"AYA" (space) message & send to 7575

’’ہماری بھی کوئی عزت ہے‘‘

وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال نے یوں ایک سیمینار میں فرمایا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس صاحب کو فیصلہ کرنے کا اختیار ہے تضحیک کا نہیں ۔ ہماری بھی کوئی عزت ہے۔ 
وزیر داخلہ کا فرمانا درست ہے ۔ بے عزتی کسی کی نہیں ہونی چاہیے ۔ لیکن سوال اُٹھتا ہے کہ نون لیگ کی تضحیک کر کون رہا ہے۔ یہ تو حقائق سامنے آ رہے ہیں اور جو چیزیں عرصۂ دراز سے دَبی ہوئی تھیں وہ بے نقاب ہو رہی ہیں ۔ اِس اَمر سے رسوائی کا سامان پیدا ہو رہا ہے تو وہ کس کا قصور ہے؟ جس دن وزیر داخلہ کی تنبیہ اخبارات کی زینت بنی اُسی دن وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کا معاملہ تمام ہوا۔ وہی پرانی بیماری جو نون لیگی قیادت کو لاحق ہے کہ غیر ملکی ورک پرمٹ یعنی اقامے جیبوں میں رکھے ہوئے ہیں اور جہاں ظاہر کرنا ضروری تھا‘ وہاں اِس بات کو چھپائے رکھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ سُنا دیا ہے اور خواجہ آصف تاحیات انتخابی سیاست سے آؤٹ ہو گئے ہیں۔ رسوائی خواجہ صاحب کی ہوئی۔ اُن کی نااہلی کا ڈھنڈورا ظاہر ہے پورے ملک میں پیٹا گیا ۔ لیکن اس رسوائی کا اہتمام اسلام آباد ہائی کورٹ نے کسی سازش کے تحت کیا یا اِس کی بنیاد قبلہ خواجہ صاحب نے خود فراہم کی؟
خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں کہ پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی سے اُن کا کوئی تعلق نہیں ۔ خبریں آئی ہیں کہ نیب کے ہاتھ معلومات لگی ہیں کہ خواجہ صاحب اور پیراگون کا گہرا تعلق ہے۔ ایک مشہور موقع پہ خواجہ سعد رفیق نے اپنے آپ اور دیگر ساتھیوں کو لوہے کے چنے کہا ۔ مطلب اُن کا یہ تھا کہ اُنہیں چبانا آسان نہ ہو گا۔ لیکن جب پیراگون سوسائٹی کی بات آگے چلی اور دوران تفتیش اصل حقائق سامنے آئے تو لوہے کے چنوں کا کیا بنے گا۔ خواجہ سعدرفیق پھر غصہ کس پہ نکالیں گے ؟
نہال ہاشمی کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے ۔ اُنہوں نے تو جج صاحبان کے بارے میں پروفیسر احسن اقبال سے کہیں زیادہ سخت زبان استعمال کی تھی ۔ یہاں تک کہہ گئے کہ جو جج صاحبان تنگ کرنے پہ تُلے ہوئے ہیں اُن کے گرد گھیرا ہم تنگ کر دیں گے ۔ بات آگے چلی تو سپریم کورٹ کے سامنے گڑگڑانے لگے اور معافی ترلوں پہ آ گئے۔ خواجہ سعد رفیق بھی اب کہتے ہیں کہ لوہے کے چنوں کی اصطلاح سیاسی مخالفین نہ کہ جج صاحبان کو سامنے رکھ کر استعمال کی گئی تھی ۔ یعنی پہلے اَکڑ اور جب حالات مشکل ہو جائیں تو پسپائی۔ 
