ایک گرمی اُوپر سے گناہ معاف کرانے اور ثواب کمانے کا مہینہ۔ آدمی ویسے ہی ہلکان ہو جاتا ہے۔ سیاست میں بھی وہی چند موضوعات جن کو سن سن کے کان پک گئے ہیں۔ نواز شریف کے خلاف ایون فیلڈ فلیٹوں کا ریفرنس اَب اُکتاہٹ پیدا کر رہا ہے۔ یہ کیس پہلے ہی بہت لمبا ہو گیا ہے۔ جج صاحب نے عندیہ دیا تھا کہ سپریم کورٹ سے کچھ اور وقت کی مہلت مانگیں گے۔ ایسا ہوا تو بوریت اور طاری ہو جائے گی۔
نواز شریف کا رونا پیٹنا بھی بہت لمبا ہو گیا۔ بس دو تین چیزیں دہرائے جا رہے ہیں۔ آخر ایک ہی چیز کو کتنا زیادہ سُنا جا سکتا ہے۔ عمران خان کی باتیں بھی گھسے پٹے ریکارڈ کی طرح ہیں۔ وہی کرپشن کی داستانیں اور اِس یقین کا اظہار کہ ہم آئیں گے تو پتہ نہیں کون سا انقلا ب برپا ہو جائے گا۔
اِس دَم گھٹنے والے ماحول میں کوئی دلچسپی کا پہلو سامنے آیا ہے تو وہ ریحام خان کی کتاب کے حوالے سے پی ٹی آئی کا قبل از وقت توپ خانہ ہے۔ کتاب شائع ہوئی نہیں اور پی ٹی آئی والے جنجال میں پڑ گئے ہیں۔ عقل ساتھ دیتی تو اتنی قبل از وقت گولہ باری کی ضرورت نہ تھی۔ پی ٹی آئی کی جھنجھلاہٹ نے کتاب میں زیادہ دلچسپی پیدا کر دی ہے۔ جب چھپے گی اور بک سٹالوں پہ آئے گی تو ہاتھوں ہاتھ کاپیاں بکتی جائیں گی اور دوسرے ایڈیشن کی جلد تیاری کا اہتمام کرنا پڑے گا۔
سابقہ بیویوں کے لگائے گئے الزامات یا اُن کی طرف سے آئے ہوئے انکشافات کا ایک ہی دفاع ہوتا ہے کہ زخم شدہ اور ٹھکرائی ہوئی عورت سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں۔ ہماری دوست تہمینہ دُرانی نے مائی فیوڈل لارڈ لکھی تو ملک غلام مصطفی کھر نے ایک لفظ بھی جواب میں نہ کہا گُو کہ کتاب اُن کے بیڈ روم کے کارناموں سے بھری ہوئی تھی۔
میں تو اگلے روز حیران ہو گیا جب کاشف عباسی کے شو میں دو پی ٹی آئی کے حمایتی ایک ایکٹر حمزہ عباسی اور دوسرے گلوکار سلمان احمد آئے۔ صفائیاں پیش کر رہے تھے اور ریحام خان کے کریکٹر کو نشانۂ تنقید بنا رہے تھے۔ جب عورت بپھر جائے اور بدلہ لینے کے راستے پہ چل پڑے تو اُسے اور کسی چیز کی پروا نہیں ہوتی۔ مزید بدنامی اُس کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اُس کے لئے اس سے بڑا تسکین کا پہلو نہیں ہو سکتا کہ اُس کے ہر الزام کا جواب دیا جائے۔ وہ تو یہی چاہتی ہے کہ جو اُس نے کہا منظر عام پہ رہے اور اُس کی پبلسٹی ہوتی رہے۔
