ہونا تو یوں چاہیے تھا کہ جماعتِ تبدیلی و انقلاب اپنے زور پہ انتخابی میدان میں اُوپر آتی۔ زور اپنا بھی تھا اور غیبی قوتوں کی بھرپور مدد بھی تھی۔ جب اکھاڑے میں ایسا ہو جائے تو دَنگل کا آدھا مزہ تو چلا جاتا ہے۔ یہی اس الیکشن موسم میں ہو رہا ہے۔
دوسری طرف نون لیگ کو اپنے کرتوتوں کی وجہ سے مار پڑنی چاہیے تھی۔ یقینا کرتوتوں میں کمی نہ تھی‘ لیکن اُنہی غیبی قوتوں کی طرف سے اُس کی نہ صرف ایک ٹانگ بلکہ دونوں ٹانگیں کھینچی جا رہی ہیں۔ مزہ تو تب آتا کہ نون لیگ چاروں شانے چت معروضی اسباب سے ہوتی‘ لیکن یہاں مسئلہ کچھ اور ہے۔ کچھ کرتوتوں کی مار ہے تو کچھ نیب کی۔ اُوپر سے بھرپور حرکات غیبی قوتوں کی۔
نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ اِس سے زیادہ بدمزہ الیکشن کا تصور محال ہے۔ نہ کوئی ڈھنگ کی بات نہ کوئی مزے کا تکرار۔ وہی گھٹیا قسم کے الزامات اور اگر دلچسپی پیدا ہو رہی ہے تو کچھ ریحام خان اور کچھ ہمارے چکوال کے پڑوسی چوہدری نثار کی وجہ سے۔ پڑوسی اس لئے کہا کہ اُن کا حلقہ اور گاؤں 'چکری‘ چکوال کے بارڈر پہ ہیں۔ چوہدری نثار کو بھی داد دینی چاہیے۔ جب تک شریفوں نے اُنہیں اہمیت دی اور راولپنڈی ڈویژن پورے کا پورا اُن کے حوالے کئے رکھا تو وہ نہ صرف ٹھیک بلکہ بالکل خوش و خرم بھی رہے۔ اُن کا اشارہ کرنا ہوتا تھا اور میاں شہباز شریف کی پنجاب گورنمنٹ اُن کی ہر خواہش پوری کرنے دوڑ پڑتی تھی۔ میاں نواز شریف نے اُنہیں کچھ فاصلے پہ رکھنا شروع کیا تو چوہدری نثار کا نازک مزاج یہ برداشت نہ کر سکا۔ اُنہوں نے اَب عَلم بغاوت اٹھا لیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اُنہوں نے اپنے آپ کو نون لیگ کے بانیوں میں سے ظاہر کرنا شروع کر دیا ہے۔
اس لحاظ سے چوہدری نثار نون لیگ کی ایک نئی تاریخ رَقم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نواز شریف کا چناؤ بطور لیڈر کسی چوہدری نثار یا اُن جیسوں نے نہیں کیا تھا۔ یہ تب کے جرنیلوں کا فیصلہ تھا جن کے حسنِ انتخاب کے نتیجے میں نواز شریف کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ چنا گیا۔ محمد خان جونیجو وزیر اعظم اور پنجاب کے منصب دار نواز شریف تھے۔ چوہدری نثار نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز نواز شریف کی تابعداری سے کیا۔ اب اگر اپنے آپ کو کچھ اور بنا کے پیش کرنا چاہتے ہیں تو یہ اُن کی اَدا اور مرضی‘ لیکن اِس حقیقت کو جھٹلانا مشکل ہے کہ اگر چوہدری نثار میاں نواز شریف کی سیاسی تابعداری نہ کرتے تو وہ سیاسی منزلیں طے نہ کر پاتے جو اُنہوں نے طے کیں۔ بہرحال یہ اُن کا اور نون لیگ کا اندرونی مسئلہ ہے۔ نواز شریف مشکل میں ہیں اور چوہدری نثار اُن پہ مرچیں چھڑک رہے ہیں۔
یہ چیزیں اور ایسی حرکات ہماری سیاست میں دلچسپی کا باعث بنتی ہیں۔ اب دیکھ لیں کہ پچھلے دنوں ہمارے دوست جنرل فیض‘ جو حاضر سروس جرنیل ہیں اور اہم ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں‘ کے بہنوئی کی افسوسناک وفات ہوئی۔ افسوس کیلئے میں بھی دوسرے دن اُن کے گاؤں لطیفال گیا۔ ہماری جنرل فیض سے علیک سلیک ہے اور تب کی ہے جب وہ بریگیڈیئر تھے اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے نیچے 10 کور (Corps) راولپنڈی میں تعنیات تھے‘ لیکن اُس سے زیادہ اہم بات یہ کہ لطیفال سے ہمارا پرانا سیاسی تعلق ہے۔ 1951ء کے پنجاب الیکشن میں جب میرے والد صاحب کھڑے ہوئے تو اُنہیں لطیفال کے مشہور چوہدری زمرد خان کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اس لحاظ سے تو ہمارا رشتہ 60-70 سال پرانا ہے۔ قل تیسرے دن تھا اور جو حضرات اس موقع پہ وہاں تشریف لائے اُن میں نمایاں تھے شیخ رشید احمد ، رضا حیات ہراج، مخدوم خسرو بختیار، عزیزم مونس الٰہی وغیرہ وغیرہ۔ اِن حضرات سے پوچھا جائے کہ آپ کس ناتے وہاں پہنچے ہوئے تھے؟ عزیزم مونس الہٰی نے تو یہاں تک کہا کہ 'ماموں جان‘ سے ملنا ہے ۔ اُن کا اشارہ مرحوم کے عمر رسیدہ والد صاحب کی طرف تھا۔ نہ جان نہ پہچان لیکن ماموں جان سے ملنے کی بیتابی تھی۔ پھر اندر جا کے اُن سے ملے بھی۔
اس ساری صورتحال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جن حضراتِ گرامی کو ضلع چکوال کے جغرافیہ سے بخوبی آگاہی نہیں ہو سکتی تھی اُنہوں نے بھی لطیفال کا راستہ ڈھونڈ نکالا۔ گو میں اس ذکر میں تھوڑے مبالغے سے کام لے رہا ہوں کیونکہ جنرل اشفاق ندیم کی وجہ سے جونیا انٹرچینج نیلہ دلہہ کھلا ہے‘ وہاں سے لطیفال پندرہ بیس منٹ کی مسافت پہ ہے۔ لطیفال کو ڈھونڈنا اتنا بھی مشکل نہیں جتنا شاید میں نے تاثر دیا ہے‘ لیکن پہلا سوال اپنی جگہ قائم ہے: رحیم یارخان کے خسرو بختیاروں اور خانیوال کے رضا ہراجوں میں لطیفال کی تڑپ کہاں سے پیدا ہوئی۔
اس موقع پہ میں اپنے دیرینہ دوست الحاج غلام عباس کو مبارکباد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا‘ جو آخرکار پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی کا ٹکٹ حلقہ این اے 64 سے لینے میں کامیاب ہو گئے۔ الحاج منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور اُن کا سیاسی سفر دلچسپیوں سے خالی نہیں۔ وہ پیپلز پارٹی میں رہے اور جناب منظور وَٹو کی کابینہ میں وزیر بنے۔ پیپلز پارٹی پہ تھوڑے برے دن آئے تو اُسے چھوڑ گئے۔ جنرل مشرف کے دور میں اُن کے منظورِ نظر ضلع ناظموں میں گِنے جاتے تھے اور اُس ناتے چوہدری پرویز الٰہی کے بہت قریب آ گئے تھے۔ 2008ء کے الیکشن میں اُن کے بھائی صاحب سائیکل کے نشان پہ‘ جو کہ قاف لیگ کا نشان تھا‘ قومی اسمبلی کے اُمیدوار ہوئے‘ لیکن افسوس کہ ناکام رہے۔ الحاج پھر پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔ نامعلوم وجوہ کی بنا پہ پی ٹی آئی کو اچانک خیرباد کہہ گئے اور کچھ عرصہ اُن کا کاروان بے سمت سیاسی صحراؤں میں چلتا رہا۔ پھر الحاج نے دوستوں اور ناقدین‘ دونوں کو حیران کر دیا‘ جب نون لیگ میں آن دھمکے۔ جب نون لیگ پہ بُرے دن آئے تو الحاج نے ایک سے زیادہ بار اعلان فرمایا کہ ہم نون لیگ میں چٹان کی طرح کھڑے ہیں‘ لیکن سیاسی مجبوری کی بھی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ ایک اور پلٹا لیتے ہوئے الحاج نے پھر پی ٹی آئی کا رخ کیا اور ٹکٹ لینے میں کامیاب ہو گئے۔ مبارکباد کے مستحق صرف وہ نہیں بلکہ پی ٹی آئی بھی ہے۔ اُس نے بھی کسی آنے والے کو ''ناں‘‘ نہیں کی۔
چکوال میں مقابلہ دلچسپ ہو گا۔ ایک طرف الحاج اور پی ٹی آئی، دوسری طرف نون لیگ کے رکھوالے جو ماسوائے ایک سابق ایم پی اے، نوجوان سلطان حیدر، کے سارے کے سارے مشرف دور میں سکہ بند قاف لیگیے تھے۔ اِن میں سے بہتوں کو نون لیگ میں لانے کا ثواب میرے سر ہے۔ لہٰذا دیکھا جائے تو چکوال میں آنے والا معرکہ مرحومہ قاف لیگ کے حصوں میں ہو گا: قاف لیگ پی ٹی آئی برانڈ جس کی قیادت الحاج کر رہے ہیں اور قاف لیگ نون لیگ برانڈ جو کہ اَب نون لیگ کے رکھوالوں پہ مشتمل ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی خود بھی چکوال سے الیکشن لڑ رہے ہیں‘ اور اُن کی ایڈجسٹمنٹ پی ٹی آئی سے ہو چکی ہے۔ پی ٹی آئی تلہ گنگ میں اُن کے خلاف کسی کو ٹکٹ نہیں دے رہی۔ چوہدری پرویز الٰہی کے نیچے ایک صوبائی سیٹ پر اُن کا معتمد خاص حافظ عمار یاسر ہے اور دوسری سیٹ پہ جنابِ الحاج کے بھتیجے ہیں جو پہلی بار اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ گو مشرف دور میں قاف لیگ کی طرف سے تحصیل ناظم رہ چکے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کو خوش ہونا چاہیے، چاروں طرف قاف لیگ کے لگائے درخت ہیں‘ گو اَب کچھ پہ جھنڈا نون لیگ کا اور کچھ پہ پی ٹی آئی کا ہے۔
شاید نئے پاکستان کی شروعات چکوال سے ہی ہوں۔