"AYA" (space) message & send to 7575

نئے پاکستان والوں کا خدا ہی حافظ

فتنہ اورفساد کے علمبرداروں نے اورکچھ کیا یا نہیں نئے پاکستان والوں کو مکمل طورپہ ایکسپوز کرکے رکھ دیا ۔ عمران خان اوراُن کی حکومت کے بارے میں زیادہ بھول تو نہ تھی‘ لیکن وہ اتنے کھوکھلے نکلیں گے اوراُن کی اصلی حقیقت اتنی جلد سامنے آجائے گی اس کا اندازہ نہ تھا۔ تین روز ملک کے طول وعرض میں تقریباًانارکی رہی اورحکومت نام کی چیز کہیں نظر نہ آئی ۔ جب خطرہ ٹل گیا اوربادل چھٹ گئے تو ان کے وزیروں کو کھوئی ہوئی زبانیں دوبارہ مل گئیں اورانہوں نے اپنی گیدڑ بھبکیاں شروع کردیں۔ لیکن ان کے بہکاوے میں کوئی نہیں آرہا ۔سب پہ عیاں ہوچکاہے کہ جب تدبیر اورہمت کی ضرورت تھی تو دونوں چیزیں ناپید تھیں۔ 
لاکھوں کے مجمعوں کو چھوڑئیے ‘ ہزاروں کے بھی ہوتے تو بات سمجھ میں آتی کہ خطرہ بہت ہے اورحکومت کے بس میں حالات نہیں رہے ‘لیکن یہاں تو چھوٹے چھوٹے گروہ تھے جو باہر نکلے اورانہیں روکنے کیلئے کوئی نہ تھا۔ پھر ان چھوٹے گروہوں نے سڑکوں پہ رکاوٹیں ڈالیں اوررکاوٹوں کو ہٹانے کیلئے کوئی نہ تھا۔ موٹروے بند کردی گئی۔ان افلاطونوں سے کوئی پوچھے کس وجہ سے ۔ یہ جو ہم وقت بے وقت نعرہ لگاتے ہیں کہ اسلامی دنیاکی ہم واحد ایٹمی طاقت ہیں ‘ کیا اس ایٹمی طاقت سے ایک بڑی شاہراہ کی حفاظت بھی نہ کی جاسکتی تھی ؟
جمعے کے روز چکوال سے صبح گیارہ بجے نکلا اورلاہور پہنچتے پہنچتے شام کے آٹھ بج چکے تھے ‘ کیونکہ موٹروے بند تھی تو براستہ چوآسیدن شاہ اورکھیوڑہ سے پنڈدادنخاں پہنچا۔ وہاں تھوڑی سی تعداد میں بیٹھے مولوی اورمدرسہ کے طالب علموں نے سڑک بلاک کر رکھی تھی۔ اندر کے راستوں سے جا کے یہ رکاوٹ عبور ہوئی ۔ جلال پور شریف میں چھوٹا سا جلوس سڑک پہ تھا۔ انہوں نے آرام سے ہماری گاڑی کو راستہ دیا۔ سڑک بلاک نہ کی۔ پھر ہیڈ رسول‘ منڈی بہاؤالدین اور پھالیہ سے گزرتے ہوئے ہیڈ قادر آباد پہنچے۔ وہاں سے خستہ حال سڑک سے گوجرانوالہ تک گئے۔ چھوٹے سے مجمعے نے شہر کے وسط میں رکاوٹ لگا رکھی تھی۔ ملک ریاض کی ہاؤسنگ سوسائٹی سے ہوتے ہوئے جی ٹی روڈ پہنچے ۔ جی ٹی روڈ پہ خالی بسیں اور ٹرالر سڑک پہ لگے ہوئے تھے۔ مجمع چھوٹا یا بڑا کوئی نہ تھا لیکن بسوں اورٹرالروں کو ہٹانے والا بھی کوئی نہ تھا۔ گوجرانوالہ چھوٹا شہر نہیں ‘ پنجاب کے بڑے شہروں میں اس کا شمار ہوتاہے ۔ لیکن انتظامیہ نام کی چیز کہاں تھی ؟
آگے کامونکی سڑک پہ رکاوٹ اور پولیس اورانتظامیہ غائب۔سائیڈ روڈوں سے رکاوٹیں عبور کرنی پڑیں۔ مریدکے میں پھر یہی حال ‘ بسیں اورٹرالر سڑکوں پہ لگے ہوئے ‘ مجمع بہت چھوٹا سا لیکن روکنے والا کوئی نہیں ۔ آگے شاہدرہ میں دو جگہ پہ پھر یہی حال ۔انتظامیہ کا دور دور تک کوئی نشان نہیں۔ ہوٹل پہنچا تو سوچا اسمبلی کے سامنے چیئرنگ کراس پہ مجمع تو دیکھاجائے۔ یہ احتجاج کا مرکز تھا ۔ چند لمحوں بعد احتجاجیوں کے سرکردہ رہنما وہاں پہنچ گئے ۔ مجمعے کی تعداد 1500-2000 سے زیادہ نہ تھی ۔یہ وہ لوگ تھے جو ججوں اورجرنیلوں کو دو روزپہلے دھمکا چکے تھے ۔ انہوں نے ایسی باتیں کہیں کہ میں اورآپ کہتے تواندر ہوتے اورحشر وہ ہوتا جو بیان کے قابل نہ رہتا۔ لیکن یہ سرکردہ رہنما اس وقت حکومت کے ساتھ اپنے معاہدے کااعلان کررہے تھے ۔ 
جو فتنہ اورفسادوالوں نے کرنا تھا اورسپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ان کا ردعمل کیاہوناتھا یہ سب پہ عیاں تھا۔ انہوں نے اپنے ارادے ڈھکے چھپے نہ رکھے تھے اورللکار چکے تھے کہ آسیہ بی بی کے حق میں فیصلہ آیا تو وہ سڑکوں پہ نکلیں گے ۔ جب یہ سب کچھ معلوم تھا توحکومت کی طرف سے کچھ تو حکمت عملی ترتیب دی جاتی ۔ لیکن نئے پاکستان والوں کی طرف سے صرف عمران خان کی وہ تقریر تھی جسے اب گیدڑ بھبکی ہی سمجھا جائے گا جس کے بعد وہ چین روانہ ہوگئے ۔ فساد زدہ تین دنوں میں نہ کوئی قیادت نظر آئی‘ نہ کوئی سوچ اور حکمتِ عملی ۔ سڑکوں پہ قبضہ لاکھوں کے مجمعے نے نہ کیا ‘ چھوٹے چھوٹے گروہ تھے جنہوں نے آگے آکریہ نیک کام نبھایا۔ حکومت اورانتظامیہ منظر سے مکمل طورپہ ہٹ چکے تھے۔ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ جو نقصان ہواِاس سے زیادہ نہ ہوا ۔ نہیں تو جو خلانئے پاکستان والوں نے اپنی بے عملی سے پیدا کیا؟ تباہی اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی تھی ۔ 
نئے پاکستان والوں کی طرف سے کہا جارہاہے کہ ہم نے بہت بڑا خطرہ ٹال دیااوراگر سخت اقدام کرتے تو وسیع پیمانے پہ خون خرابے کا اندیشہ تھا۔ دس یا بیس ڈنڈا بردار سڑکوں پہ رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کریں اورآپ مناسب اقدام لیں تو کو ن سا ہلاکو خان کے بغداد کا منظر پیش آ جانا تھا ؟ کون کہہ رہاہے کہ ہیلی کاپٹروں کو پروازیں کرنی چائیں تھیں اورمشین گنوں کواپنا منہ کھولنا چاہیے تھا؟مٹھی بھر لوگ عام زندگی کامعمول درہم برہم کرنے پہ تلے ہوںاورآپ میں اتنی ہمت اوراستعداد نہ ہوکہ اِس شورش کو روک سکیں۔ کوئی لال مسجد آپریشن تو بننے نہیں جارہا تھا۔ 
پنجاب پولیس کی تعداد آج کی برطانوی فوج سے زیادہ ہے ۔ برطانوی فوج کی تعداد اِ س وقت سترّ‘اسّی ہزارسے زیادہ نہیں ۔پنجاب پولیس کی تعداد لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ یہ فورس لا چاروں پہ ظلم ڈھانے کی اپنی صلاحیت بدستور رکھتی ہے لیکن کسی بڑے امتحان کیلئے ہمت ہار چکی ہے ۔ ماڈل ٹاؤن واقعے سے لے کر فیض آباد دھرنے تک ایسے واقعات پیش آئے ہیں کہ یہ فورس وہ نہیں رہی جو ہوا کرتی تھی۔