اِس ٹی وی شو سے ہی پتہ چلا کہ کتاب میں حمزہ عباسی اور وسیم اکرم پہ کیا الزامات لگائے گئے ہیں۔ حمزہ خوبرُو جوان ہیں اور اُس کے بات کرنے کے انداز سے پتہ چلتا ہے کہ ذہین آدمی ہے۔ اُس سے کوئی پوچھے کہ ایسی باتوں کا جواب دیا جاتا ہے؟ جو جواب بھی آپ دیں ہمدردی دکھانے کی بجائے لوگوں نے آپ پہ ہنسنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ہم جنس تعلقات کو ایک خاص نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کسی زاویے سے بھی آپ محفل میں اس موضوع کو چھیڑیں تو لوگوں کے لبوں پہ مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ اَب کوئی الزام لگائے کہ آپ اچھی شکل والے ہیں اور فلاں کی نظر آپ پہ ہے تو لوگ ہنس پڑتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اس موضوع پہ سنجیدہ گفتگو ہو ہی نہیں سکتی تو حمزہ عباسی کو کس نے کہا کہ وہ صفائیاں پیش کرتا پھرے۔
جو میں اندازہ لگا سکا کہ وسیم اکرم کے بار ے میں کیا الزام ہے وہ تو اتنا گھٹیا نوعیت کا ہے کہ اُس پہ کوئی جواب دینا بھی نہیں بنتا سوائے اِس کے کہ ریحام خان کو اللہ ہدایت دے۔ سلمان احمد اور لمبی صفائیاں دے رہا تھا کہ ریحام کو کیسے پیسے کی لالچ تھی اور کہاں کہاں ہاتھ مارتی تھی۔ یہ بات تو سب سچ ہو گی لیکن ایسی عورت سے شادی کا فیصلہ تو خود خان صاحب نے کیا۔ جب ایسی حرکت آپ کرتے ہیں تو برائی میں آپ کا بھی حصہ بن جاتا ہے۔
اِسی طرح ریحام خان سے پوچھا جا سکتا تھا کہ بنی گالہ کا ماحول اِتنا خراب تھا تو تم خود وہاں سے چلی کیوں نہ گئیں؟ ریحام خان انگلینڈ گئیں اور خان صاحب نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے طلاق بھیج دی۔ اِس چیز کی اُسے توقع نہ تھی اور وہ بپھر گئی۔ جواب تو پی ٹی آئی کا ایک ہی بنتا تھا، انگریزی شاعر کے مشہورِ زمانہ الفاظ میں: ''Hell hath no fury like a woman scorned‘‘۔ یعنی جہنم میں بھی دُھتکاری ہوئی عورت سے زیادہ کوئی وِحشی بلا نہیں۔ فواد چوہدری یا کوئی اور ٹی وی پہ آتے ہلکی سی مسکراہٹ دیتے اور یہ جملہ کہہ دیتے ، وہ کافی ہوتا۔ یہ تو بچگانہ کارروائیاں ہیں کہ فیصل آباد یا کسی اور شہر میں دیوانی دعوے دائر ہو رہے ہوں کہ کتاب کی اشاعت کو روکا جائے ۔ اِس سے تو کتاب کو مزید آکسیجن ملے گی۔
پی ٹی آئی کو ڈر ایک اور چیز سے لگنا چاہیے کہ انگریزی کتاب کا کہیں اُردو ترجمہ نہ ہو جائے ۔ انگریزی پڑھنے والے تھوڑے ہیں ۔ بڑی مارکیٹ تو اُردو دَانوں کی ہے ۔ ایسی باتوں پہ ہمارے لوگ چسکا لیتے ہیں ۔ اُردو میں یہ کتاب آئی تو مرچ مصالحے کا سامان بہت مہیا ہو گا۔
