اِس اَمر کا اظہار ضروری تھا اور چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے یہ فریضہ ادا کر دیا جب اُنہوں نے اپنے دورۂ لندن کے دوران کہا کہ آسیہ بی بی کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اور یہ کہ اگر وہ سیاسی پناہ باہر لیتی ہے تو اِس کا مطلب ریاست کی ناکامی ہو گا کہ وہ اِس خاتون کی حفاظت نہیں کر سکی۔
اُنہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ کیس میں کمزوریوں کے ساتھ ساتھ اِس میں بہت تاخیر ہوئی۔ سپریم کورٹ میں بھی یہ کیس چار سال پڑا رہا۔ وہ ہاؤس آف کامنز میں پاکستانی نژاد ممبران پارلیمنٹ سے خطاب کر رہے تھے۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ آسیہ بی بی کا نام ای سی ایل پہ ڈالنے کے معاملے میں اُنہیں یقین ہے سپریم کورٹ قانون سے ہٹ کر کوئی فیصلہ صادر نہیں کرے گی۔
یہ باتیں کسی اور ملک میں کہی جاتیں تو اُنہیں قطعاً غیر معمولی نہ سمجھا جاتا۔ لیکن پاکستان کے تناظر میں باتیں سادہ اور صاف بھی ہوں تو ہمارے مخصوص ماحول میں غیر معمولی اہمیت اختیار کر لیتی ہیں۔ ہمارے ہاں کوئی جاہلانہ گفتگو کی جائے تو اُسے عقل کی بات سمجھا جاتا ہے۔ پس آواز اُونچی ہونی چاہئے اور آنکھوں سے غصہ اور منہ سے شعلے برسنے چاہئیں۔ پوری کی پوری کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں اور شروع سے لے کر آخر تک ایک سے بڑھ کر ایک نفرت اور آگ سے بھری باتیں کی جاتی ہیں۔ سامعین پہ بھی قربان ہونے کو جی چاہتا ہے کیونکہ کتنی ہی نامعقول بات ہو ان کی طرف سے داد خوب دی جاتی ہے۔
سچ یہ ہے 2018ء میں پاکستان میں نمودار ہونے والا سب سے اہم واقعہ اس مقدمے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا۔ یہ بخوبی جانتے ہوئے کہ ملک میں کیسا ماحول بن سکتا ہے اور ممکنہ فیصلے کے خلاف کیا رد عمل آ سکتا ہے چیف جسٹس ثاقب نثار اور اُن کے ساتھی ججوں نے ایک ایسا فیصلہ لکھا جو پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ہم جانتے ہیں کہ ردِ عمل بھی خوب ہوا اور ملک کے بڑے شہروں میں تین دن تک عام زندگی بُری طرح متاثر ہوئی۔ حکومت کو لاکھ طعنے دئیے جائیں کہ اُس نے کمزوری دکھائی اور احتجاج کرنے والوں سے سختی سے نہیں نمٹا گیا‘ لیکن اِس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ فیصلہ تو بہرحال سپریم کورٹ کی طرف سے آیا اور اُس کے نتیجے میں ملزمہ کی رہائی عمل میں آئی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آسیہ بی بی کی مناسب حفاظت کا پورا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا احتجاج اپنی جگہ لیکن عدالت کا فیصلہ اور حکومت کا مؤقف بھی اپنی جگہ۔
جنون اور جذبات کی حالت میں ہم بھول جاتے ہیں کہ اِس کیس کی وجہ سے عالمی سطح پہ پاکستان کو کتنی شرمندگی اُٹھانا پڑی۔ عالمی سطح پہ تاثر مزید پختہ ہو رہا تھا کہ پاکستان میں تعصب اور عدم رواداری کی ہوائیں چلتی ہیں اور یہ ایک نارمل ملک نہیں ہے۔ اِس کیس کی موشگافیاں دنیا سمجھنے سے قاصر تھی۔ پاکستان کی عزت بچی تو سپریم کورٹ کے دلیرانہ فیصلے کی وجہ سے۔ ایک اور بات بھی غور طلب ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ ایسے واقعات میں حکومتیں اور ادارے صحیح مؤقف پہ قدم نہ جما سکیں تو یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن سکتا ہے۔ مطلب یہ کہ معاشرے کی بقاء کیلئے حکومتوں اور اداروں کو کہیں نہ کہیں سٹینڈ لینا پڑتا ہے۔ اِس لحاظ سے یہ معاملہ ایک عورت کی مصیبت کے بارے میں نہیں۔ اِس کی علامتی حیثیت اِس سے کہیں زیادہ ہے۔ لاکھ یہ کہا جائے کہ پاکستان کمزور ریاست ہے‘ اِس کیس کے حوالے سے ریاستِ پاکستان اور اُس کے اداروں نے اپنے آپ کو مضبوط ثابت کیا۔ مصیبت تو تب بنتی اگر ریاستی ادارے کانپنے لگتے اور صحیح مؤقف پہ قائم نہ رہ سکتے۔ ایسا نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا اور تمام ادارے اُس کے ساتھ کھڑے ہیں، حکومت بھی اور افواج بھی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک سے زیادہ بار اِس امر کا اعادہ کیا ہے کہ افواج پاکستان آئین کے تابع اور اِس کی محافظ ہیں۔
