروق لغاری تک رسائی حاصل کی گئی‘ اور اُس سازش میں نواز شریف پیش پیش تھے‘ جس کی پاداش میں بینظیر بھٹو کی پھر سے چھٹی کرا دی گئی۔ اب اگر نواز شریف ووٹ کے تقدس کا درس قوم کو دے رہے ہیں تو اُن سے بہتر اُستاد اور کوئی نہیں۔