"AYA" (space) message & send to 7575

یہ جگر کی آگ کیسے ٹھنڈ ی ہوگی ؟

ذوالفقار علی بھٹو تختہ ِ دار پر چڑھ گئے ، جنرل ضیاء الحق کو برا بھلا کہا، لیکن بطور ادارہ فوج کے خلاف کوئی بات نہ کی ۔ سینے میں دَبے ایٹمی راز کے حوالے سے ایک لفظ بھی نہ کہا ۔ قومی مفاد کے خلاف کچھ نہ بولے ۔ نوازشریف کیسے رہنما ہیںکہ نااہلی کی وجہ سے سینے میں سُلگتے اَنگاروں کو تسکین دینے کیلئے قومی مفاد کو داؤ پہ لگا رہے ہیں ۔ ممبئی حملوں کے بارے میں وہ کچھ کہہ گئے کہ ہندوستانیوں کو سمجھ نہیں آرہا کہ کوئی پاکستانی رہنما ہندوستان کی بولی اس طرح سے بولے گا۔ ہندوستانی میڈیا کی حیرانگی اورخوشی تھمنے کو نہیں آرہی ۔ 
بجائے شرمندگی یا نظر ثانی کے نوازشریف اس خطرناک بیان پہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ مقصد اُن کا صاف ظاہر ہے ۔ سزا اگر احتساب عدالت سے ہوتی ہے تو دنیا کو باور کرانا چاہیں گے کہ سزا اُنہیں دراصل اُن کی دہشت گردی پہ مؤقف کی بناء پہ ملی ہے ۔ مزید کہتے ہیں کہ حق بات کرتا رہوں گا چاہے کچھ بھی سہنا پڑے ۔ یہ وہ شخص کہہ رہاہے ،جس نے پانامہ کیس کے معاملے میں دروغ گوئی کے نئے ریکارڈ قائم کردئیے ۔ ایک لفظ بھی صداقت پہ مبنی لبوں سے ادا نہیں ہوسکا۔خاندان کے ہر فرد کا مؤقف ایک دوسرے سے جدا ہے ۔یہ ہیں ہمارے حق بات کے چیمپئن۔
عدلیہ اورفوج تو کیا اُنہوں نے براہ راست حملہ ریاست پہ کیاہے۔ ریاست پاکستان کا مؤقف ممبئی حملوں پہ کچھ اور ہے، لیکن نوازشریف اُس سے بالکل اُلٹ کہانی بیان کررہے ہیں ۔ اس طریقے سے وہ ریاست ِ پاکستان کو اقوام عالم میں جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ایسے غیر ذمہ دارانہ رویے کی شاید ہی کوئی نظیر ملتی ہو ، جو اُونچے عہدوں پہ رہے ہوں وہ اپنے ملک کے خلاف بات نہیں کرتے، چاہے کسی مسئلے پہ اُن کے تحفظات کچھ بھی ہوں ۔ امریکہ میں عراق پہ حملہ وسیع حلقوں میں امریکی پالیسی کا بہت بڑا بلنڈر سمجھا جاتاہے، لیکن امریکی سیاستدان یا سابقہ صدور اِس بلنڈر کا ڈھنڈورا دنیا میں نہیں پیٹتے ۔
نوازشریف کا کمال ہے کہ پاکستان کے دُشمنوں کی ترجمانی کی ہے۔ صرف اس لئے کہ امریکی ہمدردیاں حاصل کرسکیں شاید اِس اُمید پہ کہ اُن کی داخلی مصیبتوں میں اُنہیں کچھ ریلیف مل سکے ۔ باالفاظ دیگر ،ملک اوراُس کا مفاد جائیں بھاڑ میں، بس نوازشریف اورخاندان کیلئے آسانیاں پیدا ہوں۔پاکستان کا خیال تو نہ آیا کچھ اپنی جماعت کا سُوچ لیتے ۔نوازشریف کابیان نون لیگ پہ بجلی کی مانند گراہے ۔اُس کے دیگر لیڈران کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا کہیں۔شہبازشریف ہر لحاظ سے بڑے بھائی کے بیان سے مکمل منحرف ہوگئے ہیں ۔