بھاری مینڈیٹ یا واضح اکثریت تو دور کی بات ہے ۔ لگتا نہیں کہ اِن شاہسواروں میں سے کسی ایک کو سادہ اکثریت بھی مل سکے ۔ ایسا ہوا تو فیصلہ کن کردار انہی قوتوں کا ہو گا جو سیاسی منظر نامے پہ پچھلے دو سال سے حاوی ہیں۔
کسی ایک کی بھی شکل ایسی نہیں جس سے اعتماد پھوٹ سکے۔ سارے کے سارے تھکے ماندے شاہسوار لگتے ہیں۔ نون لیگ کئی بوجھوں کے تلے دَبی ہوئی ہے۔ اُس کی اُٹھان ہی وہ نہیں رہی جو اِن نا مساعد حالات میں ہونی چاہیے تھی ۔ جن سے کچھ دھاڑ آ رہی تھی وہ اڈیالہ جیل میں پڑے ہیں۔ شہباز شریف تو مردِ ریگل چوک نکلے ۔ جب بڑے بھائی صاحب لندن سے آ رہے تھے تو دورِ سابقہ کے خادمِ اعلیٰ ریگل چوک سے آگے نہ جا سکے ۔ گتے کے شیروں کی آواز وہیں تک محدود رہی اور جو بے وقوف ائیر پورٹ کے نزدیک پہنچنے میں کامیاب ہوئے اُنہیں با آسانی پنجاب پولیس نے منتشر کر دیا۔ حمزہ شہباز بھی بغیر زبان استعمال کیے لاہور میں بیٹھے ہیں۔ نون لیگ کی انتخابی مہم حالات اور اُمیدواروں کی اپنی تگ و دو تک محدود ہو کے رہ گئی ہے۔
آثار بتاتے ہیں کہ 2013ء کے مقابلے میں پیپلز پارٹی پنجاب میں اِکا دُکا سیٹیں لینے میں کامیاب ہو جائے گی۔ باقی پیپلز پارٹی سندھ میں کچھ بچانے کے قابل رہی تو وہ اِس کی بڑی کامیابی سمجھی جائے گی ۔ آصف علی زرداری تو اپنے قلعہ بلاول ہاؤس میں بند ہیں۔ اُن کی سکیورٹی صدر ٹرمپ اور صدر پیوٹن سے زیادہ ہے ۔ پتہ نہیں کس خوف کے مارے ہیں ۔ ہلکا سا جھٹکا اُنہیں لگا تھا جب یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ ایف آئی اے نے خفیہ بینک اکاؤنٹوں کا سراغ لگا لیا ہے‘ جن کے ذریعے بھاری رقوم منی لانڈرنگ کی نذر ہوئیں۔ جن اکاؤنٹس کی فہرستیں میڈیا میں آئیں اُن میںاُن لوگوں کی کمپنیوں کا نام بھی تھا جو آصف علی زرداری کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ جھٹکے پہ ہی اکتفا کیا گیا اور اُس کے بعد اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی‘ لیکن اُن سے زیادہ کون جانے کہ وہ اپنے کیے اور حالات کے یرغمال ہیں۔ زیادہ کچھ کر نہیں سکتے۔ زیادہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔ ایک دفعہ کہنے کی کوشش کی‘ جب فوج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے ۔ لیکن جلد ہی ہوش میں آ گئے اور اُس کے بعد ایسی غلطی اُن سے دوبارہ سرزد نہ ہوئی۔
البتہ یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ موجودہ‘ جاری انتخابی مہم میں بلاول بھٹو بہت سرگرم نظر آ رہے ہیں۔ لیاری کے دورے کے دوران حملے کے باوجود وہ ملک بھر میں حتی الوسع جلسے کر رہے ہیں ۔ اگر پیپلز پارٹی کا کوئی بھرم رکھ رہا ہے‘ تو وہ یہ نوجوان ہے۔
پی ٹی آئی والوں کو تو سب سے زیادہ متحرک ہونا چاہیے تھا۔ ہوائیں بھی اُن کے ساتھ ہیں‘ موسم بھی ۔ جس حد تک ممکن تھا اُن کے ٹائروں میں ہوا بھری گئی تھی ۔ جو دَر پردہ سہولتیں اُن کو مہیا کی جا سکتی تھیں‘ اُن کو حاصل رہیں۔ لیکن پھر یہ ماجرا کیا ہے کہ پی ٹی آئی والوں کو دیکھیں تو دل میں یہ گمان نہیں اُبھرتا کہ اقتدار کسی طشتری میں اُن کے سامنے کر دیا جائے گا۔ کئی حلقوں میں پی ٹی آئی کو بادشاہ کی پارٹی یا کنگز پارٹی سمجھا جا رہا ہے ۔ لیکن اِن کی شکلیں وہی پرانی بگڑی ہوئی ہیں۔ کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ نیا پاکستان معرضِ وجود میں آ رہا ہے اور اُس کے بانیوں میں شیخ رشید، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر جیسے چہرے ہوں گے ؟ اِن میں اور نون لیگی شاہسواروں میں فرق کیا ہے ؟ کیا انہوں نے کوئی اور پانی پیا ہوا ہے ؟ دوسری درسگاہوں سے فارغ التحصیل ہیں ؟ جس قسم کی ہماری سیاسی کلاس ہے‘ اُس میں کچھ عناصر نون لیگ میں اور تقریباً ویسے ہی پی ٹی آئی میں ہیں ۔ تو تبدیلی نام کی بلا کہاں سے آئی گی؟
