اپنے آپ پہ خاصی شرمندگی محسوس ہو رہی ہے۔ ایک روز پہلے ٹی وی پہ بیٹھے کن کن فضول بحثوں میں ہم جیسے مبتلا رہے کہ خان سے حلف نامے کی صحیح اردو نہیں پڑھی گئی اورگارڈ آف آنر کا معائنہ کرتے وقت اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے۔ ستیاناس ہو ٹیلی ویژن کا کہ کئی دفعہ بات کرنی پڑتی ہے جب بات کرنے کیلئے کچھ نہیں ہوتا۔
چھوٹی اور فضول چیزوں میں اُلجھنا نہیں چاہیے اور بڑی تصویر کو سامنے رکھنا چاہیے۔ بڑی بات جو ہوئی ہے وہ خان کی تقریر ہے اور کیسی کمال کی تھی۔ ایک گھنٹے سے زائد جاری رہی اور میرا دھیان ایک پلک بھی اِدھر اُدھر نہیں پلٹا۔ سچ پوچھئے تو ساری عمر تقریر یں سُنتے آئے ہیں لیکن موقع اور مناسبت کے لحاظ سے اِس سے اچھی تقریر ہو نہیں سکتی تھی۔ فنِِ مقرری کی بات نہیں ہے، خان جو کہہ رہا تھا اور جو قوم کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا‘ بات وہ تھی۔ نپے تلے جملوں میں ملک کو درپیش صورتحال کا احاطہ کیا اور قوم کو دعوت دی کہ اُس کے ساتھ کھڑا ہو کے اِن مشکلات کا سامنا کیا جائے۔
ہمارے اکثر لیڈر لفاظی کے ماہر ہوئے ہیں۔ بلند بانگ دعوے اور بے مناسبت شاعری۔ اس تقریر میں کوئی لفاظی اور شاعری نہ تھی۔ جو بھی ناقدین کہیں اور اُن کی زبانیں کون بند کر سکتا ہے‘ پاکستان کو اس وقت ایسا ہی لیڈر چاہیے جو اُسے مل گیا ہے۔ مسائل کی فہرست لمبی ہے لیکن قوم کا مزاج تو بدلے، اس میں کچھ حوصلہ اور ہمت پیدا ہو۔ کسی قوم کو نئی راہوں پہ چلانا ہر ایک کی بساط نہیں ہوتی۔ یہ ایک بڑا لیڈر ہی کر سکتا ہے۔ کتنے ممالک ہیں‘ جن کے حالات ہم سے بدتر رہے ہیں۔ اُن کو پستیوں کی گہرائیوں سے اُٹھایا ہے تو خاص لیڈروں نے‘ جن میں خداداد طور پہ قیادت کی صلاحیت موجود تھی۔ وہ جو تصویریں خان نے دکھائیں کہ جب صحیح خوراک نہیں ملتی تو بچے کے دماغ پہ کیا اثر پڑتا ہے، ایسی بات کسی پاکستانی لیڈر نے پہلے کبھی کی؟ اور یہ کہ ہمارے دیش میں گندے نالوں کے ساتھ کچی بستیاں آباد ہیں جہاں گند میں ہاتھ ڈال کے بچوں کو جو ملے منہ میں ڈال لیتے ہیں‘ ایسی بات بھی کسی نے پہلے کی؟ حالانکہ اورنج ٹرینوں اور میٹرو بسوں سے دور ہماری اصلی حالت یہی ہے۔
1997ء میں پہلی دفعہ جب خان کئی حلقوں سے الیکشن میں کھڑا ہوا اور بُری طرح پٹ گیا‘ حتیٰ کہ اس کی ضمانتیں بھی ضبط ہو گئیں، تو غیر ملکی اخبار نویسوں کے سوالوں کے جواب میں‘ میں کہتا تھا کہ عمران خان میں اور خوبیاں ہوں گی لیکن وہ سیاست کے لئے نہیں بنے۔ اپنے تب کے خیالات کو یاد کرکے پشیمانی ہوتی ہے۔ میرا پختہ یقین تھا کہ عمران خان میں وہ سیاسی چنگاری ہے ہی نہیں جس سے لوگ متاثر ہوتے ہیں‘ لیکن دیکھیے کہ آغازِ سفر کہاں سے ہوا اور کن نا مساعد حالات میں اور کہاں پہنچ گیا ہے۔ اسے کہتے ہیں عزم۔ میں نے کئی بار لکھا ہے جو سیاسی ذلتیں خان نے اپنے سیاسی سفر میں سمیٹیں کوئی اور شخص ہوتا تو کب کا میدانِ سیاست چھوڑ کے فرار ہو چکا ہوتا۔ لیکن مضبوط ہڈی کہیے‘ یہ ڈٹا رہا اور آخر کار اپنی منزل پا گیا۔
فواد چوہدری نے قدرے غلط تاثر دیا جب تقریر سے پہلے اُس نے ٹویٹ کیا کہ تقریر فی البدیہہ ہو گی۔ فی البدیہہ تقریر وہ ہوتی ہے جس کی تیاری نہ کی ہو کہ آپ اُٹھیں اور جو فوری دماغ میں آئے وہ آپ کہتے جائیں۔ قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء والی آئین ساز اسمبلی میں تقریر فی البدیہہ تھی۔ پاکستان بننے جا رہا تھا اور جب تقریر کیلئے ایوان میں اُٹھے‘ سامنے کاغذ کوئی نہ تھا اور جو ذہن و دل میں باتیں تھیں وہ کہہ ڈالیں۔ اُس تقریر میں اُنہوں نے برملا کہا کہ گو ہر ایک کا مذہب اپنا ہوتا ہے‘ اب جبکہ پاکستان معرضِ وجود میں آ رہا ہے تو سیاسی اعتبار سے ہندو، ہندو نہیں رہا، مسلمان، مسلمان نہیں رہا۔ یہ سب نئی ریاست کے آزاد اور برابر کے شہری ہیں۔ پھر وہ الفاظ ادا کیے جن کو پڑھ کے آج بھی روح کانپ اُٹھتی ہے کہ آپ آزاد ہیں، اپنے مندروں میں جائیں، گردواروں میں جائیں، مسجدوں میں جائیں، ریاست کے کاروبار سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ بابائے قوم تو اپنا مافی الضمیر بیان کر گئے‘ اور ہم ہیں کہ سترّ سال گزر گئے اور اُن کے واضح خیالات پہ اپنی من پسند تشریحات ڈالتے رہے ہیں۔
خان کی تقریر اِس لحاظ سے فی البدیہہ نہیں تھی۔ وہ کاغذ سے پڑھ نہیں رہے تھے لیکن اُن کی تیاری بھرپور تھی۔ جس انداز سے چند جملوں میں سمجھانے کی کوشش کی کہ چند سال پہلے کتنا ملکی قرض تھا اور اب کتنا ہو گیا ہے‘ یہ بغیر تیاری کے ممکن نہ تھا۔ ہر چیز واضح کرنے کیلئے وہ ریاستِ مدینہ سے تشبیہ دیتے رہے کہ اس کے کارفرما اصول کیا تھے۔ اور یہ کہ ہم وہ اصول بھول گئے اور اگر وہ پائے جاتے ہیں تو مغربی دنیا میں۔ یہاں تک خان کہہ گیا کہ مغربی دنیا میں جانوروں کی حالت ہمارے انسانوں کی حالت سے بہتر ہے۔ خلیفہ عمرؓ کا قول بھی دہرایا کہ اگر کتا بھی بھوکا پھرے روزِ محشر مجھ سے یعنی خلیفہ عمرؓ سے پوچھا جائے گا۔ البتہ پورا قول بیان نہیں کیا۔ حضرت عمرؓ کے الفاظ تھے کہ دریائے فرات کے کنارے اگر کوئی کتا بھوکا ہو تو جوابدہ عمر ہو گا۔ پورا مفہومِ اسلام ان چند الفاظ میں سمو جاتا ہے۔ اسلام کسی چیز کا فلسفہ ہے تو انصاف اور انسانی نشوونما کا۔ ہم نے اپنے ہاتھوں اسے کیا بنا دیا ہے۔
تقریر میں خان نے حضر ت علیؓ کا بھی حوالہ دیا کہ کیسے‘ خلیفہ تھے لیکن ایک یہودی اُنہیں قاضی کی عدالت میں لے گیا جہاں فیصلہ خلیفہ وقت کے خلاف ہوا۔ اِس سے خان نے بتانا چاہا کہ ریاستِ مدینہ میں اقلیتوں کی حیثیت اور اہمیت کیا تھی۔ اِس سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے دورِ حکمرانی میں اقلیتوں کے خلاف وہ مظالم رُونما نہیں ہوں گے جو ہمارے ماضیِ قریب کا حصہ رہے ہیں۔
ہمارا پست معاشرہ ہے۔ بہت ساری روشیں اور روایات ہماری فرسودہ ہیں۔ لیڈروں کا کام ہوتا ہے کہ جہاں اجتماعی کلچر میں خرابی ہو‘ اُسے درست کرنے کی کوشش کرے۔ کرپشن بھی ہمارے معاشرے کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے۔ اُس کے خلاف خان نے عَلم بلند کیا اور اَب وقت آ گیا ہے کہ کرپشن کے خلاف بھرپور جنگ شروع کی جائے۔ اِس کا اشارہ بھی خان نے اپنی تقریر میں دیا کہ جن کے خلاف اقدام ہوں گے‘ وہ چیخ و پکار کریں گے لیکن حکومت اِس مسئلے پہ کسی مصلحت کا شکار نہیں ہو گی۔
یہ آسمانوں کا بہت بڑا احسان ہے کہ پاکستان کو سابقہ حکمرانوں سے نجات ملی۔ ملک کا کوئی حال نہ ہوتا اگر وہ پھر سے براجمانِ اقتدار ہوتے۔ اِس وقت خان اور پی ٹی آئی کے سوا کوئی متبادل بھی نہیں۔ باقی سب چلے ہوئے کارتوس اور آزمائے ہوئے گھوڑے ہیں۔ عمران خان کا وزیر اعظم ہاؤس میں نہ رہنا، عارف علوی کا یہ اعلان کرنا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوئے تو پارلیمنٹ لاجز میں ہی رہیں گے، یہ علامتی چیزیں ہیں لیکن اِن کی اہمیت ہے۔ پاکستانی قوم کو بتانے کیلئے کہ اگر ملک نے سیدھا کھڑا ہونا ہے تو رائج طور طریقوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
جو دانشورانِ کرام سول اور فوجی تعلقات کے بارے میں ہانکتے رہتے ہیں‘ اُن کے لئے بھی ایک پیغام ہے۔ خان کی ہر بات ایسی تھی کہ نوجوان فوجی افسروں کے دلوں میں اُتر جائے۔ کسی ہوش رکھنے والے کپتان، میجر یا کرنل سے آپ بات کریں‘ وہ بھی اُن مسائل کی نشاندہی کرے گا‘ جن کا ذکر خان نے کیا۔ آج ہر محب الوطن کی سوچ یہی ہے۔ جس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ ماضی کی سول اور عسکری لڑائیوں کی اَب گنجائش بہت کم ہے۔ ملک کے مستقبل کے بارے میں افواج کی وہی سوچ ہے جو خان کی ہے۔ سوچ کی یہ یگانگت شاید پہلے اِس انداز میں کبھی نہ اُبھری ہو۔
مسائل تو بہت ہیں لیکن حالات اس لحاظ سے سازگار ہیں کہ بہت عرصے بعد ملک کی تقدیر ایسے لوگوں کے ہاتھ آئی ہے جن کے دل میں قوم کا درد ہے اور جو بہتر ی لانے کی کچھ صلاحیت رکھتے ہیں۔