سنجیدہ سوال ہے ۔ ہر ہفتے لاہور آنا ہوتا ہے اور شام ڈھلے جب سائے لمبے ہوں‘ تو میں اپنے ہوٹل کی کھڑکی سے دیکھتا ہوں کہ چیلیں اور دیگر پرندے درختوں پہ بیٹھ چکے ہیں‘ تب وہ خطرناک لمحہ آتا ہے‘ جب دل میں مختلف آرزوئیں اُٹھتی ہیں ۔ دن میں یہ کیفیت کبھی نہیں ہوتی۔ بے مقصد ملاقاتوں اور بے جا گفتگو سے دور رہنے کو جی کرتا ہے ۔ لیکن جیسے عرض کیا‘ شب کے آتے ہی کیفیت بدل جاتی ہے۔
باہر کی دنیا میں مواقع بہت ہوتے ہیں۔ بس کچھ جیب میں ہونا چاہیے اور اگر ہو اور کوئی ساتھی نہ بھی ہو پھر بھی آپ کے سامنے بہت چوائس ہوتی ہے۔ فلنٹریاں مارنی ہوں تو اُس کے بھی مواقع دستیاب ہوتے ہیں‘ اور اگر مزاج میں سنجیدہ پن ہو تو آپ کلاسیکی ڈانس اور کلاسیکی میوزک سُن سکتے ہیں۔ وہاں آپ نائب کلب بھی جا سکتے ہیں۔ بیلے(ballet) ڈانس اور اُوپرا گانے بھی سُن سکتے ہیں۔ یہاں عجیب مخمصہ ہے ۔ تمام چیزوں پہ پابندیاں ہیں ۔ جو دروازے کھلنے چاہئیں اُن پہ تالے لگے ہوئے ہیں ۔ کچھ کرنا ہو تو اندر رہ کے ہی کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن دروازے بند کر کے آپ نے جو کچھ دیکھنا ہو اُس کا معیار کیا ہو سکتا ہے ؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ الحمرا ہال اور لاہور کے دیگر تھیٹروں میں ہر شام صحیح ڈانس یعنی کلاسیکی ڈانس کی محفلیں سجیں۔ ناہید صدیقی کی پرفارمنس ہونی چاہیے ۔ لیکن معاشرے کا بیڑہ غرق ایسا ہو چکا ہے کہ ناہید صدیقی یا دیگر اُس پائے کے فنکاروں کو دیکھنے کون آئے ؟
میں کبھی کبھی اخبارات میں پڑھتا ہوں کہ فلاں ڈانسر بڑی زبردست پرفارمنس کر رہی ہے اوراس کی بڑی ڈیمانڈ ہے ۔ یو ٹیوب پہ جا کے دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ دیکھا جائے‘ ایسی ڈانسرز کا معیار کیا ہے۔ شکلیں عموماً اچھی ہوتی ہیں لیکن ڈانس ایسے غیر معیاری اور جس موسیقی پہ رقص ہو رہا ہو‘ ایسی بیہودہ کہ جی چاہتا ہے کہ پستول نکال کے چھت کی طرف فائرنگ شروع کر دوں ۔ ایسے ڈانسرز کو لو گ دیکھنے جاتے ہوں گے لیکن پتہ نہیں حاصل کیا ہوتا ہو گا۔
زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اپنی ہی پرانی فلمیں دیکھ لی جائیں ۔ مثال کے طور پہ فلم 'یکے والی‘ میں مسرت نذیر کے ڈانسز۔ ایک اور فلم یاد آئی 'شہید‘ جس میں مسرت نذیر کا رقص اُس گانے پہ ہے 'میری نظریں ہیں تلوار‘۔ زیادہ اُچھل کود نہیں ، خالصتاً ڈھنگ کا رقص ہے۔ مطلب یہ کہ ایک زمانہ تھا‘ ہمارے ہاں اچھی موسیقی بھی ترتیب دی جاتی تھی اور مسرت نذیر جیسی آرٹسٹ بھی تھیں ۔ اَب وہ موسیقی کہاں گئی اور کہاں وہ آرٹسٹ؟ مسرت نذیر کا ویسے ہی نام لے لیا ۔ نیلو کے ڈانسز دیکھیں ۔ اُن کی مہارت اور صلاحیت پر آدمی دَنگ رہ جاتا ہے۔ معیار بلند ہو تو آرٹ کو آرٹ ہی سمجھا جاتا ہے ۔ فحاشی کا الزام آرٹ پہ نہیں لگ سکتا۔ نیلو کلاسیکی موسیقی اورکلاسیکی ڈانس کے اسلوب سے اَنگ ہلاتی ہیں ۔ ایسا ہو تو انسان اُس پہ غش ہی کھا سکتا ہے۔ ہم نے تو معاشرہ ایسے بنا دیا ہے کہ کوئی آرٹسٹ پاؤں آگے رکھے تو جھٹ سے پہلے فحاشی کا الزام لگ جاتا ہے۔