کہہ رہے ہیں کہ نوازشریف ایسی بات کرہی نہیں سکتے اوریہ کہ اُن کی باتیں سیاق وسباق سے ہٹ کے پیش کی گئی ہیں ۔ یہ بھی عجیب مؤقف ہے ۔ نوازشریف کا انٹرویو کسی غیر ملکی اخبار میں شائع نہیں ہوا۔ خود نوازشریف اپنی بات پہ قائم ہیں۔وزیراعظم البتہ اپنے قائد کا دفاع کررہے ہیں اوراس طریقے سے کہ اپنے آپ کو جوکر بنا کے رکھ دیاہے۔ نہ اپنے عہدے کا خیال ہے نہ ملک کی عزت کا ۔ 
جو باتیں نوازشریف نے کی ہیں ،وہ کوئی سندھی یا پیپلز پارٹی کا کوئی رکن کرتا تو پنجاب میں ایسا طوفان آتا کہ تھمنے کا نام نہ لیتا ۔ ایساکہنے والے کو زندہ چبا لیا جاتا۔ رونا یہ ہے کہ نوازشریف پنجاب کے لیڈر ہیں اورپنجاب آبادی اوروسائل کے اعتبار سے ملک کا سب سے طاقتور صوبہ ہے۔ 1947ء سے لے کر اب تک حُب الوطنی کا ٹھیکہ اسی صوبے نے لے رکھاہے ۔ اسی صوبے کا لیڈر اب ہندوستان کی بولی بول رہا ہے ۔ 
نوازشریف کے بنیادی مسئلے کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اُنہیں سیاسی لیڈر فوج اورایجنسیوں نے بنایا ۔ لیکن جب لیڈر بن گئے تو اُنہی ہاتھوں کو برداشت نہ کرسکے جو اُن کے بنانے میں پیش پیش تھے ۔ اسی لئے یہ عجیب منظر دیکھنے کو آیا کہ تین مرتبہ بننے والے وزیراعظم کی کسی ایک آرمی چیف سے نہ بن سکی ۔ ہر ایک سے اُن کے پرابلم کھڑے ہوگئے ۔ کس کس کا نام لیا جائے ۔اسلم بیگ کو نہ برداشت کرسکے ۔ آصف جنجوعہ سے باقاعدہ جنگ چھڑ گئی ۔ وحید کاکڑ نے اِنہیں گھر بھیجا ۔ جہانگیر کرامت سے زیادہ شریف النفس آرمی چیف ہو نہیں سکتاتھا ۔ اُن سے بھی اِن کی اَن بَن ہوگئی ۔ مشرف کور کمانڈر منگلا تھے ۔وہاں سے اُن کی کھوج لگا کر اُن کو آرمی چیف بنایاگیا اس خیال سے کہ اُردو سپیکنگ ہیں اورفوج میں اُن کا زیادہ حلقہ ِ اَثر نہ ہوگا۔ یہ ایک بیوقوف آدمی کی ہی سوچ ہوسکتی تھی ۔ پاکستان آرمی کا جو بھی کمانڈر ہو ۔۔۔مہاجر ، پختون ، پنجابی یا فارسی نژاد یحییٰ خان ۔۔۔حکم اُسی کا چلتاہے۔ یہ کوئی نسلی یا لسانی فوج نہیں ہے ۔ چاہے کسی کو اچھا لگے یا نہیں ،یہ قومی فوج ہے اوراسی کے وجود سے ریاست قائم ہے ۔ بعد میں جو مشرف اورنوازشریف کے درمیان ہوا وہ ہم جانتے ہیں۔ 
مشرف کو نکالنا تھا تو معرکہ کارگل کے موقع پہ نکالتے ۔ مشرف نے بغیر اجازت کارگل کا محاذ کھولا اورہمارے زیرک وزیراعظم کی سمجھ میں بات نہ آئی کہ اس محاذ آرائی کے مضمرات کیا ہوسکتے ہیں۔بجائے سوال پوچھنے کے جنگی جنون کا حصہ بن گئے اورپھر جب معاملہ گمبھیر ہوا تو واشنگٹن کے اچانک دورے پہ نکلے ۔ آگ کے شعلو ں میں سے پاکستان کا بچاؤ امریکی مدد سے کیاگیا۔ لیکن اُس وقت مشرف کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی اورمہینوں بعد اکتوبر 1999ء میں جس کارروائی کی کوشش کی گئی اُس کا جواز نہ تھا۔ فوجی کمان نے بغاوت کردی اورہمیں پتہ ہے کہ اُس ساری صورتحال کا نتیجہ کیا نکلا۔ 
