حالات بدل رہے ہیں اور چیزیں اپنی رفتار سے آگے کو جا رہی ہیں۔ موجودہ حکومت کی زندگی میں کچھ دن باقی ہیں۔ ریاست بھرپور طریقے سے قائم ہے لیکن حکومت عملاً ختم ہو چکی ہے۔ یہ صرف نمونہ اور نمائش رہ گئی ہے۔ کچھ کرنے کی صلاحیت کھو چکی ہے۔
کٹھ پتلی تو نہیں کہنا چاہیے، بڑا بھاری لفظ ہے لیکن وزیر اعظم کو بے اثر کا لقب ضرور جچتا ہے۔ وزیر اعظم نام کے ہیں، کسی اور آقا کی آواز۔ دکھاوے کیلئے معمول کی کارروائیاں کر رہے ہیں اور بیرونی دوروں پہ بھی جا رہے ہیں‘ لیکن اُن کا دل یہ گواہی دیتا ہے اور ہم بھی جانتے ہیں کہ اُن کے ہاتھ اور قلم میں طاقت نہیں ہے۔
ہاں البتہ خواہشات ہیں۔ خاص چہیتے کو سفیر واشنگٹن لگانا چاہتے تھے اور حکم بھی صادر فرما دیا‘ لیکن فیصلہ ہونے کے باوجود معاملہ کہیں لٹک گیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی جا پہنچا ہے۔ کوئی خاطر خواہ فیصلہ ہو گا تو سفیر صاحب اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوں گے، نہیں تو حکومت کی مدت بھی ختم ہو جائے گی اور نامزد سفیر صاحب اپنے گرامی قدر والد صاحب کے وسیع کاروبار میں پھر مصروف ہو جائیں گے۔ وہیں رہتے تو بہتر تھا‘ سفارت کا تکلّف نہ ہی کیا جاتا‘ لیکن جب خواہشات کی گھڑ سواری ہو تو پھر ایسے فیصلے یا یوں کہیے ایسی حماقتیں سرزد ہو جاتی ہیں۔
وزیرِ خارجہ کا معاملہ بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں لٹکا ہوا ہے۔ وہی پرانا مسئلہ جو نون لیگ کی اعلیٰ قیادت کو لاحق رہا ہے یعنی جیبیں ٹٹولو تو ہر لیڈر کی جیب میں کسی غیر ملک کا اقامہ پڑا ہے۔ یوں تو اقامہ بے ضرر لفظ ہے‘ لیکن اُس کا مطلب ہے ورک پرمٹ‘ یعنی وہ اجازت نامہ جس کے طفیل آپ اُس مخصوص ملک میں ملازمت کر سکتے ہیں۔ لاکھوں پاکستانیوں کے پاس گلف‘ امارات اور سعودی عرب کے اقامے ہیں‘ لیکن وہ لاکھوں افراد وفاقی وزیر یا وزیر اعظم نہیں ہیں۔ یہ نون لیگی قیادت کا اعلیٰ اعزاز ہے کہ پاکستان پہ حکمرانی کر رہے ہیں اور ورک پرمٹ کسی اور ملک کے بغل میں دبائے ہوئے ہیں۔ ایسا تماشا یورپ کے کسی ملک میں لگے، وہاں کوئی وزیر یا مشیر امارات یا سعودیہ کا ورک پرمٹ رکھے، تو نہ صرف اُس کی سیاسی موت واقع ہو جائے بلکہ جگ ہنسائی بھی ہو۔ یہاں عالم یہ ہے کہ شرم تو دور کی بات ہے دندناتے پھر رہے ہیں کہ 'ہمارا قصور کیا ہے‘ اور 'ہمیں کیوں نکالا‘۔