ہم ذرا کم عمر تھے جب نیلو کا عروج تھا۔ لیکن اُس زمانے میں اُن کو اتنا بڑا آرٹسٹ نہ سمجھتے تھے کیونکہ اپنی سمجھ ہی محدود تھی ۔ اب سمجھ کچھ زیادہ نہیں ہوئی لیکن جب کبھی موقع ملتا ہے کہ بذریعہ یو ٹیوب نیلو کے پرانے ڈانس دیکھے جائیں تو احساس ہوتا ہے کہ اُن کی کیا خداداد صلاحیت تھی ۔ اُن کے ڈانسز میں یہ ثانوی چیز رہ جاتی ہے کہ کون مرد ہیرو ہے جس کے سامنے وہ ناچ رہی ہیں ۔ یوسف خان کا چہرہ کیسا ہے یا کس قسم کی مسکراہٹ اُن کے ہونٹوں پہ پھیلی ہوئی ہے‘ یہ چیزیں نظر ہی نہیں آتیں۔ آنکھیں، نیلو کی لازوال ڈانسنگ پہ جمی ہوتی ہیں۔
یہ کہنا درست نہیں کہ زمانہ بدل چکا ہے ۔ فلاں ڈانسنگ اور موسیقی اُس زمانے کی تھی اور آج زمانے کے پیمانے بدل چکے ہیں۔ یہ سراسر غلط سوچ ہے۔ دیگر ممالک میں فلموں اور موسیقی میں نئی چیزیں مسلسل آتی رہتی ہیں‘ مگر موسیقی اور ڈانس کا جو کلاسیکل خزانہ ہے وہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔ واگنر (Wagner) کی موسیقی اُسی کی رہتی ہے اور ہر سیزن اور ہر سال پوری دنیا کے آرکیسٹرا ہاؤسز میں وہ پرفارم کی جاتی ہے۔ نئے پاپ سٹار پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ ایک زمانہ بیٹلز (Beatles) کا تھا اور پھر اَن گنت پاپ سٹار آتے رہے۔ لیکن واگنر اور دیگر کلاسیکی موسیقی والوں کی اپنی جگہ رہی اور پاپ میوزک کے فیشن کی تبدیلیوں کا کلاسیکی موسیقی یا کلاسیکی ڈانس پہ اَثر نہ ہوا۔ یہ دو الگ دنیائیں رہیں۔ آج کل اگر اچھل کود ہمارے گانوں میں زیادہ آ چکا ہے تو اُس میں کوئی بری بات نہیں۔ لوگ، خاص طور پہ نوجوان، اُسے پسند کرتے ہوں گے اور اُن کا ذوق کیا ہے یہ اُن کی صوابدید پہ چھوڑنا چاہیے ۔ لیکن ہماری کلاسیکی موسیقی کو کیا ہوا؟ اگر فلموں کی بھی بات کی جائے تو آج کی مسرت نذیر اور نیلو کہاں ہیں؟ ایسے ڈانسر اَب دیکھنے کو کیوں نہیں ملتے ؟