جنرل راحیل شریف سے تعلقات ٹھیک نہ رہ سکے اوراگر جنرل راحیل کے بارے میں کہا جائے کہ وہ آگے قدم رکھنے والے انسان تھے تو دھیمے مزاج کے جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی نوازشریف کے تعلقات زیادہ دیر ٹھیک نہ رہ سکے ۔ تو سوال اُٹھتاہے کہ نوازشریف چاہتے کیا ہیں ۔اُن کا فوج سے مسئلہ کیاہے؟مسئلہ یہی ہے کہ ذہنی برابری کی سطح پہ فوجی جرنیلوں سے بات کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ اسی لئے دل میں خواہش رکھتے ہیں کہ فوجی جرنیل بھی وہ خوشامد اورتابعداری دکھائیں جو پنجاب کی سول انتظامیہ کے افسران دکھاتے ہیں۔ نوازشریف سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاک فوج کا سربراہ آئی جی یا چیف سیکرٹری پنجاب کی طرح تابعداری نہیں دِکھا سکتا ۔ یہ اُن کو ناگوار گزرتی ہے اورجلد بگاڑ پیدا ہوجاتاہے ۔ اس صورتحال کاکوئی حل نہیں ۔ نہ نوازشریف کی ذہنی سطح بلند ہوسکتی ہے نہ فوج کا کمانڈر انچیف اتنا نیچے آسکتاہے ۔ 
اَب کی بار معاملہ اورنازک ہوگیاہے ۔نوازشریف اقتدار سے معزول ہوچکے ہیں اوراگر ہم شواہد اورآثارپہ جائیں تو نیب عدالت سے سزا زیادہ دورنہیں۔ اس لئے تمام احتیاط کو ایک طرف پھینک کے وہ خطرناک جواء کھیلنے پہ تیار ہوگئے ہیں ۔ حملہ اُنہوں نے پاکستان اوراُس کی سکیورٹی پالیسیوں پہ کر ڈالاہے ۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ چیلنج دے رہے ہیں کہ میں نے یہ کردیاہے، آپ نے جو کرناہے کریں ۔ 
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ بھی لمبی تاویلوں میں پڑ گیا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے حوالے سے یہ کچھ کیا اورہندوستان نے فلاں فلاں چیز نہیں کی۔ ایسی تاویلوں کی چنداں ضرورت نہ تھی ۔ اعلامیہ مختصر ہوتا اورصاف کہتا کہ سابقہ وزیراعظم نہایت غیر ذمہ دارانہ رویے کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ اس سے زیادہ کی ضرورت نہ تھی ۔ البتہ اس پہ غور کیا جاسکتاتھا کہ آیا سابقہ وزیراعظم کو یہ کھلی چھٹی ملنی چاہیے کہ جو جی میں آئے وہ کہیں اورذرائع ابلاغ اُن کے خیالات کی بھر پور تشہیر کریں۔ 
مصیبت یہ ہے کہ حکومت بھی اِ ن کی اورحزب اختلاف کا کردار بھی یہ ادا کررہے ہیں ۔ باقی اس حکومت کی زندگی پندرہ روز رہ گئی ہے اورقوم کو یہ صورتحال اس عرصے کیلئے برداشت کرنی پڑے گی ۔ اُس کے بعد شاید حالات میں بہتری آئے ،لیکن نوازشریف نے جو حملہ ملک پہ کرنا تھا، وہ کردیا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں