یہ کیا فضول بات ہے کہ ججوں کو بولنا نہیں چاہیے‘ اُن کے فیصلے بولتے ہیں۔ ہمارے جیسے معاشرے میں قانونی موشگافیوں سے کام نہیں چلتا۔ آپ لاکھ انگریزیاں لکھیں کسی پہ کیا اثر۔ کام چلتا ہے تو جھٹکے سے ورنہ حکمرانی بھی بیکار اور ججی بھی۔
ثاقب نثار صاحب جج پہلے جیسے بھی تھے اُس سے کسی کو زیادہ سروکار نہیں اور نہ ہو گا۔ اُن کا آخری پھیرا اور وہ بھی تقریباً ایک سال پہ محیط دھڑلے والا تھا اور اگر اُن کی کوئی یاد باقی رہی تو اِسی پھیرے کی وجہ سے رہے گی۔ فیصلے اُنہوں نے کتنے لکھے اور لارڈ بیکن اور شیکسپیئر کے حوالے کتنی دفعہ دئیے یہ باتیں حافظوں میں محفوظ نہیں رہیں گی۔ یاد کیے جائیں گے تو اُن کے بے باک اقدامات جن میں وہ جج سے زیادہ کسی جرگے کے چوہدری لگتے تھے۔ جوہر ٹاؤن کے وہ برادران جنہوں نے قبضہ جیسی مشقوں سے شہرت پائی اُن کو کون چھیڑ سکتا تھا؟ اُن کی تجاوز پہ قائم دیواریں گرائی گئیں۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہ تھی۔ ہمارے معاشرے میں بڑے مگر مچھ‘ جن کے ہاتھ لمبے ہوں‘ بچ نکلتے ہیں اور کسی کام میں اُنہیں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کیونکہ اُن کے دفاع میں بڑے بڑے وکیل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اِن برادران کے بارے میں نون لیگی حلقے تو یہ بھی کہتے تھے کہ وہ جو رائے ونڈ کی طرف بڑا سا محل ہے‘ اُس کے روزانہ کے اخراجات یہ اُٹھاتے تھے۔ حکومتیں کسی کام کی ہوتیں تو ایسے عناصر کے خلاف کوئی ایکشن لیتیں‘ لیکن ہمارے ہاں حکمرانی پتہ نہیں کس چیز کا نام ہے۔ کام ہوتا نہیں، فیصلے کر نہیں سکتے، بڑھکوں سے زیادہ جاتے نہیں اور اگر کوئی جج ثاقب نثار صاحب جیسا کام کرے اور اوکھے فیصلے سُنائے تو تنقید کی توپیں کھل جاتی ہیں کہ اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کر رہے ہیں۔ کچھ نہ کرو تو دائرہ اختیار قائم‘ کچھ کرو تو آپ تجاوز کے مرتکب۔
اور وہ بٹ صاحب‘ جن کا قبضہ مستی گیٹ کی قیمتی اراضی پہ تھا‘ اُنہیں کون ہاتھ لگا سکتا تھا؟ لیکن ثاقب نثار ہی تھے جن کی عدالت میں اُن بٹ صاحب کو پیش ہونا پڑا اور اُن کا قبضہ چھڑوایا گیا۔ یاد رہے کہ لاہور شہر کے اُونچے شرفاء میں اِن بٹ صاحب کا نام شمار ہوتا ہے۔
بڑی صلاحیت ثاقب نثار میں یہ تھی کہ معاملے کی تہہ تک فوراً پہنچ جاتے اور پھر کسی لیت و لعل کے بغیر فیصلہ سُنا دیتے۔ یہ بھی روایت اُنہوں نے قائم کی کہ ہفتہ اور اتوار کو لاہور رجسٹری میں بیٹھتے اور عدالت لگاتے۔ قسمت اور حالات کے مارے سائلین رجسٹری کے سامنے جمع ہوتے۔ جج صاحب کی کوشش ہوتی کہ ساروں کو سُنا جائے اور حتی الوسع غریبوں اور لاچاروں کو کوئی ریلیف ملے۔ جو لوگ اور دَروں سے ناکام لوٹتے اُن کیلئے جج صاحب کی رجسٹری آخری اُمید ہوتی۔ ہمار ے ہاں کام کرنے کی روایت ہی نہیں۔ جو کام کا معیار ثاقب نثار صاحب نے قائم کیا اگر وہ روایتِ حکمرانی اور افسری بن جائے تو پاکستان کے آدھے مسائل ختم ہو جائیں۔
اوائل کے ایام‘ ججی میں جج صاحب کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ نون لیگ کے حمایتی ہیں۔ باالفاظ دیگر میاں نواز شریف کے بندے ہیں۔ لیکن آخری پھیرے میں اُن کے ہاتھوں نون لیگ کی چیخیں نکل گئیں۔ بہتوں کے مزاج درست ہوئے۔ لاہور کے خواجہ برادران کی بھی خوب کلاسیں لگیں۔ پانامہ کا فیصلہ تو اور ججوں نے کیا‘ لیکن اگر سپریم کورٹ کی سربراہی جج ثاقب نثار صاحب کے پاس نہ ہوتی تو شاید پانامہ بینچ بھی ایسا کام نہ کر سکتا جیسا کہ اُس نے کیا۔ ریفرنسز بھی احتساب عدالتوں میں سُنے گئے۔ لیکن وہاں بھی جو فیصلے آئے اُن کی ایک وجہ یہ تھی کہ عدلیہ کی سربراہی مضبوط ہاتھوں میں تھی۔ وہ کیا پنجابی کا محاورہ ہے کہ کِلّہ مضبوط ہونا چاہیے۔ یعنی پیچھے کوئی کھڑا ہو تو پھر آپ بھی با ہمت ہو جاتے ہیں۔ عدلیہ میں بھی ہمت آئی جب ادارے کا کِلّہ مضبوط تھا۔ نہیں تو ایک زمانے میں نون لیگیوں کے سامنے ججوں کی حیثیت کیا تھی؟ یہ لوگ تو لاہوری ناشتہ کر کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ پہ چڑھ دوڑے تھے‘ اور جج صاحب کو کورٹ روم سے تقریباً بھاگنا پڑا تھا‘ لیکن اَب کی بار نون لیگی قیادت عدلیہ کے سامنے مکمل بے بس ہو کے رہ گئی۔ نہ عدلیہ پہ اَثر ڈال سکے نہ سپریم کورٹ کے حکم سے بنائی گئی جے آئی ٹی پہ اُن کا کوئی اَثر چل سکا۔ اگر آخر میں نون لیگی قیادت نے بالکل ہتھیار ڈال دئیے تو اُس کی یہی وجہ تھی کہ عدلیہ کا کچھ بگاڑ نہ سکے۔ اور کہیں نام رہے یا نہ رہے ثاقب نثار صاحب کا نام نون لیگی حافظوں میں ضرور محفوظ رہے گا۔ جنرل مشرف نے بھی نون لیگی قیادت کو چوٹیں پہنچائیں‘ لیکن جو زخم عدلیہ کے ہاتھوں اِنہیں کھانے پڑے وہ کہیں زیادہ مہلک تھے۔
جو اپنے آخری پھیرے میں چیف جسٹس صاحب نے کیا وہ فہرست لمبی ہے۔ لیکن اور چیزوں کو چھوڑئیے، اگر دو فیصلے ہی یاد رکھے جائیں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اِس سپریم کورٹ کا مقام پاکستانی تاریخ میں کیسا سمجھا جائے گا۔ ایک وہ 302 کا مقدمہ جو مرحوم گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے بعد قائم ہوا۔ جو فیصلہ نیچے سے آیا اُس کی توثیق جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں قائم بینچ نے کر دی۔ اور پھر اُس فیصلے پہ خدشات اور خطرات کے باوجود عمل بھی ہوا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور اُن کے ساتھی جج نہ مصلحت کا شکار ہوئے نہ کسی ڈر کے۔ اور پھر بہت التواء کے بعد آسیہ بی بی کے کیس کا فیصلہ۔ کیس کو بہت لٹکائے رکھا گیا تھا۔ اگر سپریم کورٹ مزید لٹکائے رکھنا چاہتی تو اُسے کون روک سکتا تھا؟ لیکن ایک موقع پہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے یہ کہا کہ آسیہ کیس کا فیصلہ اِسی دور میں ہو گا اور پھر اپیل سُننے کے لیے جو بینچ بنا اُس کی سربراہی اُنہوں نے خود کی۔ اور روشنیاں مانند بھی پڑ جائیں‘ یہ فیصلہ یاد رکھا جائے گا۔ یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ فیصلہ اور نوعیت کا ہوتا تو صرف آسیہ بی بی کے نہیں تصورِ پاکستان کے خلاف ہوتا۔ ججوں نے لاج رکھی تو نہ صرف قانون کی بلکہ قوم کے وقار کی بھی۔
انگریزیاں لکھنا آسان کام ہے (گو اچھی انگریزی لکھنا یا کوئی بھی اَچھی زبان لکھنا اِتنا آسان بھی نہیں)۔ بات تو یہ ہے کہ جو اختیارات اور دَبدبہ کسی منصب سے ملے اُسے انسان کس انداز میں استعمال کرتا ہے۔ ہر تھانیدار اور ایس پی کے پاس اختیارات تو ایک جیسے ہوتے ہیں، وہی اختیارات جو قانون اور ضابطے سے ملتے ہیں‘ لیکن ہر تھانیدار صحیح تھانیداری نہیں کر پاتا۔ وہ کوئی کوئی ہوتا ہے جسے ہمت اور استقامت میسر ہوتی ہے۔ شخصیت یا پرسنیلٹی خدا داد چیز ہے۔ بازار سے ملتی تو ہم سب نپولین ہوتے۔ ہمارے معاشرے میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں، یہ استحصال زدہ معاشرہ ہے‘ جس میں طاقت رکھنے والوں کی راہیں آسان اور لا چاروں کیلئے ہر قدم پہ مصیبتیںکھڑی ہوتی ہیں۔ یہاں وہی حکمرانی معنی رکھتی ہے جو غریبوں کے کام آئے‘ اور غریبوں کیلئے صرف طاقتور حکمرانی ہی کام آ سکتی ہے۔
ثاقب نثار صاحب نے جو راستہ دکھایا وہ صرف عدلیہ کیلئے نہیں بلکہ طرز حکمرانی کیلئے بھی مشعل راہ ہے۔ جج تو ایسے ہونے ہی چاہئیں لیکن حکمرانوں کو بھی ایسا ہونا چاہیے‘ جو عوام کی پہنچ میں ہوں، معاملہ فہم ہوں اور فیصلہ سازی کی ہمت رکھتے ہوں۔ تنقید ہوتی رہے گی اور چیخ و پکار بھی۔ جج صاحب کے ہاتھوں زخمی ہونے والوں کی فہرست لمبی ہے۔ تیر اندازوں نے اپنا کام اَبھی سے شروع کر دیا ہے۔ لیکن یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ کمزوروں اور لا چاروں کے دِلوں میں ثاقب نثار زندہ رہیں گے۔ اور شاید ایک مثال بھی بن جائیں کہ جج ہو تو اُس جیسا ہو، دھڑلے والا اور کام کرنے والا۔ انگریزیاں اور لوگوں کے کھاتے میں آتی رہیں گی۔