لاہور کے تھیٹروں میں جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک ہو رہا ہے ۔ یہ بے معنی الزام ہے کہ آج کے تھیٹر میں فحاشی اور ذُو معنی گفتگو ہوتی ہے۔ یہاں کے آرٹسٹ کریں کیا ؟ آپ نے کیا شیکسپیئر کے ڈرامے دکھانے ہیں؟ ہمارا ذوق ہی کچھ نہیں رہا۔ جو معاشرے کے اونچے طبقات سمجھے جاتے ہیں وہ لاہور کے تھیٹروں کی طرف رُجوع نہیں کرتے ۔ وہ اُنہیں گھٹیا سمجھتے ہیں ۔ جس قسم کے لوگ جاتے ہیں وہ ذُو معنی حرکتوں کیلئے ہی جاتے ہیں ۔ جس قسم کے سامعین ہوں تھیٹر بھی اُسی قسم کا ہو گا۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ایسے تھیٹر میں کلاسیکی ڈانس دیکھا جا سکے ۔ کلاسیکی ڈانس کی ہم نے جڑ ہی مار دی ہے ۔ 1930ء اور 1940ء کی فلموں میں موسیقی کا کیا معیار تھا اور کیسے کیسے میوزک کمپوزر تھے‘ جو اپنی موسیقی سے فلموں کو ایک جادو کی کیفیت عطا کر دیتے تھے ۔ پلاٹ یا کہانی کیا ہوتی تھی، وہی چند عشق اور وصال کے گھسے پٹے موضوع۔ لیکن موسیقی اور گانے ایسے کہ آسمان بھی اُن پہ رشک کرے۔
کندن لال سہگل کی فلمیں دیکھنے کی کبھی آرزو پیدا نہیں ہوئی ۔ سہگل صاحب کی شکل ہیروؤں والی نہیں تھی لیکن گانا ایسا کہ آج بھی سُنیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ اِسی لئے وہی پرانا سوال ، وہ موسیقی کہاں گئی ؟ جیسے واگنر اور بے ٹوفن (Beethoven) کی موسیقی قائم ہے تو ہمارے کلاسیکی راگ بھی ویسے ہی قائم ہیں۔ ایمن وہی ہے ، جے جے وَنتی اور راگ جون پوری بھی وہی ہے ۔ لیکن اِن پہ ناچ دیکھنے کو کیوں نہیں ملتے؟
کیا شام ہو کہ ہم اپنے ٹیلی ویژن کے کام سے واپس آئیں، ہوٹل کے کمرے میں شیشے کے سامنے کھڑے ہو کے تھوڑا سا بناؤ سنگھار کریں، جو تھوڑے سے بال رہ گئے ہیں اُن کو آراستہ کرنے کی کوشش کریں اور پھر کسی تھیٹر کی طرف چل پڑیں جہاں کوئی ناہید صدیقی یا آج کے زمانے کی نیلو کسی کلاسیکی دُھن پہ رقص کر رہی ہو۔ پرفارمنس ختم ہو اور وہی دُھن گنگناتے ہوئے ہوٹل واپس لوٹیں۔ یہ کسی افسانے کی باتیں نہیں ہیں۔ مغربی دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ معاشرے کو ہم نے برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ جو آرٹ اور موسیقی کے حوالے سے ورثہ تھا‘ اُسے بھی ایک طرف کر دیا اور بنجر قسم کی زندگی کو فروغ دیا۔
یہ صرف آرٹ اور ناچنے وغیرہ کی بات نہیں۔ جہاں معاشرے پہ قدغنیں لگیں وہاں ذہنوں پہ بھی تالے لگ جاتے ہیں۔ بند ذہن کچھ تخلیق نہیں کر سکتے۔ اِس کیفیت کا اثر ہر چیز پہ ہوتا ہے۔ جب ذہنوں کو محدود کیا جائے تو معاشرے میں اور قدریں پیدا ہوتی ہیں۔ دِلوں میں لالچ گھر کر لیتا ہے اور پھر یہی سوچ اُجاگر ہوتی ہے کہ جو کچھ ہے پیسہ ہی ہے اور کسی بھی ذریعے سے پیسہ حاصل کرنا سب سے اُونچی قدر ہے۔
اِس کا یہ مطلب نہیں کہ لالچ کے ہم ہی متولی ہیں اور یہ کیفیت مغربی دنیا میں نہیں پائی جاتی۔ لیکن وہاں لالچ اور پیسے کی دوڑ کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ دلوں کے ویرانے وہ نہیں جو ہم نے اپنے ہاں بنا دئیے ہیں۔