بہرحال یہ معاملات چل رہے ہیں اور انتخابات کے اعلان تک ایسے ہی چلتے رہیں گے۔ بڑا فیصلہ جس کے دور رس اثرات ہوں گے، احتساب عدالت کا ہو گا۔ وہ فیصلہ اس ماہ کے اخیر میں یا اگلے ماہ کے وسط تک متوقع ہے۔ نواز شریف بری ہوتے ہیں تو وہ بھی ایک طوفان، سزا کے حق دار ٹھہرتے ہیں تو وہ بھی طوفان۔ لیکن ملک میں بھونچال نہیں آئے گا۔ نون لیگ ہمیشہ بڑھک مار پارٹی رہی ہے۔ احتجاج وغیرہ سے اُس کا دور تک تعلق نہیں۔ لہٰذا جو دانشورانِ کرام یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ نواز شریف کو سزا ہوئی تو احتجاج سے سڑکیں بھر جائیں گی‘ صحیح اندازہ نہیں لگا رہے۔ جو بھی فیصلہ آئے اُس پہ ٹی وی مارکہ تبصرے تو زور و شور سے ہوں گے‘ لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
پھر بھی فیصلے کا اثر سڑکوں پہ نہیں پڑتا تو نون لیگ کے مورال اور سیاست پہ ضرور پڑے گا۔ بڑھکیں اور اُونچے دعوے ایک طرف، حالات کے جبر کے تحت نون لیگ دباؤ میں آ چکی ہے۔ اس کے اُونچے اور درمیانے درجے کے لیڈر وسوسوں کا شکار ہیں کہ پتہ نہیں ہمارے ساتھ آگے جا کے کیا ہونے کو ہے۔ نواز شریف نے تو پہلے ہی بگل بجا دی ہے کہ جوکچھ ہو رہا ہے اُس کا مقصد انتخابات کو متاثر کرنا ہے‘ یعنی اُن کے بقول پری پول دھاندلی ابھی سے شروع ہے۔ جب وہ خود یہ نعرے لگاتے ہیں تو لازماً اُس کا اثر اُن کی پارٹی پہ بھی پڑے گا۔ سزا ہوتی ہے اور اندر جانا پڑے تو اُس کا نون لیگ کے مورال پہ اور زیادہ گہرا اثر ہو گا۔ جنوبی پنجاب میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل ابھی سے شروع ہے اور دن گزرنے کے ساتھ مزید تیز ہونے کا خدشہ ہے۔ کہیں اسلام آباد ہائی کورٹ سے فیصلہ خواجہ آصف کے خلاف آ گیا تو پارٹی کو ایک اور دھچکا لگے گا۔ ساتھ ہی ساتھ دیگر نیب کیسز چل رہے ہیں۔ نواز شریف وزیر اعظم تھے تو عام وزیروں سے زیادہ طاقتور اُن کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد تھے۔ اُن کو بھی نیب کی طرف سے سمن جاری ہوئے ہیں۔ پچھلی پیشی پہ وہ غیر حاضر رہے لیکن کب تک۔ جناب اسحاق ڈار کی اعلیٰ روایات برقرار رکھتے ہوئے رُوپوش ہونا پڑے گا یا پھر نیب کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا۔ آشیانہ ہاؤسنگ سکینڈل پنجاب حکومت کی جان نہیں چھوڑ رہا۔ احد چیمہ‘ جو منظورِ نظروں میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے‘ اُسی میں گرفتار ہیں اور اُن کا ریمانڈ ختم نہیں ہوا۔ اُسی کیس میں فواد حسن فواد کو نیب کے سامنے طلب کیا گیا ہے۔
ساتھ ہی چیف جسٹس صاحب کے سووموٹو نوٹس ہیں‘ جنہوں نے جناب خادم اعلیٰ کی گڈ گورننس کے افسانوںکو مکمل طور پہ بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ پنجاب حکومت کی کارکردگی اُس کی اشتہاری مہمات میں تھی۔ چیف جسٹس کے حکم پہ اشتہار گئے اور ان کے ساتھ یوں لگتا ہے کہ پنجاب حکومت کی ساری کارگزاری بھی گئی۔ خادمِ اعلیٰ کی آخری تصویریں لاہور کی سپیڈو بسوں پہ رہ گئی تھیں۔ وہ بھی اُتار لی گئی ہیں۔ ایک وقت وہ تھا‘ جب لاہور کی کوئی سڑک یا شاہراہ ایسی نہیں تھی جس پر چیف منسٹر صاحب کی تصویر سے بچا جا سکے۔ حالات کا ستم دیکھیے کہ اب وہ پوسٹر ڈھونڈے نہیں ملتے۔
آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے‘ لیکن ملک کی تاریخ میں نون لیگ کی حکمرانی کا لمبا باب ختم ہونے جا رہا ہے۔ لندن کے فلیٹ پُر آسائش تو بہت ہوں گے‘ لیکن کوئی اُن سے پوچھے کہ اُس عیاشی کا کیا فائدہ جس کی اتنی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے۔ پتہ نہیں کہاں سے پاناما پیپرز کا آشوب آیا اور آہستہ آہستہ بڑے بڑوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ حیرانی البتہ یہ رہے گی کہ سارا خاندان کسی ایک کہانی پہ متفق نہ ہو سکا۔ ہر فرد کی اپنی داستان تھی اور حقیقت نام کی چیز نہ سپریم کورٹ‘ نہ جے آئی ٹی کے سامنے لائی جا سکی۔ ناکامی وہاں ہوئی غصہ عدلیہ اور فوج پہ نکالا جا رہا ہے۔ بات اپنے سے نہ بنی لیکن سازش کا الزام اوروں پہ ڈالا جا رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر سازش ہوئی تو شریفوں اور شریف زادوں نے اپنے خلاف ہی سازش کی۔ ایک لحاظ سے اُن کی بھی غلطی نہیں۔ دہائیوں سے بچتے چلے آ رہے تھے۔ یقینا سوچا ہو گا کہ اب کی بار بھی ایسا ہی ہو گا۔ موسم کی تبدیلی کا اندازہ نہ لگا سکے۔ یہ بنیادی غلطی تھی میاں نواز شریف کی۔
جو ڈھنڈورچی قریب تر تھے اُنہوں نے جلتی پہ تیل کا کام کیا اور ایسے ایسے مشورے میاں نواز شریف کے کان میں ڈالے کہ صورتحال مزید بگڑتی گئی۔ اب میاں نواز شریف سیاسی تنہائی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں‘ لیکن ڈھنڈورچی جلسوں کی تعداد کو سامنے رکھ کے کہتے ہیں کہ واہ میاں صاحب کیا کمال کر دیا۔ جلسوں کا اثر سپریم کورٹ یا احتساب عدالت پہ ہوتا تو پھر بات بھی تھی‘ لیکن ظاہر ہے ایسا کچھ نہیں ہونا تھا۔
بہرحال یہ گومگو کی صورتحال ہے۔ جیسا کہ شروع میں کہا گیا‘ ریاست ہے لیکن حکومت نہیں۔ حالات تب ہی سنبھلیں گے اور استحکام کی طرف جائیں گے‘ جب الیکشن ہوں اور نئی حکومت باگ ڈور سنبھالے۔ نا اہل‘ کمزور اور کرپٹ قیادتیں پاکستان کا المیہ رہی ہیں۔ اُمید ہی کی جا سکتی ہے کہ حالات بہتر ہوں گے اور ملک کو اچھی قیادت نصیب ہو گی۔ جو افراتفری ہم دیکھ رہے ہیں شاید اسی میں سے کچھ بہتری نکل آئے۔
پسِ تحریر: جیسے اور اُفتاد کافی نہ تھیں‘ سپریم کورٹ نے یہ بھی فیصلہ دے دیا ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہوتی ہے۔ لو یہ مخمصہ بھی دور ہوا۔