معاشی زبوں حالی ایک طرف رہی، اِس حکومت کی گرفت عمومی معاملات پہ بالکل نہیں۔ سپریم کورٹ نے پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی اگلے روز جو کلاس لی وہ پوری پنجاب حکومت پہ فٹ آتی ہے۔ بڑی بڑی نکمّی حکومتیں ہم نے دیکھی ہیں لیکن یہ نئے پاکستان والی حکومتیں اپنی مثال آپ ہیں۔
عمران خان اور اُن کی ٹیم کے دفاع میں ایک ہی گردان سنائی جاتی ہے کہ اِن کی نیتیں ٹھیک ہیں۔ معاملات آپ سے چلائے نہ جا رہے ہوں تو آپ کی نیتوں سے عوام کیا کریں؟ عام آدمی کا واسطہ لوکل انتظامیہ سے پڑتاہے اوراگر اُس کی حالت خراب ہے اورآپ کا کنٹرول صفرسے بھی کم تو عام آدمی کی صحت پر کیا فرق پڑتاہے کہ سعودی عرب نے خیرات میں اِتنے ڈالردئیے اوریواے ای نے اِتنے ؟
چکوال کی جہلم روڈ پہ ایک بیوہ کی کچھ دوکانیں ہیں جس پہ ایک دیرینہ کرایہ دار نے قبضہ جمالیا اورمعاملہ عدالتوں تک جا پہنچا۔ پہنچتے پہنچتے اَب کیس سپریم کورٹ میں لگناہے ۔ لیکن داد دیجیے چکوال پولیس کو کہ یہ پروا کیے بغیر کہ معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے ہے اُس نے بیوہ اوراُس کے داماد پہ دوکانوںپر قبضہ کرنے والے کی ایماء پر چوری کا مقدمہ درج کردیا۔ قابض، جو کہ ایک ریٹائرڈ اہلکار ہے، نے ڈرامہ یہ رچایا کہ خود ہی رات کے اندھیرے میں دوکانیں گرادیں‘ اور درخواست دی کہ میری اِتنی کھل کی بوریاں چوری ہوگئی ہیں۔ پولیس ملی ہوئی تھی‘ اورآؤ دیکھا نہ تاؤ ، پرچہ درج کردیا۔ یہ کارنامہ تھانہ سٹی چکوال میں سرانجام دیا گیا۔ تھانے کا ایس ایچ او بھی ملوث تھا اورتفتیشی اے ایس آئی بھی جو اپنے شاطر پن کی وجہ سے پورے چکوال میںمشہوری رکھتاہے ۔
اِس سارے ماجرے کی سرپرستی ایک ڈی ایس پی کررہاتھا جس کے قریبی تعلقات قبضہ کرنے والے سے ہیں۔ تعلقات کی وجہ یہ کہ ڈی ایس پی صاحب نے گائے بھینسیں رکھی ہوئی ہیں اوراُن کے پٹھے یا چارہ قبضہ کرنے والے سے آتے تھے جس کا کاروبار بھوسہ وغیرہ کا ہے۔ ڈی ایس پی خرانٹ قسم کا آدمی ہے،کئی سالوں سے چکوال میں تعینات ہے ۔ کھلی چھٹی اُسے اس لئے بھی ملی کہ ڈی پی او نیا نیا تعینات ہواہے اوربالکل ناسمجھ اورناتجربہ کارہے ۔ڈی پی او کو بارہا سمجھایاگیا کہ یہ غلط کام ہورہاہے، مجبوروں اورلاچاروں کو ایسے تنگ کرنا اچھا نہیں اور بہرحال پولیس کا یہ کام نہیں کہ قبضوں میں کسی ایک فریق کی معاونت کرے۔ ڈی پی او نے کہا کہ دونوں فریقوں کو بلا لیتاہوں اورمعاملہ سُنتاہوں ۔ معاملہ اُس نے ایسا سُنا کہ قابض کرایہ دار کو کہا کہ گرائی ہوئی دوکانوں کو تم دوبارہ تعمیر کرسکتے ہو۔ گزشتہ اتوار قابض کرایہ دار نے بیسیوں مزدور بُلوا کے کام شروع کردیا۔ جب بیوہ کے داماد نے کچھ کہنا چاہا تو تفتیشی آیا اورگالیاں دیتے ہوئے اُسے پکڑکے تھانے لے گیا ۔