الیکشن کے اتنے قریب عمران خان کا لہجہ قدرے بہتر ہونا چاہیے تھا ۔ اُن کی گفتگو میں آئندہ کے لائحہ عمل کی کچھ جھلک نظر آنی چاہیے تھی ۔ لیکن وہی لا اُبالی باتیں ، وہی نعرے جن میں شاید ایک وقت کچھ کشش ہو لیکن اب کھوکھلے لگتے ہیں ۔ نواز شریف کے جیل جانے کے بعد یہ کون سی عقلمندی ہے کہ آپ کہتے پھریں کہ اب شہباز شریف کی باری ہے اور وہ عنقریب سلاخوں کے پیچھے ہو گا؟ باتوں کا لیول کچھ اُونچا ہونا چاہیے ۔ کرپشن کا واویلا درست ہے لیکن پاکستان کے مسائل اتنے سادہ نہیں کہ صرف کرپشن کی گفتگو اُن کا احاطہ کر سکے ۔ اِس وقت قوم کو ایک پیغام کی ضرورت ہے ۔ ایسا پیغام جو کہیں سے نہیں آ رہا۔ ایسا لگ رہا ہے‘ سارے کھلاڑی ایک ہی کھیت کی پیداوار ہیں۔ جو فرق نمایاں ہونا چاہیے پی ٹی آئی کی قیادت اور دوسروں کے درمیان وہ نظر نہیں آ رہا۔
تو پھر یہ سوچ پی ٹی آئی کے دلوں میں کہاں سے پیدا ہو چکی ہے کہ سب کچھ اُن کو دے دیا جائے گا۔ اسلام آباد میں حکومت اُن کی ہو گی اور پنجاب بھی اُن کے قبضے میں ہو گا۔ پی ٹی آئی کے لئے آسانیاں پیدا کرنے والے کچھ نہ کچھ سبق سیکھ چکے ہیں۔ وہ جان چکے ہیں کہ سب کچھ ایک جھولی میں ڈالنا اُن کے لئے نہ صرف بہتر نہیں بلکہ مہلک بھی ثابت ہو سکتا ہے ۔ اُنہوں نے دیکھ لیا کہ سب کچھ نون لیگ کی جھولی میں ڈالنے کے نتائج کیا نکلے۔ لگتا نہیں کہ وہ ایسی غلطی پھر دہرائیں گے اور سب کچھ ایک ہی جھولی میں ڈال دیںگے ۔ لیکن پی ٹی آئی کو دیکھیں۔ اَبھی سے ایسے امیدواران کی کمی نہیں جو اپنے آپ کو وفاقی کابینہ میں دیکھ رہے ہیں یا اُن کی نظریں پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ پہ جمی ہوئی ہیں۔
نواز شریف کی جو بھی غلطیاں ہوں‘ اور اُن کے خلاف جو بھی ایف آئی آر ہو ، یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تینوں بار جب وہ وزیر اعظم بنے تو وہ وزیر اعظم کے لائق لگ رہے تھے۔ ایک طرف پیپلز پارٹی تھی جس کے ارد گرد کرپشن کی ہزار داستانیں جنم لے چکی تھیں۔ بہت سارے طبقات بشمول عسکری ادارے سمجھتے تھے کہ پیپلز پارٹی سے نواز شریف کی حکومت ہزار درجے بہتر ہو گی۔ یہ اور بات ہے کہ میاں نواز شریف نے اپنی اعلیٰ اور شاندار کارکردگی کی بنا پہ اِن سب اُمیدوں کو غلط ثابت کر دیا۔ لیکن یہ حقیقت رہے گی کہ ہر دورِ اقتدار کی شروعات میں اُن کی ذات سے یہ بھرپور تاثر اُبھرتا تھا کہ وہ قوم کے حالات میں بہتری لانے کے قابل ہیں۔ عمران خان نے دھاندلی کا شور مچایا لیکن 2013ء میں دھاندلی کی بنا پہ نہیں بلکہ ووٹوں سے نواز شریف کو مینڈیٹ ملا۔ یہ اور بات ہے کہ پھر حالات نے ایسی کروٹ لی کہ اُن کا اصلی اعمال نامہ عوام کی نظروںکے سامنے آنے لگا اور وہ اپنے انجام کو پہنچے۔
عمران خان اَبھی تک یہ تاثر دینے میں کامیاب نہیں ہوئے کہ وہ واضح مینڈیٹ کے مستحق ہیں یا یہ کہ مینڈیٹ اُن کی جھولی میں گرنے والا ہے ۔ یہ عجیب ماجرا ہے ۔ ہر چیز اُن کے حق میں ہے ۔ اُن کے بڑے دشمن نواز شریف حالات کے جبر کا شکار ہو چکے ہیں؛ تاہم یہ بات ذہنوں میں رہے کہ نواز شریف کو نیچا عمران خان نے نہیں بلکہ دوسری قوتوں نے دکھایا ۔ عمران خان حالات کے آلہ کار ضرور تھے مگر موجد نہیں ۔ نواز شریف کے خلاف ناراضگیاں جن حلقوں میں پیدا ہوئیں، اُس عمل کی وجوہات اور تھیں ۔ عمران خان کو فائدہ ضرور پہنچا لیکن اُنہیں یا اُن کے حامیوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اِس ساری صورتحال میں وہ ایک فیکٹر ہیں۔ کلیدی حیثیت اوروں کی ہے۔
یہ سارا نقشہ ذہن میں رہے تو نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اِن انتخابات کے انعقاد کے بعد موجودہ بحران ختم نہیں ہو گا۔ ڈر یہ ہے کہ اُس میں نئی اُلجھنیں پیدا نہ ہو جائیں۔
اِک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا، تو میں نے دیکھا