کچھ اور اقدامات سے اِس فیصلے کو جوڑا جائے تو یہ موہوم سی اُمید پیدا ہوتی ہے کہ تمام پریشانیوں کے باوجود پاکستان مثبت سمت میں چل پڑا ہے۔ کَرتار پور بارڈر اوپننگ چھوٹا واقعہ نہیں۔ دہائیوں سے یہ قدم نہیں اُٹھایا جا رہا تھا لیکن اَب ایکدم اِس پہ پیش رفت ہوئی ہے جس کی بنیاد پہ اُمید لگائی جا سکتی ہے کہ ہندوستان کے ساتھ ایک سمجھدارانہ رشتے کی شروعات ہو سکتی ہیں۔
اسلام آباد دھرنا کیس کے حوالے سے جسٹس فائز عیسیٰ کے ریمارکس بھی خاصے اہمیت کے حامل ہیں۔ ایجنسیوں کے کردار کے بارے میں جب گفتگو چھڑی تو اُنہوں نے پوچھا کہ ریاست آئین کے مطابق چلے گی یا خوف و ہراس کے ماحول میں؟ یہ مثبت باتیں ہیں اور ایسی مزید ہونی چاہئیں۔ ایکدم سب حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ ہمارے مسائل پیچیدہ ہیں اور عرصۂِ دراز کی محنت اور ریاضت سے ہم نے اِن کی آبیاری کی ہے۔ ستر سال لگے ہیں چہر ہ مسخ ہونے میں۔ کچھ وقت تو لگے گا اِس کی درستی میں۔ بس اچھے جج ہوں۔ افواج پاکستان کی قیادت صحیح سمت میں جا رہی ہو اور حکومتوں میں وہ لوٹ مار اور نا اہلی نہ ہو جو ہم نے پچھلے ادوار میں دیکھی تو اُمید کی جا سکتی ہے کہ رفتہ رفتہ پاکستان اپنا کھویا ہوا راستہ پھر سے پا سکتا ہے۔
یہ اَمر بھی باعثِ اطمینان ہونا چاہیے کہ جن قوتوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد شورش برپا کرنے کی کوشش کی اُنہوں نے تب اپنا رُعب خوب جمایا لیکن اُس وقت سے لے کر اَب تک اُن کی طاقت میں اضافے کی بجائے کمی واقع ہوئی ہے۔ کیونکہ سطحی تاثر کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے تو میدان میں فیصلہ سپریم کورٹ کا ہی چل رہا ہے اور اُس میں کسی قسم کی تبدیلی لانا کسی کے بس کی بات نہیں۔ نعرے اور کانفرنسیں اور چیز ہیں۔ نعرے لگتے رہیں گے لیکن حقیقت اُن سے نہیں بدلے گی۔
ایک چھوٹی سی التجا کی گنجائش البتہ ہونی چاہیے۔ نئی حکومت ہر لمحہ ریاستِ مدینہ کی بات کرتی ہے۔ یہ اچھی چیز ہے لیکن اِن سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اصلی ریاستِ مدینہ میں اِس گندگی کی کوئی جگہ تھی جو ہم پاکستان کے طول و عرض میں دیکھتے ہیں؟ آئی ایم ایف پروگرام تو ہوتے رہیں گے۔ زرمبادلہ کے ذخائر اُونچے جاتے ہیں یا نیچے، گندگی کو کم کرنے میں کون سا سائنسی دماغ خرچ ہوتا ہے؟ آدھی سے زیادہ گندگی کا موجب پلاسٹک شاپروں کی لعنت ہے۔ یہ لفظ بے جا نہیں، یہ واقعی ایک لعنت ہے جو پاکستان کیا پوری دنیا کو تباہ کر رہی ہے۔ دنیا کے سمندر اِس سے برباد ہو رہے ہیں، وہیل مچھلیاں مُردہ پائی جاتی ہیں تو پیٹ میں سے بھاری تعداد میں پلاسٹک نکلتا ہے۔ ریاستِ مدینہ میں کیا پلاسٹک شاپروں کا استعمال رائج تھا؟ سودا سلف اِن میں لایا جاتا تھا؟ جناب مہاتیر محمد کے بتائے ہوئے نسخے پہ ہم کب عمل کر سکیں گے وہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن ریاستِ مدینہ کا نعرہ لگانے والے کم از کم اِس لعنت کے بارے میں تو کچھ سوچیں۔ چین اور ملائیشیا سے تو کچھ سیکھنے کیلئے وزیر اعظم وہاں گئے لیکن دو اور ملکوں کا بھی دورہ کر لیں، روانڈا اور کینیا کا۔ اِن دو ممالک نے اس لعنت کو ختم کر دیا ہے۔ پلاسٹک شاپروں کا استعمال اِن ملکوں میں ایک سنگین فوجداری جرم ہے۔ جیل بھی جانا پڑتا ہے اور جرمانے بھی بہت بھاری ہیں۔
دو ہی اشخاص اِس بارے میں کچھ کر سکتے ہیں، ایک چیف جسٹس صاحب دوسرے وزیر اعظم۔ آسمان سے کون سی بجلی چمکے گی کہ اِن دونوں میں سے کوئی کچھ اقدام کرے۔ آرمی چیف ایک اچھی مثال قائم کر سکتے ہیں۔ چھاؤنیوں اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹیز میں اِس لعنت کے استعمال پہ پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ اخبارات کی ترسیل کنٹرول ہو سکتی ہے تو کیا اِس لعنت پہ پابندی نہیں لگ سکتی؟