بیوہ اوراُس کی بچیاں چیختی چلاتی رہیں لیکن سُننے والا کون تھا؟ ڈی پی او سے پھر رابطہ کیاگیا اوراُس نے کہا کہ جی یہ بالکل ٹھیک ہے کہ گرائی ہوئی دوکانیں دوبارہ تعمیر کی جائیں۔یعنی دن دیہاڑے، چکوال کی ایک مصروف ترین سڑک پہ قبضے کا تماشہ جاری ہے اورپولیس قبضہ والوں کے ساتھ کھلم کھلا کھڑی ہے۔ لاہور میں چیف منسٹر پنجاب سردارعثمان بزدار کے قریبی معاونین سے رابطے کی کوشش کی گئی ۔ چیف منسٹر کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گِل متحرک اور پڑھے لکھے نوجوان ہیں ۔ چیف منسٹر شیخوپورہ کے دورے پہ نکلے ہوئے تھے ۔ شہباز گِل نے چیف منسٹر کو واقعے کا بتایا اورچیف منسٹر صاحب نے فوری طورپہ آر پی او راولپنڈی کو کہا کہ معاملے کو دیکھے اوراُس کا فوری حل تلاش کرے ۔ تب تک معاملہ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری تک پہنچ چکا تھا ۔ جب چیف جسٹس صاحب کے نوٹس میں بات آئی تو اُنہوںنے فوری حکم دیا کہ فریقین اورڈی پی او چکوال سپریم کورٹ اسلام آباد میں اگلے روز حاضر ہوں۔ اِتنا کچھ ہوچکاتو آرپی او راولپنڈی سے ٹیلی فون پہ بات ہوئی۔ فرمانے لگے کہ میںکسی سینئر افسر کو معاملے کی تفتیش کیلئے چکوال نہ بھیج دوں ؟ میں نے عرض کیا کہ قبضہ اِس وقت تماشائیوں کے سامنے جاری ہے‘ اِس کا کچھ کیجیے۔ کہنے لگے: پہلے معاملے کی تہہ تک تو پہنچ جائیں۔ یعنی آرپی او صاحب، جو بڑے بھلے مانس آدمی لگتے ہیں اوریقینا اُن کی نیت بھی اِتنی ہی اَچھی ہوگی جتنی کہ عمران خان صاحب اور اِس حکومت کی، نے عملی طورپہ گولی دینے کی کوشش کی ۔ اُن کی تجویز کردہ تفتیش کے ختم ہونے تک صوبیدارنے دیواریں اور چھت تعمیر کرلینے تھے۔ انکوائری بھی ہوتی رہتی اوربیوہ اوراُس کی بچیاں ساتھ ساتھ روتی بھی رہتیں۔ میں نے آرپی او سے کہا کہ چیف جسٹس صاحب نے معاملے کا نوٹس لے لیاہے،اُس کا انتظار کرناچاہیے۔
چیف جسٹس صاحب کے نوٹس لینے کی خبر چکوال میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ پولیس کی دوڑیں لگ گئیں اوروہی چکر باز تفتیشی جو پہلے قبضہ کرنے والوں کی معاونت کر رہا تھا موقع پہ پہنچ گیا اور کنسٹرکشن رُکوا دی ۔ سڑک پہ لوگ اِس اثناء میں جمع ہوچکے تھے اوریہ سارا تماشہ دیکھ رہے تھے ۔