معاملہ اور ہے اور کسی ایک ذات کا نہیں ۔ ایک سلسلۂ سیاست جو جنرل ضیاء الحق کے اقتدار کی چھتری تلے شروع ہوا تھا اب مشکلات میں گھرا ہوا ہے ۔ مشکلات کسی سازش کے تحت پیدا نہیں کی گئیں ۔ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔ نواز شریف اور اُن کی جماعت نے خوب عروج دیکھا ۔ نواز شریف خود تین بار وزیر اعظم منتخب ہوئے جو کہ ایک پاکستانی ریکارڈ ہے ۔ حالات سازگار رہے تو سب کچھ ڈھکا چھپا رہا۔ بڑے بڑے سکینڈلز تھے جو اوروں کو برباد کر دیتے لیکن نون لیگی قیادت کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ وقت وہ بھی تھا جب عدلیہ تابع تھی ۔ نون لیگی قیادت کے خلاف کوئی مقدمہ بن ہی نہ پاتا ۔ جنرل مشرف کی حکومت نے مقدموں کا اَنبار لگا دیا لیکن جب معافی کے تحت سعودی عرب میں جلا وَطنی اختیار کی تو سب مقدمات سرد خانے میں چلے گئے اور پھر جب شریف خاندان کی واپسی ہوئی سب کے سب مقدمات ختم ہو گئے ۔ جناب اسحاق ڈار نے جی ٹی روڈ سے لمبا اعترافی بیان دیا تھا کہ کیسے قاضی فیملی کے ناموں پہ جعلی بینک اکاؤنٹ کھولے گئے اور اِن کے ذریعے بڑی مہارت سے منی لانڈرنگ کی گئی ۔ اِسے حدیبیہ پیپر ملز کا کیس کہتے ہیں ۔ جلا وطنی اور واپسی کے بعد یہ کیس بھی دَم توڑ گیا۔ آسمان مہربان ہوں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ 
لیکن اگر آسمانوں کے رنگ بدل جائیں تو پھر آسودگی کی راہیں محدود ہونے لگتی ہیں ۔ یہی کچھ یہاں ہوا۔ جنرل مشرف نے جب اقتدار پہ قبضہ کیا اور نواز شریف کے خلاف مقدمات بنائے گئے تو سعودی عرب کے تب کے ولی عہد شہزادہ عبداللہ اِن کی مدد کو آئے۔ جنرل مشرف پہ دباؤ ڈالا گیا کہ نواز شریف کو اُن کے پاس بھیج دیا جائے۔ معاشی طور پہ پاکستان کی حالت اتنی اچھی نہ تھی۔ خزانہ خالی تھا ۔ تیل کے لئے پیسے نہیں تھے ۔ سعودی حکام نے کہا کہ تیل کی فراہمی رعایتی بنیادوں پہ کی جائے گی۔ اِس ماحول میں معاہد ہ طے ہوا۔ مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان اسلام آباد میں بیٹھے ایک وسیع تر سیاسی اتحاد کی تشکیل میں لگے ہوئے تھے اُنہیں تب پتا چلا جب خبر آئی کہ جناب نواز شریف اینڈ فیملی سعودی طیارے کی سیڑھیوں پہ چڑھ رہے ہیں۔ اپنی سیاسی زندگی میں نوابزادہ نصراللہ خان نے بہت کچھ دیکھا تھا‘ لیکن جب میاں نواز شریف کی پھرتیوں کا سُنا تو واقفانِ حال کہتے ہیں‘ اُنہوں نے اپنا سر پکڑ لیا۔
یہ تب کے حالات تھے۔ اب کچھ دِن پہلے نواز شریف اور شہباز شریف سعودی عرب پہنچے۔ تین دن نواز شریف انتظار کرتے رہے، ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان نے شرفِ ملاقات نہ بخشا۔ بالآخر ملاقات کے لئے صبح کے تین بجے بلایا۔ عروج کی نشانیاں اور ہوتی ہیں اور زوال کی نشانیاں الگ۔
