دونوں بڑی جماعتوں کی حرکتیں دیکھی جائیں تو اِن میں سے کوئی بھی حکومت کے قابل نہیں ۔ اِس ملک کی قسمت کے ساتھ جو حشر برپا نون لیگ نے کیا وہ ہم جانتے ہیں ۔ اِن کے کچھ کرتوت سامنے آ چکے ہیں ، کچھ سے پردہ اُٹھ رہا ہے ۔ لیکن اگر پی ٹی آئی کو دیکھا جائے اور خاص طور پہ ٹکٹوں کے معاملے میں اِس کی کارگزاری پہ نظر ڈالیں تو گمان غالب ہوتا ہے کہ یہ بھی ایک نکھٹوؤں کا جمگٹھا ہے۔
کرکٹ کے میدان میں عمران خان بڑے کپتان رہے ہوں گے۔ سیاسی احتجاج کرنے کا بھی اِن کا کوئی ثانی نہیں ۔ لیکن سیاست کا درس پتہ نہیںکس درس گاہ سے سیکھا ہے ۔ ایک فیصلہ کرتے ہیں اور پھر شام کو پتہ چلتا ہے کہ اُس پہ نظر ثانی ہو گئی ۔ کئی مہینوں سے شور سُن رہے تھے کہ پی ٹی آئی نے ٹکٹوں کا صحیح فیصلہ کرنا ہے ۔ ہر جگہ تو نہیں لیکن کئی اضلاع میں پی ٹی آئی تماشے ہی برپا کر رہی ہے۔
دیگر ضلعوں کا ذکر اخباروں میں آتا رہا ہے ۔ ہمارے دوست خالد مسعود نے ملتان کی سیاسی صورتحال اور ٹکٹوں کے بارے میں مفصّل اور معلومات سے بھرے کالم لکھے ہیں ۔ شاہ محمود قریشی کی قابلیت اور اہلیت پہ بھی خوب روشنی ڈالی ہے ۔ لیکن کچھ ذِکر چکوال کا بھی ہو جائے ۔ پی ٹی آئی کے ساتھ جو پرانے اُمیدوار لگے ہوئے تھے اور جنہوں نے سالہا سال جھنڈے اُٹھائے ، خرچے کئے اور دھرنوںکی رونق بنے ، اُن سے پی ٹی آئی نے خوب حساب لیا اور اُن کی بھرپور بے عزتی کا اہتمام کیا۔
لوٹے تو چکوال میں اور بھی بہت ہیں لیکن اگر کسی ایک شخص نے پارٹیاں بدلنے میں ڈاکٹریٹ کی ہے تو وہ ہمارے دوست الحاج غلام عباس ہیں۔ کوئی پارٹی نہیں چھوڑی ، ہر گھاٹ کا پانی پیا ۔ پی ٹی آئی میں بھی گئے اور پھر چھوڑ گئے‘ لیکن عین ٹکٹوں کے موقع پہ پی ٹی آئی میں پھر آن گھسے اور پی ٹی آئی نے بھی اُن کا خوب خیر مقدم کیا اور قومی اسمبلی کا ٹکٹ این اے 64 اُن کو عطا ہو گیا۔ یہی نہیں بلکہ اُن کے بھتیجے آفتاب اکبر کو پی پی 23 سے صوبائی ٹکٹ بھی دے دیا ۔ سب سمجھ رہے تھے کہ الحاج کا کام پکا ہو گیا اور اُن کی دیرینہ خواہش کہ وہ قومی اسمبلی میں جائیں اس بار پوری ہونے والی ہے ۔ لیکن ہوا یوں کہ دو منچلے وکلا قاضی عمر اور ملک زعفران نے اُن کے کاغذات پہ اعتراضات کر دئیے ۔ ریٹرننگ آفیسر چکوال اعتراضات کو خاطر میں نہ لائے اور الحاج کے کاغذات نامزدگی قبول کر لئے ۔ دونوں نوجوان وکلا ہائی کورٹ اپیلنٹ ٹربیونل چلے گئے اور وہاں الحاج کے کاغذات مسترد ہو گئے۔
