(جنوری 2018ء میں کندن لعل سہگل کی 72ویںبرسی ہے)
بڑے گویّے آئے ، کیا کیا گیت اورغزلیں اُنہوں نے گائیں۔ لیکن کندن لعل سہگل کا منفر دمقام ہے ۔ ایک تو یہ بات ہے کہ ہندوستانی سینما میں پلے بیک گائیکی کا صحیح آغاز اِنہی سے ہوتاہے۔ مشہور گلوکارہ شمشاد بیگم نے ایک انٹرویو میں اِس خیال کااظہار کیا کہ سہگل صاحب سے پہلے مرد عورتوں کی طرح گاتے تھے ۔ سہگل نے ہی فلموں میں مردانہ گائیگی کو ایک نیا روپ اورانداز دیا۔
لیکن یہ کہ سہگل آج بھی یاد کیے جاتے ہیں اورجب اُن کی آواز اُٹھتی ہے تو د ِلوں کے تار عجیب انداز سے ہل جاتے ہیں‘ اِس کی وجہ اور ہے۔ اُن کی آواز کمال کی تھی ۔درد بھی تھا مٹھاس بھی ۔ اکثر اُن کے گانے ایسے ہیں کہ چندالفاظ بھی ادا نہ ہوئے اوردل پہ جادو کا سا اثر چڑھ گیا۔ خوشی کے گانے کم گائے اُداسی کے زیادہ لیکن جو بھی گایا، چھوٹا گانا یا بڑا ، اُن کی گائیکی سے ایک جذباتی کیفیت ایسے طاری ہوجاتی ہے کہ کچھ نہ پوچھیں۔ یہ اپنے اپنے ٹمپرامنٹ (Temperament) اور مزاج کی بھی بات ہے ۔ آج کل کے نوجوان شاید اُس آواز سے اتنے متاثر نہ ہوں۔ ہندوستان میں جب کسی سروے کی خاطر نوجوان نسل سے سہگل صاحب کے بارے میں پوچھا جاتاہے تو بہتوں نے اُن کانام بھی نہیں سُنا ہوتا‘ لیکن ہم جیسے لوگ جو پرانی یادوں میں رہتے ہیں اورنوسٹیلجا (Nostalgia) کے مریض ہیںہمارے لیے توایسی آواز اورایسی گائیکی پیدا ہی نہیں ہوئی جیسی سہگل صاحب کی تھی ۔
غزل گانے والے بہت رہے ہیں لیکن میرے جیسے آدمی کو غزل گائیکی پسند ہے تو سہگل صاحب کی ۔ روایت ہے کہ جب جموں میں تھے تو ایک گانے والی کے کوٹھے کے نیچے سہگل جا کھڑے ہوتے اوراُس کے گانے سُنتے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ سہگل کی غزل کی ادائیگی میں کوٹھے کا رنگ نظر آتاہے۔ اُستاد صاحبان اِس بات کی تصدیق کردیں توپھر ہرشخص جسے غزل گائیکی کا شوق ہو اُسے کسی عمدہ گانے والی کے کوٹھے کے نیچے کھڑا ہونا چاہیے ۔ گو اِس میں دشواری یہ رہے گی کہ نہ وہ کوٹھے رہے نہ پرانے زمانے کی کوٹھے والیاں۔ اِب زہرہ بائی اوربیگم اختر جیسی کہاں سے آئیں گی؟
سہگل کے والد مہاراجہ جموں وکشمیر کی سروس میں تحصیلدار تھے۔ اُس وقت تحصیلدار بڑاعہدہ سمجھاجاتاتھا۔ سہگل کا دِل سکول کی پڑھائی میں نہیں لگتاتھا۔ وہ کھوئے کھوئے رہتے اوربہت کم عمر میں گانے کے شوق کی طرف مائل ہوگئے۔ اپنی والدہ کیسری بائی کے ساتھ ہندومذہبی تہواروں میں کہیں جاتے تو والدہ کوئی بھجن وغیرہ گاتیں اورکم عمر سہگل بھی ساتھ ہولیتے۔جموں میں ایک بزرگ ہوا کرتے تھے پیرسلمان یوسف۔ کیسری بائی ننھے سہگل کو پیر سلمان یوسف کے پاس لے گئیں اور وہاں بزرگ نے جب سہگل کو سُنا تو یہ پیشگوئی کی کہ بہت بڑا گویّا بنے گا۔
گویّا کیا بننا تھا ، بارہ تیرہ سال کی عمر میں سہگل کی آوازکھو گئی اوروہ کچھ گانے کے قابل نہ رہے ۔ پریشانی کے عالم میں کیسری بائی کندن لال کو پیرسلمان یوسف کے پاس پھر لے گئیں۔ بزرگ نے کہا کہ لڑکے نے ایسا ریاض نہیں کیا جیسا میں نے کہا تھا۔ پیرصاحب نے پھر ریاض کے نکتے تجویز کیے اورکہا کہ باقاعدگی سے ریاض کروگے توآواز ٹھیک ہوجائے گی۔ سہگل صاحب جب شہرت کی بلندیوں پہ پہنچ چکے تھے تو اکثر کہتے کہ تیرہ سال کی عمر میں ایک بزرگ کے ذریعے اُنہیں دوبارہ زندگی ملی ۔
لیکن کہاں گاناگانے کا شوق اورکہا ں تحصیلدار صاحب کا رعب اوردبدبہ ۔ اُنہیں اپنے بیٹے کی روش بالکل پسند نہ تھی اورکیسے ہوسکتی تھی؟ہم تو آج تک کہتے ہیں کہ یہ گانا وغیرہ مراثیوں کاکام ہے ۔ اُس زمانے میں یہ تصور زیادہ زوروں پہ ہوگا ۔ چڑ کے تحصیلدار صاحب کندن لال کو اکثر کہتے کہ جاؤ باورچی خانے میں اورعورتوں کاکام کرو۔ اِسی ٹریننگ کی وجہ سے سہگل جب بڑے ہوئے تو کھانا بہت اچھا پکا لیتے تھے ۔
والدصاحب سے چونکہ تعلقات ٹھیک نہ تھے تو سہگل کم عمری میں ہی گھر چھوڑ گئے۔ ہندوستان ریلوے میں ٹائم کیپری کی، شملہ گئے اوروہاںایک تھیٹر میں گانا شروع کیا۔ وہاں سے آئے تو کانپورپہنچ گئے اوروہاں ایک دکان سے منسلک ہوکے پھیری کے ذریعے ساڑھیاں بیچنے لگے۔ کہتے ہیں کہ ریلوے ٹائم کیپری کے زمانے میں ایک سارنگی نواز ریلوے پلیٹ فارم سے گزر رہاتھا کہ اُس نے کسی کو گاتے سُنا۔ سامان کے ڈبوں پہ لیٹا ایک نوجوان کچھ گارہاتھا۔ آواز ایسی تھی کہ سارنگی نواز دم بخود رہ گیا ۔ نوجوان کو گھر لے گیا اورسارنگی کے ساتھ اُسے گانے کو کہا ۔ سارنگی نواز کو حیرت میں ڈال کے نوجوان نے کچھ گایا اوراچانک اُٹھ کے چل دیا۔
کانپورسے سہگل کلکتہ پہنچے۔ گزر اوقات کیلئے وہاں بھی پھیر ی کاکام کیا۔ ہریش چندربالی اُن کا ایک پنجاب سے جاننے والا تھا۔ کبھی اُس کی قیام گاہ پہ سہگل زمین پہ پڑا ؤ لگا کے سوجاتے۔ ہریش چندر بالی کی اُس زمانے کے مشہور میوزک کمپوزر رائے چند برال سے سلام دعا تھی۔ وہ برال سے کہتے رہے کہ اِس نوجوان کو سُن تو لو۔ نیو تھیٹرز‘ جس کے ساتھ آرسی برال منسلک تھے‘ میں بالآخر آڈیشن کا ٹائم مقرر ہوا۔ سہگل نے باقاعدہ میوزیکل ٹریننگ کہیں سے نہیں لی ہوئی تھی ۔ اُن کااستاد کوئی نہیں تھا ،سوائے اگر آپ کہیں کہ پیر سلمان یوسف نے اُن کے سرپہ ہاتھ پھیرا۔ آڈیشن کے دوران سہگل سے کہاگیا کہ فلاں راگ میںکچھ گاؤ‘ تو سہگل نے کہا کہ آپ مجھے بس دُھن بتادیں تو میں گالوں گا‘ ویسے میرے لیے مشکل ہو گی۔ کچھ نشاندہی کی گئی تو سہگل نے گانا شروع کیا۔ کہتے ہیں کہ سٹوڈیو میں سناٹا چھاگیا ۔ ایسی آواز کسی نے نہ سُنی تھی ۔ ایسے لگتاتھا کہ بھگوان زمین پہ اُتر آیا ہے۔
نیو تھیٹرز کے ساتھ دو سو روپے ماہوارکا کنٹریکٹ ہو گیا۔ پہلی فلمیں‘ جن میں سہگل نے گایا‘ اِتنی کامیاب نہ ہوئیں‘ لیکن فلم پورن بھگت میں سہگل کے گائے چار بھجنوں نے پورے ہندوستان میں تہلکہ مچا دیا۔ اُس کے بعد ایک کامیابی کے بعد دوسری ہوئی اور بہت جلد سہگل ہندوستانی سینما کے اُفق پہ راج کرنے لگے۔ شکل ہیرو ؤں والی نہیں تھی ۔ بال بھی وقت سے پہلے جھڑنے لگے۔ لیکن آواز تھی اورگانے کا کمال کہ ایک سے بڑھ کر ایک فلم سُپر ہٹ ہوئی۔ آج بھی وہ گانے سُنیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کس کس فلم کا نام لیا جائے: کاروانِ حیات، یہودی کی لڑکی ، تان سین اور پھر جو آج بھی شاہکار مانی جاتی ہے‘ دیوداس۔ بنگالی فلموں میں بھی سہگل نے کام کیا۔ رابندراناتھ ٹیگور کے گانے‘ جن کو رابندرا سنگیت کہتے ہیں‘ صرف بنگالی گائیک گاتے تھے ۔ بنگال میں ایک سے بڑھ کر ایک گانے والا تھا۔ جب سہگل کا نام لیا گیا تو ٹیگور نے پہلے اعتراض کیا کہ پنجابی کیسے صحیح طریقے سے میرے گانے گا سکتاہے ۔ لیکن جب سہگل کو خود سُنا تو ہاں کہہ دی۔ سہگل کے بنگالی گانے سُنیے تو لگتا ہے کہ جس کی مادری زبان بنگالی ہے‘ گا رہا ہے۔
پنجابی میں البتہ صرف دو ہی گانے ہیں جو ہمارے زمانے تک پہنچ سکے ہیں :پہلا 'اوسوہنے ساقیا میری گلی وی پھیرا پاندا جا‘ اور دوسرا 'ماہی نال جے اَکھ لڑدی کدی ناںـ‘۔ جو سوز اِن دو گیتوں میں ہے کہیں اور نہیں ملتا۔
سہگل جب کلکتہ گئے تو وہی شہر ہندوستانی سینما کا مرکز تھا۔ ہماری نورجہاں نے بھی اپنی باقاعدہ گائیکی کا آغاز وہیں سے کیا تھا۔ لیکن دوسری جنگ عظیم کے دوران بمبئی فلم سنٹر کے طور پہ اُبھرنے لگا اور بالآخر سہگل اُس شہر کو چھوڑ کر‘ جہاں اُن کا عروج ہوا تھا‘ بمبئی آ گئے۔ یہاں اُن کی تین فلمیں لگاتار فلاپ ہوئیں اور کہتے ہیں کہ سہگل غم کے بادلوں میں چلے گئے۔ پینے کا شوق تو پراناتھا لیکن بمبئی آ کے پینا کچھ زیادہ ہی ہوگیا حتیٰ کہ اُن کی صحت پہ اَثر پڑنے لگا۔ فلم' شاہ جہاں‘ البتہ بہت مقبول ہوئی جس کی موسیقی نوشاد علی نے ترتیب دی تھی اورجس میں ایسے مشہور گانے ہیں 'جب دل ہی ٹوٹ گیا ‘ اور 'غم دئیے مستقل ‘۔ فلم 'پروانہ‘ اتنی کامیاب نہ رہی لیکن آج بھی اُس کے گانے سُنیں تو دِ ل میں عجیب کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