سعودی حکام بے وقوف نہیں ہیں۔ اُن کے سامنے معاملہ صاف تھا۔ جب نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے تو سعودی شاہی خاندان نے پاکستان کو ڈیڑھ بلین ڈالر بطور عطیہ دئیے۔ جب یمن کا بحران پیدا ہوا تو سعودی حکام کو توقع تھی کہ نواز شریف اُن کے لئے کچھ کر سکیں گے۔ کچھ کرنے کی بجائے نواز شریف نے معاملے کو پارلیمنٹ میں دھکیل دیا جہاں تقریروں میں سعودی عرب کی اچھی خاصی مخالفت کی گئی ۔ جو بھی کرتے نواز شریف خود کرتے‘ جس سے سعودی تضحیک کا پہلو سامنے نہ آتا۔ لیکن نواز شریف میں یا سمجھ یا ہمت نہیں تھی۔ وہیں پہ سعودی شاہی خاندان کا شریف فیملی سے پرانا قریبی تعلق اپنی افادیت کھو بیٹھا۔ دونوں ممالک کے تعلقات اَب بھی اَچھے ہیں لیکن سعودیوں نے اب نیا رشتہ جوڑا ہے تو کسی واحد خاندان سے نہیں بلکہ ایک بڑے خاندان سے جس کا نام پاک فوج ہے۔ 
خواجہ آصف کی نااہلی بھی زوال کی نشانیوں میں سے ہے۔ یہ معاملہ تو تَب کا ہے جب 2013ء میں پچھلے الیکشن ہوئے تھے۔ الیکشن پٹیشن کے ذریعے خواجہ آصف کی کامیابی کو چیلنج کیا گیا تھا لیکن تمام قانونی مراحل عبور کرتے ہوئے فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ہاتھوں اَب آیا ہے۔ جب تک قسمت نے خواجہ صاحب کا ساتھ دیا اُنہیں کچھ نہ ہوا۔ آسمانوں کے حالات بدلے تو سب کچھ لُٹ گیا۔ ویسے بات شرم کی بھی ہے ۔ پورے کرّہ اَرض پہ کون سا دیگر ایسا ملک ہو گا جس کے وزیر خارجہ ایک غیر ملکی فرم سے تنخواہ لیتے ہوں؟ ایسی نظیر اور کہیں نہیں ملے گی۔ وزیر دفاع اور وزیر خارجہ پاکستان کے اور ملازمت متحدہ عرب امارات کی ایک فرم کی۔ کسی یورپی ملک میں ایسی بات آشکار ہوتی تو متعلقہ وزیر خارجہ اپنا مُنہ کہیں چھپانے کے قابل نہ رہتے۔ عدالتی فیصلے سے پہلے گھر جا چکے ہوتے۔ یہ پاکستان کی آب و ہوا ہی ہے کہ گھٹیا حرکات سامنے آ جائیں تو آپ پھر بھی دَندناتے پھریں۔ بطور صحافی قومی اسمبلی میں کئی بار دیکھا کہ خواجہ آصف مخالفین کی بے عزتی کرنے میں آخری حدوں تک جاتے۔ آج قدرت نے اُن کے ساتھ ہاتھ کر دیا۔ شاید اِسی کو مکافاتِ عمل کہتے ہیں۔ 
پاکستانی سیاست دو نالائقیوں کے درمیان یرغمال بنی ہوئی تھی۔ ایک طرف پیپلز پارٹی، دوسری طرف نواز لیگ۔ قوم کی جان پیپلز پارٹی سے چھوٹی اور اب حالات بتا رہے ہیں کہ شاید نواز لیگ سے بھی نجات مل جائے۔ جماعت رہے گی۔ ممبران اسمبلی ہوں گے لیکن آسمانوں کے تیور بتاتے ہیں کہ حاکمیت اور عروج کے دِن گئے۔ اِس کے بعد کیا ہوتا ہے اور معاشرہ کن سیاسی بنیادوں پہ استوار ہوتا ہے آنے والے دن ہی بتائیں گے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں