اِن انتخابات کا نشہ کسی کے جیتنے سے نہیں ہوا بلکہ کئی کئی برجوں کے گرنے سے یہ کیفیت طاری ہوئی ہے ۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں‘ پھر کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جس الیکشن میں مولوی صاحبان اِس بُری طرح سے پِٹ جائیں کہ کئی ایک کی ضمانتیں بھی ضبط ہو جائیں اُسے کون برا کہہ سکتا ہے ؟ بے شک اللہ بہت مہربان ہے۔
امیر جماعت اسلامی مولوی سراج الحق کہتے ہیں کہ پاکستان کو لبرل اور سیکولر ملک نہیں بننے دیا جائے گا۔ مولوی صاحب غور فرمائیں کہ پاکستانی ووٹر نے تو اپنا فیصلہ سُنا دیا ہے ۔ مولوی صاحبان کی باتوں سے عام ووٹر کو اتنا لگاؤ ہوتا تو وہ باقی پارٹیوں کو مسترد کر دیتا اور اپنے سر پہ مولوی صاحبان کو بٹھا لیتا۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو اِس سے بڑی نشانی پاکستانی ووٹر کے شعور اور سمجھ کی کیا ہو سکتی ہے؟
یہ انتخابات دو چیزوں کیلئے یاد رہیں گے ۔ ایک نون لیگیوں کا غرور ٹوٹا اور اُن کی موٹی گردنوں سے سریا نکلا۔ اِن کی اب شکلیں تو دیکھیں ۔ بھیگی بلیوں کی بھی ایسی نہ ہوں گی ۔ پیپلز پارٹی اقتدار میں بھی آئی تو نون لیگ کے سامنے بے بس رہی ۔ پی پی پی حکمرانی میں نون لیگ کا سریا پگھلنے کی بجائے مزید مضبوط ہوتا گیا۔ یہ پی ٹی آئی کا کارنامہ ہے کہ نہ سیکھنے والوں کو سبق سکھا دیا۔
اس الیکشن کا دوسرا امتیاز مولوی صاحبان کے حوالے سے ہے ۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے لے کر اب تک صاحبانِ جبہ و دستار نے قوم کا ناک میں دم کیا ہوا تھا۔ بات بات پہ سڑکوں پہ نکل آتے اور مظلوم قوم پہ اپنا رعب جماتے ۔ واقعہ کہیں کیلی فورنیا یا کسی اور ملک میں ہوتا ، سختی پاکستانی عوام کی آتی ۔ اوپر سے نکمّے حکمران‘ جو صاحبانِ منبر کا رعب نہ سہہ سکتے ۔ کیلی فورنیا کے ایک واقعے کے حوالے ان اصحاب نے کیا ہنگامہ برپا کیا کہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اُس کی تاب نہ لا سکے اور بھڑکتے شعلوں کو ٹھنڈا کرنے کیلئے یو ٹیوب پر پابندی عائد کر دی ۔ دو سال تک ہم جیسے اُس پابندی کے عذاب میں رہے کیونکہ عام سا گانا بھی سننا ہوتا تو کمپیوٹر پہ پتہ نہیں کیا کرتب دکھانے پڑتے۔ بھلا ہو میاں نواز شریف کا کہ چپکے سے یہ پابندی ختم کر دی۔
یہ بات ہرگز نہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے ۔ اَب بھی مذہب کے نام پہ فساد پھیلانے والوں کی کمی نہیں ۔ ایسے اصحاب دین کی تقریریں سُنیں جو یو ٹیوب پہ اَب باآسانی مل سکتی ہیں تو آدمی حیران ہوتا ہے کہ کیسی کیسی جہالت مذہب کے نام پہ پھیلائی جا رہی ہے ۔ لیکن اگر کوئی سمجھے کہ پاکستانی ووٹر کے ہاتھوں ایسے صاحبان دَستار کو پذیرائی مل سکتی ہے تو اِس سے بڑی غلطی نہیں ہو سکتی ۔ گمان کیا جا سکتا ہے کہ ا گلے الیکشن تک ایسے فساد پھیلانے والوں کے ساتھ بھی وہی حشر ہو گا جو بڑے بڑوں کے ساتھ اس بار ہوا ۔ پاکستانی عوام کی اور بہت غلطیاں ہوں گی لیکن اُن پہ یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا کہ مذہبی جماعتوں کو ضرورت سے زیادہ کبھی اہمیت دی ہو۔ پھر طعنہ دیا جاتا ہے کہ پاکستان لبرل معاشرہ نہیں ہے ۔ اِس سے زیادہ لبرل ہونے کا ثبوت کیا ہو سکتا ہے؟
ہمارے اجتماعی رویے عام آدمی کے ہاتھوں نہیں بلکہ حکمرانوں کی وجہ سے بگڑے۔ پاکستانی عوام کا فیصلہ نہیں تھا کہ افغانستان کی آگ میں اُن کا ملک چھلانگ لگائے اور ایسا کر کے اپنے معاشرے کا حلیہ اور شکل بگاڑ کے رکھ دے۔ یہ فیصلہ تب کے حکمرانوں کا تھا جس کا نتیجہ دہائیوں تک قوم بھگتتی رہی۔
مولانا کوثر نیازی مرحوم کہا کرتے تھے کہ پاکستان گناہگار مسلمانوں کا ملک ہے۔ اُن کا مطلب تھا کہ پاکستانی مسلمان کا مذہب سے لگاؤ مکمل اور اٹل ہے ۔ وہ اللہ ، قرآن اور رسولؐ کے خلاف کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات سننے کو تیار نہیں ۔ لیکن روزمرّہ زندگی میں بے راہ روی بھی دکھاتا ہے اور جہاں بس چلے دل پشوری بھی کرتا ہے ۔ توفیق ہو تو نماز کے وقت نماز پڑھے گا اور نماز کے بعد دوسرے کاموں میں لگ جائے گا ۔ دکاندار اور تاجر نماز بھی پڑھیں گے، صدقہ بھی دیں گے لیکن منافع خوری سے پرہیز نہیں کریں گے۔ افسران پابندِ صوم و صلوٰۃ ہوں گے اور رشوت سے ہاتھ بھی رَنگیں گے ۔ یہ ہمارے معاشر ے کا مزاج ہے اور صدیوں سے ایسا ہی رہا ہے۔
مولوی صاحبان کا بس چلے تو اِس معاشرے کی روح کو ختم کر دیں ۔ خیبر پختونخوا میں دو بار اقتدار میں آئے ۔ پہلی مرتبہ بھٹو صاحب کے زمانے میں جب مفتی محمود کے پی کے وزیر اعلیٰ بنے اور دوسری بار جنرل مشرف کے دور میں جب مولوی صاحبان کیلئے آسانیاں پیدا کی گئیں‘ اور اُن کی حکومت کے پی میں بنی ۔ دورِ حکمرانی دو اقدام سے شروع کرتے: شراب کی پابندی پہ مزید پابندی لگ جاتی اور ٹرکوں میں سے ٹیپ ریکارڈر نکال لیے جاتے۔ نہ رشوت کا کچھ ہو سکا نہ بد عنوانیوں میں کمی آئی ۔ اُن کا تصورِ اسلام ایسے سطحی اقدام کے گرد گھومتا تھا۔ کے پی میں بہتری پی ٹی آئی کے ہاتھوں آئی، نہیں تو دوبارہ انتخابات اس بھاری انداز سے نہ جیت سکتی۔
پنجاب میں اقلیتوں کے خلاف زیادہ تر ظلم شہباز شریف کے سنہری دورِ حکمرانی میں ہوا ۔ گوجرہ اور گوجرانوالہ میں مسیحیوں کے محلوں پہ حملے ، لاہور کی سینٹ جوزف کالونی پہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حملہ اور قصور میں کرسچین جوڑے کو بھٹے کی آگ میں جلا دینا ، یہ سب اُس دور کی یادیں ہیں۔ پی ٹی آئی حکومتیں اور کچھ کر سکیں یا نہ کر سکیں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اُن کے نیچے ایسے واقعات رونما نہ ہوں گے۔ فی الحال اتنی ہی لبرل ازم اور برداشت کافی ہے ۔ پانچ سال ایسی حکمرانی رہی تو اجتماعی رویوں میں بہت کچھ بدل چکا ہو گا۔
ساتھ ہی اگر پنجاب پولیس کی کچھ اصلاح ہو جائے اور آئی جی سے لے کر ضلع افسران کی سمجھ میں یہ بات آ سکے کہ پولیس کا کام منہ سونگھنا اور نکاح نامے دیکھنا نہیں ہے تو اجتماعی ماحول میں بہت بہتری آ سکتی ہے ۔ بڑوں یا امیروں کو ایسی باتوں سے فرق نہیں پڑتا ۔ اُنہیں کون پوچھنے والا ہوتا ہے ۔ اپنی اُونچی دیواروں کے پیچھے جو مرضی جی میں آئے کر سکتے ہیں ۔ گھٹن پیدا کرنے والے قوانین سے اشرافیہ مبرّا ہے ۔ یہ سب قوانین لاچاروں کے لئے ہیں ۔ ٹریفک وارڈن بڑی گاڑیوں کو نہیں روکتے ، سختی موٹر سائیکل سواروں کیلئے ہی ہے ۔ اِسی طرح حدود آرڈیننس کے تحت پابندیاں کمزوروں کیلئے ہیں ۔ اُمید کرنی چاہیے کہ پنجاب پولیس کا سربراہ کوئی اچھا اور روشن خیال آئے جو پہلے اپنی فورس کے طور طریقے بدلے۔ ایسا ہو جائے تو اِس کا اثر فوراً محسوس ہو گا۔
ایک اور چیز پہ بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ پنجاب پولیس میں یہ جہالت پائی جاتی ہے کہ ضلع افسران تھانیداروں کیلئے کوٹہ مقرر کرتے ہیں کہ ہر ماہ منشیات کے زمرے میں اتنے مقدمات درج کرنے ہیں۔ اِن کوٹوں کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تھانیدار صاحبان بڑی مچھلیوں کی طرف تو جاتے نہیں لیکن پانچ دس گرام جیب میں چرس رکھنے والوں اور سُوٹا لگانے والوں کی پکڑ دھکڑ میں مصروف رہتے ہیں اور اُن سے پیسے بھی بٹورتے ہیں ۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
سب قوانین لاچاروں کے لئے ہیں ۔ ٹریفک وارڈن بڑی گاڑیوں کو نہیں روکتے ، سختی موٹر سائیکل سواروں کیلئے ہی ہے ۔ اُمید کرنی چاہیے کہ پنجاب پولیس کا سربراہ کوئی اچھا اور روشن خیال آئے جو پہلے اپنی فورس کے طور طریقے بدلے۔ ایسا ہو جائے تو اِس کا اثر فوراً محسوس ہو گا۔