اُس دن شاہد خاقان عباسی اور فواد چوہدری کے بھی کاغذات مسترد ہوئے۔ اپیلنٹ ٹربیونل کے جج جناب عبادالرحمان لودھی صاحب تھے۔ دوسرے دن یعنی گزری ہوئی جمعرات کو متاثرہ اُمیدوار فیصلوں کے خلاف اپیل کرنے لاہور پہنچے ۔ فواد چوہدری کے کاغذات بحال ہو گئے لیکن ہمارے الحاج غلام عباس کے بارے میں مبہم اطلاعات آئیں ۔ اُن کے ساتھی پروپیگنڈا کے ماہر ہیں۔ اُنہوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ غلام عباس کو سٹے آرڈر مل گیا ہے اور وہ تحریک انصاف کا ٹکٹ ریٹرننگ آفیسر کے سامنے جمع کرا دیں گے ۔ لیکن کوئی تحریر شدہ آرڈر سامنے نہ آیا۔ جمعرات کے روز پورا دن یہ بحث چھڑی رہی کہ غلام عباس اہل ہو گئے ہیں یا بدستور جسٹس عبادالرحمان لودھی کے فیصلے کی روشنی میں نااہل ہیں۔
یہ گو مگو کی کیفیت جاری تھی کہ خبریں آنے لگیں کہ پی ٹی آئی کو این اے 64 میں ممکنہ خطرے کے پیش نظر کسی اور گھوڑے کی تلاش ہے ۔ نون لیگ کا ایک صوبائی اُمیدوار ذوالفقار دُلہہ‘ جو پچھلی اسمبلی میں ایم پی اے رہ چکے ہیں‘ کو پی پی 23 سے نون لیگ کا ٹکٹ مل چکا تھا‘ لیکن ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے اپنے کاغذات این اے 64 میں بھی داخل کرائے ہوئے تھے ۔ جمعرات کے روز ہی ذوالفقار دلہہ سے پی ٹی آئی کے رابطے ہو گئے اور شام تک یہ خبر گردش کرنے لگی کہ دُلہہ کو این اے 64 سے پی ٹی آئی کا ٹکٹ ملنے والا ہے۔ یہی ہوا اور اَب وہ باقاعدہ نون لیگ سے منتقل ہو کے پی ٹی آئی کے اُمیدوار بن چکے ہیں۔ یہ ہے پاکستانی سیاست کا حال اور یہی ہے پارٹیوں اور لیڈروں کا حال ۔ دین ایمان تو دور کی بات ہے، تھوڑی سی شرم و حیا بھی ڈھونڈنا مشکل ہے ۔
پی ٹی آئی کی مجبوری البتہ سمجھنی چاہیے ۔ غلام عباس جب نااہل ہوئے تو اُن کے کورنگ امیدوار اُن کے بھتیجے بھی نااہل ٹھہرے۔ مطلب یہ کہ این اے 64 میں پی ٹی آئی کا کوئی اُمیدوار نہ رہا ۔ غلام عباس سٹے آرڈر لینے میں بھی ناکام رہے اور اُن کا نام فہرستِ اُمیدواران سے نکل چکا تھا ۔ پی ٹی آئی نے کسی کو تو میدان میں اُتارنا تھا۔ جو گھوڑا میسر آیا‘ اُسی کو اپنا امیدوار بنا لیا ۔ ذوالفقار دُلہہ کی بھی مجبوری تھی کہ پی پی 23 سے بطور نون لیگی اُمیدوار اُن کے حالات کچھ اَچھے نہ تھے ۔ پی ٹی آئی کو ایک امیدوار اور ذوالفقار دُلہہ کو ایک نیا محفوظ مسکن درکار تھا۔
دُلہہ مین پاور ایکسپورٹر ہے ۔ اِس لحاظ سے یوں سمجھیے کہ چکوال کا علیم خان ہے ۔ الیکشن میں خاطر خواہ رقم جھونکنا اُس کے لئے کوئی مسئلہ نہیں۔
نون لیگی اُمیدوار کو دیکھا جائے تو سبحان اللہ کہنے کو جی چاہتا ہے۔ میجر طاہر اقبال قاف لیگ کے گریجویٹ ہیں‘ اور وہاں سے نون لیگ میں آئے۔ ایک پائنچہ اُوپر ایک نیچے اور پکے تبلیغی ہیں۔ وقت بے وقت تبلیغ ہی کرتے رہتے ہیں ۔ اِس الیکشن میں لوگ اُن سے خاصے اُکتائے ہوئے لگتے تھے لیکن جس کی لاٹری نکلنی ہو اُسے کون روک سکتا ہے ۔ جس اُمیدوار سے اُن کو خطرہ تھا وہ نااہلی کی بھینٹ چڑھ گیا ۔ اَب ایک طرف ذوالفقار دُلہہ کا اے ٹی ایم ہو گا اور دوسری طرف میجر طاہر اقبال کی اُکتاہٹ پیدا کرنے والی کرشماتی شخصیت ، ایک پائنچہ اُوپر ایک نیچے۔
پاکستان میں تبدیلی کپتان کے طفیل آئے گی یا نہیں لیکن پی پی 23 میں تبدیلی آ گئی ہے ۔ نون لیگ کا اُمیدوار تو بھاگ گیا اور پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی کا اُمیدوار بن گیا۔پی پی 23 پر پی ٹی آئی کا امیدوار الحاج کا بھتیجا تھا لیکن ایک دن کے لئے ان کا ٹکٹ رولے میں پڑ گیا اور اسلام آباد سے اختر شہباز کو بلاوا آگیا کہ ٹکٹ آپ کے حق میں ہوگیا ہے اور آپ آ کر لے جائیے۔ اختر اسلام آباد تو پہنچ گیا لیکن پھر اسے انتظار کرنے کا کہا گیا ۔ اس سے یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ شاید بھتیجے آفتاب اکبر ہی کے پاس ٹکٹ رہے ۔ لکی ایرانی سرکس چکوال بھی آتا رہا ہے لیکن جو مزہ اس بار ٹکٹوں کی تقسیم در تقسیم سے چکوال کے عوام کو ملا، بڑے سے بڑا سرکس بھی یہ لطف نہیں پیدا کر سکتا۔ لیکن اِس ساری صورتحال میں سب سے نمایاں چیز الحاج غلام عباس سے ہونے والی زیادتی ہے ۔ زیادتی ہوئی بھی تو کسی شخص کے ہاتھوں نہیں بلکہ اپنی قسمت کی بدولت ۔ اثاثے کیا چھپانے تھے‘ جس لائق وکیل نے اُن کے کاغذاتِ نامزدگی بھرے، وہی عقل استعمال نہ کر سکا۔ اثاثوں میں دو سو گائے اور بھینسیں لکھ ڈالیں جبکہ ایسی تحریر کی ضرورت نہ تھی ۔ اِن دو سو مویشیوں کی آمدن بھی نہ لکھ سکے اور جب جسٹس لودھی صاحب نے پوچھا کہ اتنا دودھ کہاں استعمال ہوتا ہے تو وہاں کھڑے سیانے قانون دان نے کہا کہ ذاتی استعمال کیلئے۔ یہ داستان کوئی سُنے تو ہنسی ہی آتی ہے ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ الحاج کا دیرینہ خواب کہ وہ قومی اسمبلی میں جائیں، اِن فرضی بھینسوں اور گائیوں کے ہاتھوں برباد ہوا ۔ پارٹی بدلنے کا ایک ریکارڈ قائم کیا اور پھر پی ٹی آئی کا ٹکٹ حاصل کرنے کے بعد ٹھوکر کیا لگی، آسمان سے بجلی گری۔ اُن سے ہمدردی ہی کی جا سکتی ہے۔
الیکشن دلچسپ ہو گا ۔ پی ٹی آئی کی حالت اچھی نہیں لیکن نون لیگ کے حالات بھی پَتلے ہیں۔ دیکھتے ہیں آگے ہوتا ہے کیا۔