حمزہ عباسی کی دلیری کی میں داد دیتا ہوں ۔ اُسی ٹی وی شو میں جس کا میں نے ذکر کیا ہے اُنہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ کتاب میں یہ لکھا ہے کہ مراد سعید اور میری یعنی حمزہ عباسی کی اچھی شکلیں ہیں تو شاید کسی کی نظر اُن پہ بھی تھی۔ کوئی شو دیکھنے والا سمجھ جاتا کہ اشارہ کس طرف ہے۔ اگلے روز مجھے کسی نے ایک فوٹو دکھائی جو انٹرنیٹ پہ گھوم رہی ہے۔ خان صاحب پورے جاہ و جلال میں موٹر سائیکل پہ بیٹھے ہیں اور آگے اُن کے چھوٹا سا حمزہ عباسی بیٹھا ہے ۔ دیکھتے ہی میری ہنسی چھوٹ گئی ۔ ایسی باتوں کا آپ کیا جواب دے سکتے ہیں ۔ جواب دینا تو متذکرہ حرکت کو مزید ہوا دینا ہے۔ اَبھی کتاب آئی نہیں تو یہ حالت ہے ۔ جب مارکیٹ میں آ جائے گی تو پھر کیا طوفان برپا ہو گا۔ لہٰذا پی ٹی آئی کو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اِس معاملے میں ہاتھ ہُولا رکھیں اور حتی الوسع سارے معاملے کو ignore کرنے کی کوشش کریں ۔ زیادہ کچھ کرنا ہو تو انگریزی شاعر کے اُوپر درج الفاظ ادا کر دیں ۔ ریحام خان سے ہمدردی کا اظہار بھی کریں کہ خان صاحب سے جدائی کا اُنہیں بڑا دُکھ ہوا ہو گا‘ اِسی لئے کتاب کی شکل میں اُن کا اتنا سخت ردِ عمل آیا ہے ۔ اِس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا مہلک ثابت ہو سکتا ہے ۔ رانا ثناء اللہ جیسوں کو اللہ اور کیا دے ۔ اِدھر الیکشن مہم جاری ہو اُدھر ہر روز کتاب سے ایک جملہ نکال کے فقط یہ کہہ دیا جائے کہ خان صاحب سے ہمیں یہ اُمید نہ تھی۔ اِسی کا جواب پھر پی ٹی آئی والے دیتے پھریں گے۔
انڈونیشیا کے پہلے صدر احمد سکارنو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امریکی سی آئی اے نے اُن کے بیڈ روم پہ مبنی خفیہ فلم بنائی اور پھر موقعہ پا کے صدر صاحب کو دکھائی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جہاں مناظر زیادہ گرما گرم ہوتے صدر صاحب کہتے ذرا رُکو پھر سے دکھاؤ ۔ صدر صاحب تو پریشان نہ ہوئے لیکن امریکی شرمندہ ہو کے رہ گئے ۔ یونان کے وزیر اعظم اندریاس پاپاندریو تھے۔ 86 سال کی عمر میں اپنی پہلی بیوی کو طلاق دی اور ایک 36 سالہ حسینہ سے شادی رَچا لی۔ یونان بھی عاشق مزاج لوگوں کا ملک ہے ۔ بجائے بُرا منانے کے عوام الناس نے وزیر اعظم کو داد دی کہ ہمت والے انسان ہیں ۔ اٹلی کے سابق وزیر اعظم سلویو برلسکونی نے اپنے ایام اقتدار میں کیا مزے نہیں لوٹے ۔ جواں عمر دوشیزاؤں کو کہاں کہاں سے ڈھونڈ کے اُن کی پارٹیوں کیلئے مدعو نہ کیا جاتا۔ تمام سکینڈلز میڈیا کی زینت بنے ۔ اقتدار سے معزول ہو گئے اور اُنہیں سزا بھی ملی ۔ لیکن اُن کی پارٹی اب بھی اطالوی سیاست میں اپنا مقام رکھتی ہے ۔ پرانے سکینڈلز بھول کے اطالوی عوام برلسکونی کو پھر ایک لیڈر کے طور پہ دیکھتی ہے۔
مانا کہ پاکستان نہ اٹلی ہے نہ یونان، پھر بھی پی ٹی آئی والے دیکھ لیں کہ اس مسئلے کو اُنہیں کتنا سنجیدہ لینا چاہیے۔