جوانوں کو چھوڑئیے ‘ اس کے افسران کوئی رسک لینے کیلئے تیار نہیں۔ فساد کو روکنا اس فورس کا کام تھالیکن اپنی موجودہ حالت میں یہ ایسا کیسے کرتی؟ اوپر سے سیاسی قیادت کا مکمل فقدان ۔ ان فساد زدہ تین دنوں میں جہاں آئی جی سے لے کر تھانیدارتک نظر نہ آئے وہاں چیف منسٹر عثمان بزدار اوران کے وزرا بھی مکمل روپوش رہے ۔راج تھا تو چھوٹی ٹولیوں میں فساد پھیلانے والوں کا ۔ 
ایک طرف یہ ساری کمزوری ‘ دوسری طرف سارا بوجھ سپریم کورٹ پہ ڈال دیاگیاہے۔ ریویوپٹیشن سُنے گی تو سپریم کورٹ ۔ آسیہ کانام ای سی ایل میں ڈالنے کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ کرے گی ۔ گویا حکومت کا کام ہے گھٹنے ٹیکنا اوربہادری اگر دکھانی ہے تو سپریم کورٹ دکھائے۔ 
سپریم کورٹ نے قانون کے ہر پہلو کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ایک ایسا فیصلہ تحریر کیا ہے جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہ توکہنے کی بات ہے کہ سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے لیکن کھڑا ہونے کے معنی یہ نہیں ہونے چاہیںکہ صرف انٹرنیٹ پہ گھومتی ہوئی کسی قرارداد پہ دستخط کردئیے جائیں۔ ساتھ کھڑا ہونے کا مطلب ہے کہ قانون شکنوں پہ سخت ہاتھ رکھا جائے اورنئے پاکستان والے اپنی بے تدبیری کو ذرا بدلیں۔ سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑا ہونے کا یہ بھی مطلب ہونا چاہیے کہ حالیہ فیصلے پہ فوری عملدرآمدہو ۔ فیصلے میں جو حکم تھا کہ متعلقہ خاتون کو رہا کیا جائے ‘اَبھی تک ایسا نہیں ہوا۔خاتون کا خاوند صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے لے کر کینیڈا کے وزیراعظم تک اپیلیں کررہا ہے کہ اسے پناہ دی جائے۔ ہمیں کچھ اندازہ ہے کہ اِس صورتحال سے ملک کی کیا نیک نامی ہورہی ہے؟
پھسلتے پھسلتے بحیثیت قوم ہم یہاں پہنچے ہیں ۔ مزید پھسلنے کی ‘یا سچ تو یہ ہے بھاگنے کی‘ گنجائش نہیں ‘ لیکن زمین میں کوئی لائن کھینچنی ہے اور کوئی سٹینڈ لینا ہے تواس کیلئے دو چیزیں درکار ہیں‘ہمت اورسوچ۔ نئے پاکستان والوں نے ثابت کردیاہے کہ یہ چیزیں کہیں اورسے تو شاید ڈھونڈی جاسکیں ان کے پاس نہیں۔ 
محافظانِ قوم کیلئے بھی بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے ۔ کب تک وہ غلط ملط مصلحتوں کے تابع ایسے عناصر سے کھیلتے رہیں گے اس امید کے ساتھ کہ ایسے عناصر ان کے مقاصد ‘ وہ مقاصد جو بھی ہوں ‘ پوراکرنے میں مددگار ثابت ہوںگے؟بارہا ہم نے دیکھا ہے کہ ایسے عناصر کو استعمال کرنے کی کوشش کی جائے تو نقصان بالآخراپنا ہی ہوتا ہے۔ یہ سبق محافظانِ قوم کب سیکھیں گے ؟

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں