حالات توخراب ہیں لیکن کس کَرب میں ہم پھنسے ہوئے ہیں ۔ بے تُکی باتیں ، خواہ مخواہ کے وعظ اور بے ڈھنگ کا شورشرابہ ۔ پہلی جنگ عظیم میں شکست کے بعد جرمنی کی حالت بہت خراب تھی ۔ بے روزگاری انتہا کی تھی اور افراط ِ زَر آسمان کو چھو رہاتھا۔ جرمنی کی کرنسی کی وقعت نہ رہی تھی ۔ جتنی بے توقیری ہمارے روپے کی ہوچکی ہے جرمن ڈائچ مارک کی حالت اِس سے بھی اَبتر تھی ۔ بازار سے کچھ خریدنا ہو تاتو نوٹوںکے بنڈل لے کے جانا پڑتا۔ ہمارے حالات جیسے بھی ہوں اُس نہج تک ہم نہیں پہنچے اورآسمانوں سے یہی دُعا ہے کہ ایسا نہ ہو۔ لیکن جب جرمنی کی حالت اِتنی خراب تھی تو ثقافتی میدان میں ایک انقلاب برپا ہو گیاتھا۔ برلن کے نائٹ کلبوں میں وہ شو اورمناظر دیکھے جاسکتے تھے جو یورپ میں کہیں اور نہ تھے۔ حتیٰ کہ برلن کے نائٹ کلب پیرس سے بھی آگے جا پہنچے اوریورپ بھر سے سیروتفریح کیلئے لوگ برلن اوردیگر جرمن شہروں کو آتے ۔ ہماری حالت عجیب ہے۔ اگر یہاں معاشی حالات خرابی کو جا پہنچے ہیں تو کہیں نہ کہیں بہتری دیکھنے میں آنی چاہیے۔ لیکن یہاں وہی پرانی بیماری لاحق ہے فضول پابندیوں اورقدغنوں کی۔
جو بھی تدبیریں ہم اَپنا لیں، عرش سے آدھے فرشتے عمران خان کی مدد کو پہنچ جائیں ، معاشی حالات ایکدم نہیں سنبھلیں گے ۔ روپے کی وقعت جلد بحال نہ ہوگی ۔ افراطِ زَر ایکدم کنٹرول نہیں ہوگا۔ بہتری آئی بھی توپہلے حالات اَب سے بھی زیادہ بدتر ہوںگے اور پھر کہیں بحالی کی طرف جائیں گے۔ وہ بھی بشرط قسمت اورآسمان ہمارے ساتھ دیں۔ جب یہ معروضی صورتحال ہے تو پھرعام زندگی میں جو آسانیاں پیدا کی جاسکتی ہیں اُن کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اورجو فضول کی منافقت ہم نے اوڑھ رکھی ہے اُسے پرے کرنا چاہیے ۔
نئے پاکستان کے دعویداروں نے اورکیا کرناہے ، پلاسٹک شاپروں پہ تو پابندی اِن سے لگ نہیں رہی ۔ ایک مرض ہے جس کے اثرات سامنے نظر آرہے ہیں۔ گندگی سے تو ہمیں اُنس ویسے ہی ہے لیکن جو گندگی پلاسٹک شاپروں کی وجہ سے ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ عمران خان سے یہ نسبتاً چھوٹا مسئلہ حل نہیں ہورہا۔ اُن کے ایک حکم کی دیرہے لیکن وہ حکم بادلوں یا پہاڑوں کے پیچھے کہیں گم ہے ۔ کیا کسی مزار پہ جایا جائے اوروہاں دُعا مانگی جائے ؟یا داتا دربار دیگیں چڑھائی جائیں؟ دیگر کارناموں کا وقت پتہ نہیں کب آئے گا۔ یہ معمولی سی چیز اِن بڑے دعویداروں سے ہونہیں رہی۔ تو پھر اورکس چیز کی اُمید باندھی جائے ؟
یہ ایسے کوئی عقلمند لوگ ہیں کہ کبھی اِن کا کوئی وزیر بھینسوں کے مسئلے پہ کسی غریب ہمسائے سے اُلجھ جاتاہے اوریہ معاملہ بڑھتا بڑھتا براستہ سپریم کورٹ قومی مسئلہ بن جاتاہے ۔عام تبادلوں میں بھی مسئلہ پیدا ہونا ہوتاہے ۔ اَب یہ نیا مسئلہ راجہ بشارت کا پیدا کیا ہواہے ۔ کوئی بیوقوف بھی اَب یہ بات سمجھتاہے کہ آپ نے کسی سے فون پہ اُوکھی بات کر دی تواُس نے فوراً ریکارڈنگ پر فون لگا لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ بات سوشل میڈیاپہ پھیل جاتی ہے ۔ لیکن یہ وزیر ہیں کہ اِنہیں کو ن سمجھائے۔بیوقوفیوں سے فرصت ملے تو کسی اوربات کاسوچیں۔ لیکن یہ لوگ کہتے ہیں کہ اتنی جلدی نہ کریں ہمیں وَقت تو دیں۔ کل بذریعہ موٹروے لاہور سے گاؤں آرہاتھا اور بھیرہ انٹر چینج رُکا تو دو خوش لباس خواتین آدھمکیں اورکہنے لگیں، عمران خان کو بخشو اِتنی تنقید کیوں کرتے ہو۔ پھر وہی بات، عمران خان کو وقت تو دو۔ کوئی اِن سے پوچھے کہ پلاسٹک شاپروں کے بارے میں فیصلے کرنے کیلئے کتنا وقت درکاہے ؟ سردار عثمان بزدار سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو کہنے لگے :آئندہ چند دِنوں میں کر دیتے ہیں ۔ وہ چند دِن طویل ہوتے جارہے ہیں لیکن جیسے پہلے عرض کیا کہ فیصلہ ہے کہ کہیں گم ہے ۔
کئی چیزوں کیلئے وسائل درکار ہوتے ہیں ۔ لیکن کئی اور کرنے کے کام ہوتے ہیں جو صرف آپ کے حوصلے اورقوت ِ فیصلہ کے محتاج ہوتے ہیں۔ لیکن اگر فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہی نہ ہو تو اوربات ہے ۔ دنیا بھر کے وسائل آپ کو دے دئیے جائیں پھر بھی آپ کچھ نہ کرسکیں گے اگر آپ فیصلہ سازی کے ہنر سے محروم ہوں ۔
ایسی باتیں کرنے سے بھی جی اُکتا گیاہے ۔ کتنی دفعہ ایک بات دہرائی جاسکتی ہے؟ رونا بھی روتے روتے انسان تھک جاتاہے۔ یونانی شہر ہ آفاق مصنف ہومر (Homer) کی کتاب اُوڈیسی (Odyssey)میں ایک واقعہ درج ہے کہ اُوڈیسو ز (Odysseus) اوراُس کے ساتھی ایک جزیرے سے گزرتے ہیں تو ایک دیو نما چیز کے نرغے میں آکے اُن کے کئی ساتھی مارے جاتے ہیں ۔ مشکل سے جب وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوتے ہیں تو اُن کی کشتی ایک ساحل پہ جا پہنچتی ہے ۔ زمین پہ اُترتے ہی ساتھیوں کو یاد کرتے ہوئے ماتم شروع ہوجاتاہے ۔ بہت روتے ہیں۔ روتے روتے اُنہیں بھوک آلیتی ہے ۔ تو ایک بڑے بیل کو ذبح کرکے اُسے کھلی آگ کے شعلوں میں پکاتے ہیں۔ کھانے سے فارغ ہوتے ہیں تو مرے ساتھیوں کی یاد پھرآتی ہے اوروہ سب دوبارہ رونے لگتے ہیں اورپھر روتے روتے نیند کا غلبہ آجاتاہے اوروہ تمام ساتھی وہیں ساحل پہ سوجاتے ہیں۔ یعنی کوئی کیفیت دائمی نہیں رہتی ۔ غم کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔
ہمارا حال بھی یہی ہے کہ کتنا روئیں ۔ روتے روتے اور خیال ذہن میں آجاتے ہیں ۔ یہ تو عام مشاہدہ ہے کہ غریب سے غریب بستی ہو، بچے جب اُس کے کھیل کود میں مشغول ہوجائیں تو اَپنی غربت اور تمام تر حالات کو بھول کر ہنسی اُن کے چہروں پہ آجاتی ہے ۔ ہمیں بھی کوئی ہنسنے کا سامان میسر ہونا چاہیے ۔
دوسری جنگ عظیم میں جب لندن پہ جرمن بمبار روزانہ کی بنیاد پہ تباہی مچا رہے ہوتے تھے ، تو لندن کے پَب (pub) اور میخانے کبھی بند نہ ہوئے ۔ لندن اورپورے انگلستان میں بلیک آؤٹ کی کیفیت ہوتی یعنی کوئی لائٹ نظر نہ آتی لیکن کالے پردوں کے پیچھے اورموم بتیوں کی روشنیوں میں میخانے اپنا کام جاری رکھتے ۔ وردی پہنے افسران وہاں آتے ۔خوش قسمت اُن میں سے اپنی گرل فرینڈوں کے ساتھ ہوتے۔
پہلی جنگ عظیم کے شروع کے دو سالوں میں ونسٹن چرچل برطانوی کابینہ کے ممبرتھے اورذمے اُن کے برطانوی نیوی تھی یعنی وہ فرسٹ لارڈ آف دی ایڈمرلٹی(First Lord of the Admiralty) تھے ۔ یہ اُنہی کے دماغ کی اختراع تھی کہ ترکی کو ہرانے کیلئے گیلی پولی (Gallipoli)پہ حملہ کیاجائے ۔ حملہ ہوا اور برطانوی اورساتھی افواج کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑا ۔ یہ وہی محاذ تھا جس میں 19ڈویژن کو کمانڈ کرتے ہوئے مصطفی کمال پاشا کانام روشن ہوا اور وہ پہلی بار منظرِ عام پہ آیا۔ اِس شکست کے بعد چرچل کو کابینہ چھوڑنی پڑی ۔ چونکہ وہ فوج میں رہ چکے تھے اوراپنی پرانی رجمنٹ میں اُن کیلئے جگہ تھی تو کابینہ سے نکلتے ہی فرانس میں اپنی رجمنٹ میں شامل ہونے کیلئے تیاری شروع کر دی۔ کپڑے اپنے ہمیشہ سیول رو (Saville Row) سے سلاتے اور محاذپہ جانے کے لئے اپنی فوجی وردیاں بھی وہیں سے تیارکروائیں۔ بوٹ وغیرہ بھی حسب معمول لندن کے مہنگے ترین سٹور وں سے لیے۔ لیکن ساتھ ہی میخانے کا پورا بندوبست بھی کیا۔ کوئی آدھا ٹرک وسکی کا ہوگا ،آدھا برانڈی کا اورپوری سپلائی وائن کی بوتلوں کی ۔ اِس انداز میں محاذ ِ جنگ پہ پہنچے ۔ فرانس میں لڑائی بہت سخت تھی اوردونوں اطراف کے فوجیوں کو ناقابل تصور تکالیف ومصیبتوں کاسامنا تھا ۔ مورچوں میں رہنا پڑتا اوروہاں سردی اور بارش برداشت کرنا پڑتی۔ اوروں کے ساتھ چرچل نے بھی یہ سب کچھ برداشت کیا۔ لیکن سامان جنگ تو اُن کے ساتھ تھا۔بندوبست اُن کا مکمل تھا۔
ہم ہیں کہ حالات خراب اورمصیبتیں بہت لیکن سامانِ جنگ کچھ بھی نہیں۔فرانس جا کر چرچل رویا نہیں ۔ سردی اورحالات کا مقابلہ کیا۔ آسانیاں اپنے لئے ہم پیدا کرنہیں سکتے ۔اِتنی ہمت نہیں۔ سوکوئی عجیب بات نہیںکہ ہمارا رونا تھمتا نہیں۔