اگلے روز یعنی سوموار کی صبح کو چیف جسٹس صاحب نے فریقین کو چیمبر میں سُنا اورحکم دیا کہ بیوہ کی بات بھی سُنی جائے اورقانون کے مطابق پرچہ بنتاہے تو دیاجائے ۔ ڈی پی او سے پوچھا گیا کہ کس اتھارٹی کے تحت اُس نے تعمیر کی اجازت دی تھی ؟یہ بھی عندیہ ہوا کہ سپریم کورٹ میں کیس کی تاریخ جلد لگ جائے گی ۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر غریبوں اورلاچاروں کی داد رَسی کیلئے سپریم کورٹ کا ہی ایک راستہ رہ گیاہے تو یہ حکومتیں کس کام کی ہیں ؟یہ بات دُرست ہے کہ سردارعثمان بزدار نے فوراً ایکشن لیا اورآر پی او راولپنڈی کو معاملے سے مطلع کیا۔آر پی او چھوٹی پوسٹ نہیں لیکن کوئی آر پی او سے پوچھے کہ اگر چیف جسٹس صاحب فریقین کو بلا سکتے ہیں، اُن کی بات سُن سکتے ہیں اور قانون کے مطابق فوری فیصلہ دے سکتے ہیں تو پولیس افسران کو کون سے وٹامن کا ٹیکہ لگنا چاہیے کہ وہ بھی اِس قسم کاایکشن لے سکیں ؟آرپی او سمجھ سے کام لیتے تو ڈی پی او کوکہتے کہ جاؤ اورکنسٹرکشن رُوکو اورکل صبح فریقین کو میرے سامنے لے آؤ۔ یہ کرنے کی بجائے وہ ڈی پی او کی رام کہانیاں سُننے لگا اورکہنے لگا کہ معاملہ کچھ یوں بھی ہے اوریوں بھی ۔ مطلب یہ کہ فوری ایکشن نہیں لینا ۔نیت اُن کی یقینا ٹھیک ہوگی لیکن عملاً جو کررہے تھے وہ گولی دینے کے مترادف تھا۔ ڈی پی او میں سمجھ ہوتی تو معاملے کو آگے بڑھنے ہی نہ دیتا ۔ لیکن ڈی پی او نے کیا فیصلہ کرنا تھا ، وہ تو ڈی ایس پی کے ہاتھوں میں کھیل رہاتھا اورڈی ایس پی کو صرف اپنی بھینسوں کا چارہ نظر آ رہا تھا۔
یہ محض چکوال کی کہانی نہیں۔ ہر جگہ پولیس بے لگام ہے کیونکہ پوچھنے والا کوئی نہیں ۔ شام کو مجھے ڈاکٹر شہباز گِل نے فون کیا اورپوچھا کہ معاملہ حل ہو گیا ؟ میں نے بتایا کہ آر پی او نے کوئی فوری ایکشن نہ لیا اورلاچار بیوہ کو ریلیف ملا تو چیف جسٹس ثاقب نثار کی وجہ سے ۔ شہباز گِل کو بھی اِس بات پہ بہت رَنج ہوا کہ آرپی او نے ایسا کیوں کیا۔میں نے اُن کا شکریہ ادا کیا کہ آپ نے تو اپنا فرض نبھایا، محکموں کی کارکردگی ہی ایسی ہے تو کیا کیا جائے؟
حکومت کمزور ہے اوراُس کی حالات پہ گرفت نہیں۔ پی ٹی آئی کے بیشتر ایم این ایز اورایم پی ایز بھی بس ویسے ہی ہیں۔ چیف منسٹر صاحب کا دل ٹھیک جگہ پہ ہے لیکن انتظامیہ کی کارکردگی پر نظر کچھ تیز اورسخت رکھنے کی ضرورت ہے ۔ یہ بھلا کیا ہواکہ صوبے کا چیف ایگزیکٹو ایک حکم دے رہاہے اورمتعلقہ افسر مصلحت اورسستی کا شکار ہو رہاہے ۔