"AYA" (space) message & send to 7575

اصغر خان کیس اور ووٹ کی عزت

ووٹ کی صحیح عزت تو 1990ء کے انتخاب میں ہوئی تھی۔ صدر غلام اسحاق خان کے مضبوط ہاتھوں بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف ہو چکی تھی۔ کرپشن کے کیسز محترمہ اور اُن کے شوہر نامدار کے خلاف بن چکے تھے۔ لیکن اگلے انتخابات میں یقینی کامیابی کیلئے کچھ اور تدبیریں بھی کی گئیں۔ صدر ہاؤس میں ایک الیکشن سیل بنا جس میں اُس وقت کے چوٹی کے بیوروکریٹ شامل تھے۔ اِن میں ایک نامور نام خان روئیداد خان کا تھا جو بعد میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے بڑے چیمپئن بنے۔
آرمی چیف ہمارے مہربان دوست جنرل اسلم بیگ تھے ۔ اُس زمانے میں یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ بینظیر بھٹو کو زیادہ ناپسند کون کرتے تھے، صدر صاحب یا جنرل اسلم بیگ۔ دونوں کی اِس بات سے تسلی نہ ہوئی کہ بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی گئی ہے ۔ آنے والے انتخابات میں وہ محترمہ کی پیپلز پارٹی کو نیست و نابود کرنا چاہتے تھے ۔ اسی لئے الیکشن سیل بنا جو تمام معاملات کی نگرانی پہ مامور تھا ۔ ساتھ ہی ساتھ یہ حکمت عملی اپنائی گئی کہ مہران بینک کے جناب یونس حبیب سے چودہ کروڑ کی خطیر رقم بطور تحفہ لی جائے۔ آدھے پیسے جنرل اسلم بیگ کے حکم پہ آئی ایس آئی کے سپرد کئے گئے اور آئی ایس آئی نے اپنے کھاتوں میں وہ رقم ڈال دی ۔ بچی ہوئی رقم یعنی سات کروڑ کا فیصلہ یہ ہوا کہ بھٹو مخالف اسلامی جمہوری اتحاد (جو ہمارے مرحوم دوست لیفٹیننٹ جنرل حمید گل کی عظیم کاوشوں سے معرضِ وجود میں آ چکا تھا) میں تقسیم کیے جائیں تاکہ بہتر الیکشن مہم چلائی جا سکے۔ 
کیا کیا نام تھے جن کو رقوم مہیا کی گئیں۔ جو بعد میں ملتان کے باغی مشہور ہوئے وہ بھی فیض پانے والوں میں تھے ۔ اسی فیض کی بدولت راتوں رات مخدوم ہو گئے ۔ لیکن سر فہرست تو میاں برادران ٹھہرے۔ بڑے بھائی نے تینتیس لاکھ پہ ہاتھ مارا اور چھوٹے بھائی صاحب نے بائیس لاکھ پہ اکتفا کیا۔ حیرانی کی بات البتہ رہے گی کہ اوروں کے پاس تو چلیں پیسوں کی کمی ہو گی‘ میاں برادران کو کبھی یہ مسئلہ لاحق نہ تھا۔ نیز یہ کہ 1990ء تک اُن کی صنعتی سلطنت کی بنیادیں رکھی جا چکی تھیں اور فیکٹریوں کی ایک لمبی کھیپ معرضِ وجود میں آ چکی تھی ۔ اُن کو تو یہ مہران بینک اور آئی ایس آئی کا مِلا جُلا تحفہ حقارت سے ٹھکرا دینا چاہیے تھا۔ جو افسر بریف کیس تھامے اُن کے سامنے آئے اُنہیں کہا جاتا کہ بھائی صاحب کہیں اور لے جائیے ۔ لیکن ہمارے میاں صاحبان اتنے سادہ کبھی نہیں رہے۔ جو آیا ہٰذا من فضل ربی سمجھ کے رکھ لیا۔ 
ظاہر ہے اقرار تو اُنہوں نے کبھی نہیں کیا کہ اُس الیکشن میں ہم نے آئی ایس آئی کی پھونک ماری رقوم لیں ۔ لیکن دلچسپ اَمر یہ ہے کہ کبھی انکار بھی نہیں کیا۔ اپنے منہ سے کبھی نہیں کہا کہ یہ الزامات جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ چھوٹے بھائی صاحب نے اِس معاملے پہ کبھی کوئی تبصرہ تو کُجا ذکر تک نہیں کیا ۔ لیکن بڑے بھائی صاحب‘ جو آج کل ووٹ کی عزت کا رونا قوم کے سامنے رو رہے ہیں ، نے ایف آئی اے میں باقاعدہ تحریری بیان جمع کرایا ہوا ہے کہ یاد نہیں پڑتا کہ 1990ء کے انتخابی ہنگام میں ایسی کوئی رقم لی ہو ۔ لیکن اگر ایسا کوئی معاملہ تھا تو مع سود رقم واپس کرنے کو تیار ہوں۔ اسی کیفیت پہ شاید شاعر نے کہا تھا ''اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا‘‘۔
رقوم کی تفصیلات لیفٹیننٹ جنرل اسد دُرانی نے ایک بیان حلفی میں مہیا کیں۔ 1990ء میں جنرل دُرانی آئی ایس آئی کے سربراہ تھے ۔ سارا قصّہ اُن کے سامنے ہوا تھا اور اُن کے احکامات کے بغیر رقوم کی تقسیم نہیں ہو سکتی تھی۔ جب اُنہوں نے بیان حلفی دیا تو وہ جرمنی میں ہمارے سفیر تھے اور اُن کی وہاں تعیناتی وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے اپنی دوسری حکومت میں کی تھی ۔ جناب رحمن ملک ایف آئی اے کے نائب سربراہ تھے اور اُنہوں نے یہ بیان حلفی جنرل درانی سے جرمنی کے دارالخلافہ میں لیا تھا۔ پاکستان واپسی پہ رحمن ملک نے یہ ڈاکومنٹ تب کے وزیر داخلہ میجر جنرل نصیر اللہ بابر کو دیا ۔ جنرل بابر چپکے سے یہ بیان مرحوم ایئر مارشل اصغر خان کے پاس لے گئے اور ایئر مارشل صاحب نے اُس تحریر کی بنیاد پہ سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ 
سالہا سال تک یہ پٹیشن سرد خانے میں رہی ۔ جب افتخار چوہدری صاحب چیف جسٹس بنے تو ایئر مارشل اصغر خان نے ایک درخواست دی کہ میں عمر کے اِس حصے میں ہوں کہ کسی بھی وقت اُوپر جا سکتا ہوں ‘ مؤدبانہ التماس ہے کہ میری زندگی کے آخری ایام میں میری پٹیشن کو سُنا جائے۔ افتخار چوہدری صاحب نے پٹیشن پہ سماعت رکھی۔ دلائل سُننے کے بعد اور شواہد دیکھ کر فیصلہ صادر ہوا کہ 1990ء کے انتخابات میں متذکرہ رقوم کی تقسیم کی بنا پہ دھاندلی کا ارتکاب ہوا۔ ایف آئی اے اس معاملے کی چھان بین کرے اور جو قصوروار ہیں اُن کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ایف آئی اے میں کہاں ہمت تھی کہ صحیح تفتیش کرتی۔ بس خانہ پُری کی گئی اور قصورواروں تک پہنچنے سے اجتناب کیا گیا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے فیصلے کے خلا ف جنرل اسلم بیگ اور لیفٹیننٹ جنرل اسد دُرانی نے نظر ثانی پٹیشن دائر کی ۔ کئی سال گزر گئے مگر اس پٹیشن پہ کوئی کارروائی نہ ہوئی ۔ اب آ کے چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے نظر ثانی اپیلوںکو سُنا اور دو روز ہوئے پٹیشنوں کو خارج کر دیا۔ ایف آئی اے اور اٹارنی جنرل سے پوچھا گیا ہے کہ بتائیں چھ سال پرانے سپریم کورٹ کے فیصلے پہ کیا عملدرآمد ہوا ہے۔ 
اَب نواز شریف کس پہ الزام دَھریں گے ؟ کیا اب بھی کہیں گے کہ اصغر خان کیس والا قصّہ ایک سازش ہے؟ اس ایک کیس پہ صحیح پیشرفت ہو تو دونوں میاں صاحبان قانون کی گرفت میں آ سکتے ہیں ۔ شرط البتہ یہ ہے کہ دونوں جنرل صاحبان کے خلاف بھی کارروائی ہو۔ وہ بچ گئے یا اُن پہ کوئی حرف نہ آیا تو سمجھیے کہ معاملہ پھر ایک بار کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ دوسرا ٹائم بم ماڈل ٹاؤن کیس کا ہے ۔ اُس میں معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی جائے تو رانا ثناء اللہ ، توقیر شاہ تب کے پنجاب کے چیف سیکرٹری ، تب کے لاہور کمشنر اور ایک پوری فہرست پولیس افسران کی بچ نہیں سکتی۔
بہرحال تطہیر کا عمل جاری ہے۔ احتساب عدالت میں بھی معاملات چل رہے ہیں اور وہاں بھی فیصلہ آنا ہے ۔ اُس کے بعد کا سیاسی منظر نامہ کیا ہوتا ہے وقت ہی بتائے گا۔ نون لیگ قائم ہے اور اُس کی عوامی مقبولیت بھی متاثر نہیں ہوئی ۔ مہینے کے آخر میں موجودہ حکومتوں نے جانا ہے اور قائم مقام بندوبست سامنے آئے گا۔ تب تک شُنید ہے کہ احتساب عدالت کے فیصلے بھی آ چکے ہوں گے۔ صحیح امتحان نون لیگ کا تب ہو گا، کہ کتنی مستحکم رہتی ہے اور کس انداز میں انتخابی میدان میں قدم رکھتی ہے۔ 
پاکستان کا اصل مسئلہ وہی پرانا ہے کہ صحیح قیادت کہاں سے نمودار ہو ۔ موجودہ لوگ تو ہمارے سامنے ہیں ۔ نون لیگ والے تو آزمائے ہوئے ہیں اور اُن کے مد مقابل بھی ایسے ہیں کہ قوم اُن کو سالوں سے دیکھ رہی ہے۔ جس سے خون میں جوش آئے، دِلوں میں تھرتھراہٹ پیدا ہو ، ذہنوں میں نئے تصورات جنم لیں، ایسی صورتحال پیدا کرنے والی قیادت کہیں نظر نہیں آتی۔ ترقی یافتہ ممالک میں بنیادی مسائل حل ہو چکے ہوتے ہیں۔ یورپین ممالک میں درمیانے درجے کی قیادتیں آئیں تو پھر بھی کام چل جاتا ہے کیونکہ ادارے مضبوط ہوتے ہیں اور معاشرے مضبوط بنیادوں پہ استوار ہوتے ہیں ۔ ہمارے ہاں بنیادی مسائل کا سامنا ہے ۔ قوم کی تعمیر میں جو بنیادی فیصلے لینے چاہئیں ابھی تک ہماری محدود سوچ رکھنے والی قیادتیں وہ لینے سے قاصر رہی ہیں۔ اس لئے یہاں پہ صحیح قیادت کی اہمیت زیادہ ہے‘ نہیں تو مسائل بڑھتے جائیں گے اور موقعے ہاتھ سے جاتے رہیں گے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں