انتخابات ابھی ہونے ہیں۔ کافی مراحل طے ہونے باقی ہیں۔ امیدواروں کا چناؤ ہونا ہے اور اس مشق میں تحریک انصاف کا ریکارڈ زیادہ قابل رشک نہیں۔ پھر انتخابی مہم چلنی ہے اور ووٹ ڈالنے کا مرحلہ بھی آنا ہے۔ لیکن تحریک انصاف کو دیکھا جائے تو اُس کے قائدین اور خود خانِ اعظم اس تاثر میں مبتلا لگتے ہیں کہ انتخابات اُن کی جیب میں ہیں اور اُن کی حکومت بننے کی راہ میں اب کوئی رکاوٹ نہیں ۔ یعنی مستقبل اُن کا ہے اور دیگر مراحل بس جزوی حیثیت کے حامل ہیں۔
یہ سب پیش گوئیاں یا خواب دیکھنے کا عمل درست بھی ہو گا لیکن جب لبوں اور پیالے میں کچھ فاصلہ ہو تو کھٹکا ضرور رہتا ہے کہ ہاتھ میں اُٹھائے پیالے کے ساتھ کوئی حادثہ نہ ہو جائے۔
جس کیفیت سے تحریک انصاف دوچار ہے پاکستانی تاریخ میں پہلے بھی ایک ایسا موقع آیا تھا۔ یہ 1979ء کا زمانہ تھا جب ذوالفقار علی بھٹو تختۂ دار پہ جا چکے تھے‘ اور جنرل ضیاء الحق نے فیصلہ کیا تھا کہ قومی انتخابات اُسی سال یعنی 1979ء کے اکتوبر میں منعقد ہوں گے ۔ بھٹو کے خلاف بننے والا پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) ٹوٹ چکا تھا اور ائیر مارشل اصغر خان اپنی تحریک استقلال کو لے کر سولو فلائٹ کر رہے تھے ۔ بہت سے شہری طبقات نے یقین کر لیا تھا کہ مستقبل ائیر مارشل اصغر خان کا ہے اور اُنہی کی جماعت نے حکومت بنانی ہے ۔ سیانے اور سمجھ دار لوگ جوق در جوق تحریک استقلال میں شامل ہو رہے تھے ۔ ان میں ایسے نام تھے جیسا کہ بلوچستان کے زیرک سیاستدان نواب اکبر بگٹی اور چوہدری اعتزاز احسن‘ جن کو کم عمری میں بھٹو صاحب نے ایم پی اے کی سیٹ دلوائی اور پھر پنجاب میں وزیر بنایا‘ لیکن 1977ء کی بھٹو مخالف تحریک میں اعتزاز احسن پیپلز پارٹی چھوڑ گئے اور بعد میں تحریک استقلال کے ممبر بن گئے ۔ لاہور کے ایک نوجوان محمد نواز شریف نے اپنا سیاسی سفر تحریک استقلال کی صفوں سے شرو ع کیا۔
تحریک استقلال والے اُس سال کے موسم گرما تک اتنے پرجوش ہو گئے تھے کہ پارٹی آئندہ کی حکمت عملی بنانے میں مصروف ہو گئی حتیٰ کہ آنے والی کابینہ کے ناموں پہ بھی غور شروع ہو گیا۔ جنرل ضیاء الحق کو سیاست کون سکھاتا ۔ اُنہوں نے بھی ائیر مارشل کا یقین پختہ کیا کہ آئندہ کے وزیر اعظم وہی ہیں ۔ اُنہیں ایران کے دورے پہ بھجوایا گیا‘ جہاں اُن کا خیر مقدم پورے شاہی پروٹوکول سے ہوا۔ اُن کے ہمراہ خورشید محمود قصوری تھے جن کو یقین تھا کہ آئندہ کے وزیر خارجہ وہ ہوں گے ۔ ایران میں تو بھرپور پروٹوکول ملا‘ لیکن جب ائیر مارشل وطن واپس لوٹے اور جنرل ضیاء الحق سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو اُن کو ٹالا گیا اور وقت نہ دیا گیا۔ ماہ اکتوبر کا قریب آنا تھا کہ جنرل ضیاء الحق نے انتخابات ملتوی کر دئیے، تمام سیاسی سرگرمیوں پہ پابندی عائد کر دی اور مارشل لا کے شکنجے سخت کر دئیے ۔ اُنہوں نے اعلان کیا کہ اسلام کا نفاذ پہلے ہو گا ، انتخابات کا پھر دیکھا جائے گا ۔ ائیر مارشل اصغر خان کو اُن کے ایبٹ آباد والے گھر میں نظر بند کر دیا گیا‘ جہاں وہ آئندہ پانچ سال رہے۔
میری زبان کٹ جائے اگر میں یہ کہوں کہ ایسا پھر ہونے والا ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ دور اور ہے، حالات اور ہیں لیکن انتخابات تو باقی ہیں اور ووٹ لے کے ہی کوئی اس پوزیشن میں ہو گا کہ مستقبل کو اپنے قبضے میں کرے ‘ لیکن پی ٹی آئی کا چہرہ دیکھا جائے تو گمان ہوتا ہے کہ باقی چیزیں صرف رسمی کارروائیاں ہیں اور اس میں اور آئندہ کی حکومت میں بس تھوڑا سا فاصلہ ہے۔
ایک کلیدی مسئلہ اب بھی وہی ہے جو 1979ء میں تھا ۔ اُس وقت پیپلز پارٹی کو اقتدار سے نہ صرف ہٹا دیا گیا تھا‘ بلکہ بھٹو کو تختہ دار تک پہنچا دیا گیا تھا۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی یہ تھی کہ پیپلز پارٹی مرنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اگر 1977ء میں نوے دن کے وعدے والے انتخابات ہوتے تو جرنیلوں کو خدشہ تھا کہ بھٹو پھر سے جیت جائے گا ‘ اسی لئے 1977ء کے انتخابات ملتوی کر دئیے گئے اور جنرل ضیاء الحق نے کہا تھا کہ انتخابات دو سال بعد اکتوبر 1979ء میں ہوں گے ۔ لیکن جوں جوں نئی تاریخ قریب آئی پھر خطرہ لاحق ہوا کہ تحریک استقلال اور دیگر فوج کی حمایتی جماعتیں نہیں جیت پائیں گی اور پھر سے پیپلز پارٹی کا ڈراؤنا سر انتخابی میدان میں اُبھر ے گا۔ ائیر مارشل کی کسی دُشمنی کی وجہ سے نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی ممکنہ جیت کی بنا پہ جنر ل ضیاء الحق نے بہتر یہی سمجھا کہ کسی رِسک یا ایڈونچر سے بچاجائے ۔ بدنامی مول لے لی لیکن خطرے کے حالات میں جہاں جان داؤ پہ لگی ہو‘ بدنامی کیا معنی رکھتی ہے۔
ایک اور بات بھی جنرل ضیاء الحق کے ذہن میں تھی ۔ وہ ائیر مارشل کو ضدی آدمی سمجھتے تھے اور مبینہ طور پہ اپنے رفقا سے کہہ چکے تھے کہ یہ 'پاگل‘ وزیر اعظم بن گیا تو اِس سے کون مَتھا لگاتا رہے گا۔
اب کی صورتحال زیادہ مختلف نہیں۔ نواز شریف اقتدار سے معزول ہوئے، سیاسی عہدہ رکھنے سے نااہل ہوئے ۔ اُن کی پارٹی زیر عتاب ہے۔ احتساب کی توپیں زیادہ تر اُنہی کی طرف مڑی ہوئی ہیں۔ مزید برآں اگر شہر کے لوگ ظالم ہیں تو نواز شریف کو بھی مرنے کا شوق ہے۔ شاید اسی لئے دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے اپنے پاؤں پہ ممبئی حملوں والا بم بھی دَے مارا ہے‘ جس کی بنا پہ وسیع حلقوں میں غداری کا سرٹیفکیٹ اُن کے خلاف جاری ہوا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پارٹی میں گہری دراڑیں پڑ جاتیں اور مستقبل کے نقشہ نویسوں کے لئے نواز شریف سیاسی خطرہ نہ رہتے ۔ لیکن ایسا ابھی تک نہیں ہوا ۔ فصلی بٹیرے جو آسودہ حالات میں نون لیگ کی چھتری تلے جمع ہوئے تھے‘ اَب اُسے چھوڑ کے جا رہے ہیں ۔ جنہوں نے بہت پینترے بدلے ایک اور چھلانگ لگا رہے ہیں ۔ لیکن نواز شریف کا کلیدی حلقہ (یعنی core constituency) ان نامساعد حالات میں بھی ساتھ کھڑا ہے۔ شمالی اور وسطی پنجاب میں اَب بھی تگڑے سیاسی کھلاڑی اُنہی کا ٹکٹ لے کے میدان میں اُتریں گے ۔ سیاسی انجینئرنگ نون لیگ کے خلاف ہو رہی ہے‘ لیکن ایسی مشقوں کا ایک حد تک ہی اَثر ہوتا ہے ۔ حب الوطنی اور غداری کی جو بحث ممبئی حملے والے بیان سے چھڑی ہے انتخابی مہم کی دھول اُٹھنے تک دھیمی پڑ جائے گی ۔ 'مودی کا یار‘ نعرہ تو رہے گا لیکن بحیثیت مجموعی پنجاب کے عوام نے اُسے گلے نہیں لگایا۔ لہٰذا یہ خطرہ یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ جب الیکشن کا میدان سجے گا نون لیگ بھرپور انداز سے اُس میں اُترے گی۔ یہ خطرہ کیا سیاسی انجینئرنگ کرنے والے مول لے سکتے ہیں؟ ضد والی بات کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے ۔ جیسے ائیر مارشل اصغر خان کو اُس گزرے ہوئے وقت میں ضدی سمجھا جاتا تھا‘ اُن عسکری حلقوں کی کمی نہیں جو خانِ اعظم کو بھی اُنہی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔
یہ ہے سوالیہ نشان آنے والے انتخابات پر۔ درج بالا خطرات متعلقہ ذہنوں میں رہے تو کیا انتخابات کا رِسک لیا جا سکے گا؟
مردم شماری کے بارے میں جو فیصلہ ہوا تھا کہ پانچ فیصد ووٹنگ بلاک کا آڈٹ کرایا جائے گا‘ اُس سے حکومت دست بردار ہو گئی ہے۔ اِس نکتے پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے کہ الیکشن مشق کو مشکوک سمجھا جائے گا‘ جب تک کہ مردم شماری کے تمام ضروری لوازمات پورے نہیں کیے جاتے ۔ کون کافر ہے جو پیش گوئی کرے کہ ایسی پٹیشنوں پہ فیصلہ کیا ہو گا۔ لیکن اتنا تو ذہنوں میں رہنا چاہیے کہ اگر کچھ کر گزرنا ہو تو جواز موجود ہو گا۔ اگر ایسے ہوتا ہے تو معاملہ کہیں سے کہیں جا سکتا ہے۔