نواز شریف کی ذہنی اور جذباتی کیفیت اس نہج پہ پہنچ چکی ہے کہ میں برباد ہو رہا ہوں تو سب برباد ہوں حتیٰ کہ ملک و قوم کو نقصان پہنچے تو تسکین قلب کیلئے یہ بھی گوارا ہے۔ قانونی محاذ پہ پسپائی اختیارکیے جا رہے ہیں۔ بہت چنگھاڑے لیکن عدلیہ کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اور پاکستانی فوج کو شکست دینے سے رہے، تو آخری پتے کے طور پہ کس سے بدلہ لے رہے ہیں؟ اپنی ہی جماعت سے‘ جس کی بدولت اُنہوں نے اتنا عروج دیکھا۔
حالیہ اخباری انٹرویو سے قوم کا کیا بگڑنا تھا، وہ تو یہ وار سہہ ہی جائے گی لیکن اخباری انٹرویو اور اُس کے مضمرات نون لیگ کیلئے تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔ وہ جو شاید اسٹیبلشمنٹ نہ کر سکتی اُس کا اہتمام اپنی جماعت کیلئے میاں نواز شریف خود ہی کر رہے ہیں۔ نون لیگیوں کو‘ اس میں وزرا اور دیگر قائدین شامل ہیں، کو سمجھ نہیں آ رہی کہ نواز شریف کس راستے پہ چل نکلے ہیں۔ نون لیگ میں جو تھوڑی بہت سوچ رکھتے ہیں اُن کو بخوبی احساس ہے کہ میاں نواز شریف اور اُن کی بیٹی مریم نواز نے جو جارحانہ رویہ اپنا رکھا ہے‘ اُس سے پارٹی کو بہت نقصان پہنچے گا‘ لیکن تمام پارٹی نواز شریف اور اُن کی بیٹی کی ضد کے سامنے بے بس ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق بدھ کے روز بھی شہباز شریف اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھرپور کوشش کی کہ نواز شریف کو ٹھنڈا کر سکیں اور اس بات پہ آمادہ کر سکیں کہ اپنے رویے میں تھوڑی سی نرمی اور لچک پیدا کریں‘ لیکن اُن کی کوششیں بیکار گئیں کیونکہ نواز شریف نے اُن کی رائے کو یکسر مسترد کر دیا اور اس بات پہ اَڑے رہے کہ وہ جو کہہ اور کر رہے ہیں بالکل درست ہے اور وہ ایسا کرتے رہیں گے چاہے اُس کا نقصان جتنا بھی ہو۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ‘ جس کا مطلب ہے فوج، کو کھلم کھلا للکار رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ملک کے تمام مسائل کی جڑ فوج کا کردار ہے۔ اور یہ کہ وہ چپ نہیں بیٹھیں گے اور صاف صاف بات کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ وہ تو اس ہٹ دھرمی سے جو بھی تسکین حاصل کر رہے ہوں لیکن نون لیگی ایم این ایز اور ایم پی ایز کو صاف پتا چل رہا ہے کہ اُن کا قائد اپنے سینگ سامنے کھڑی دیوار میں پیوست کرنے جا رہا ہے۔ اس حکمت عملی سے اور جو بھی نتیجہ نکلے ایم این ایز اور ایم پی ایز اپنے حلقوں میں سیاسی طور پہ ہلاکت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ لیکن جیسے پہلے کہا‘ نون لیگ بے بس ہے۔
جماعت کیلئے راہِ نجات ایک ہی چیز میں ہے کہ پُلوں کے نیچے مزید پانی گزرنے سے قبل پارٹی قیادت سے میاں نواز شریف کو پرے کر دیا جائے‘ لیکن ایسا موجودہ حالات میں ناممکن ہے۔ شہباز شریف بات تو اور کر رہے ہیں لیکن وہ علمِ بغاوت اُٹھانے کے قابل نہیں۔ نون لیگ کی بہتری اَب اِسی میں ہے کہ عزت مآب جناب محمد بشیر کی احتساب عدالت کا فیصلہ جلد سے جلد آئے تاکہ اگر فیصلہ مخالفانہ ہو تو پارٹی کو اپنے سینگ آزمانے والے قائد سے نجات مل سکے۔ ٹوٹ پھوٹ کا عمل نون لیگ میں شروع ہو چکا ہے۔ قائد جماعت کو مزید مہلت مل گئی تو ٹوٹ پھوٹ کا یہ عمل کہیں آگے پہنچ چکا ہو گا‘ جس سے نون لیگ بھی اُسی حشر سے دوچار ہو گی‘ جس حشر کا سامنا پیپلز پارٹی کو کرنا پڑا۔ جنرل ضیاء الحق تو پیپلز پارٹی کو تباہ نہ کر سکے۔ یہ نیک کام جناب آصف علی زرداری نے سرانجام دیا۔ بالکل اُسی طرح جو کام نون لیگ کے حوالے سے مخالفانہ ہوائیں نہ کر سکیں‘ میاں نواز شریف وہ تاریخی کام خود کرنے جا رہے ہیں۔
جنگ عظیم دوئم کے آخری دنوں میں جب صاف ظاہر تھا کہ جرمنی کو تاریخی اور عبرتناک شکست ہونے والی ہے‘ ہٹلر نے یہ فیصلہ کیا کہ بدلہ اپنی قوم اور عوام سے لیں۔ جب رُوسی اور اتحادی فوجیں برلن کے قریب پہنچ رہی تھیں تو ہٹلر نے اپنے معتمد خاص ایلبرٹ سپیئر (Albert Speer) کو حکم دیا کہ جرمنی کا تمام انفراسٹرکچر... یعنی ڈیم، نہریں، پاور سٹیشن اور گرڈ لائنیں... تباہ کر دیا جائے تاکہ جو قوم فتح کے قابل نہ رہ سکی وہ مستقل اندھیروں میں چلی جائے۔ اپنی یادداشتوں میں سپیئر لکھتے ہیں کہ اُنہوں نے ایسا نہ ہونے دیا۔ جرمنی تباہ تو ہو گیا اور اُس کی بیشتر فیکٹریاں مسمار ہو گئیں لیکن انفراسٹرکچر، یعنی ترقی کی ضروری بنیاد قائم رہی۔ اسی لئے یہ ممکن ہوا کہ کچھ عرصے میں جرمن قوم اپنی بے پناہ صلاحیتوں کی بنا پہ نہ صرف اپنے پاؤں پہ پھر سے کھڑی ہو گئی بلکہ ترقی کی منزلیں طے کرنے لگی۔
کہاں جرمن قوم کہاں نواز شریف۔ لیکن نواز شریف کی اِس وقت کیفیت ہٹلر والی ہے کہ میں نہ رہوں تو کچھ بھی نہ رہے حتیٰ کہ میری پارٹی نے بربادی کی طرف جانا ہے تو جائے۔ بدھ کے روز نون لیگ کی پارلیمانی پارٹی کی جو میٹنگ ہوئی اُس حوالے سے نواز شریف چاہتے تھے کہ پارلیمانی پارٹی اُن کے حق میں قرارداد پاس کرے۔ ظاہر ہے کہ اُن کے حق میں قرارداد ملکی اداروں کے خلاف ہونی تھی۔ اس لئے ایسی قرارداد سامنے نہ آئی لیکن اس عمل سے نواز شریف خوش نہ ہوئے۔ جمعرات کی پارلیمانی میٹنگ میں‘ جس کی صدارت شہباز شریف نے کی‘ ممبران پھٹ پڑے اور اُنہوں نے صاف کہا کہ نواز شریف کا فلسفہ سامنے رکھ کر وہ انتخابی میدان میں قدم نہیں رکھ سکتے۔ شہباز شریف نے تسلیاں دیں اور مضحکہ خیز مؤقف اختیار کیا کہ جس آدمی نے نواز شریف کے انٹرویو کا اہتمام کیا تھا اور مخصوص صحافی کو اُن کے پاس لے گیا وہ پارٹی کا دشمن ہے۔ یعنی انٹرویو کا مہتمم قصوروار ہے لیکن ملکی مفاد پہ حملہ آور ہونے والا نیک، پاکباز اورمعصوم ہے۔
اس ساری صورتحال میں خوش آئند بات یہ ہے کہ فوج جوابی ضد میں نہیں آئی اور بڑے ٹھنڈے دل سے اس سارے منظر نامے کو دیکھ رہی ہے، بغیر اشتعال میں آئے، بغیر صبر کا پیمانہ لبریز ہوئے۔ یہی بہترین جواب نواز شریف کی اشتعال انگیزی کا ہے۔ اگر فوج کی طرف سے عُجلت میں ردِ عمل آتا تو سب سے زیادہ خوش نواز شریف ہوتے‘ کیونکہ لگتا یوں ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ فوج کا شدید رد عمل ہو، سب کچھ تہس نہس ہو جائے اور وہ خود ہیرو اور شہید بن جائیں۔ ایسی بے وقوفی کسی طرف سے سرزد ہو جاتی تو احتساب کا موجودہ عمل دھرے کا دھرا رہ جاتا اور میاں نواز شریف قوم اور دنیا کا دھیان اصلی نکتے سے ہٹانے میں کامیاب ہو جاتے۔ لیکن اداروں کے ٹھنڈے پن نے اُن کے غصے اور گھبراہٹ میں مزید شدت پیدا کر دی ہے۔
ملک کو درپیش صورتحال کے پیش نظر یہ بات کہنا پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ سیاسی اور آئینی عمل میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہونی چاہئے۔ انتخابات بروقت ہوں، کسی وجہ یا بہانے سے ایک دن کی بھی تاخیر نہ ہو کیونکہ ہمارا قومی تجربہ گواہ ہے کہ ایسے عمل میں تاخیر ایک مرتبہ ہو تو لمبی ہو جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ نئی نزاکتیں جنم لیتی ہیں جن کا نقصان ملک کو اُٹھانا پڑتا ہے۔ چونکہ اب نون لیگ کو پتہ چل رہا ہے کہ انتخابات کی ہوائیں اُن کے حق میں نہیں چل رہیں تو وہ چاہے گی کہ آئینی بندوبست کا بوریا بستر گول ہو اور انتخابات میں تاخیر ہو۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ مہینے کے آخر تک موجودہ حکومتوں کی مدت پوری ہو جائے گی۔ حکومتیں جائیں تاریخ کے کوڑے دان میں۔ قائم مقام حکومتیں بنیں اور انتخابات کے لوازمات احسن طریقے سے پورے ہوں۔ پھر جو عوام کا فیصلہ ہو، جو عوام کے موڈ میں آئے، اُس کے سامنے سب سر تسلیم خم کریں۔ موجودہ بحران کا یہی حل ہے۔ پھر جو آئیں قدرت انہیں توفیق دے کہ ملک کو بہتری کی راہ پہ گامزن کر سکیں۔ ہم عرصۂ دراز سے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ کتنے مواقع آئے اور ہم نے ضائع کر دئیے۔ لوٹ مار کا سلسلہ ساتھ ہی ساتھ جاری رہا اور اچھی بھلی قوم کا بیڑہ غرق ہوتا رہا۔ کچھ تو تقدیر بدلے اور بہتر لوگ آئیں تاکہ قوم کی سوئی ہوئی صلاحیتیں اُجاگر ہوں اور اقوام عالم میں ہماری بھی کوئی عزت بنے۔