کرپشن کی کہانیاں اپنی جگہ لیکن وہ چوری بھی کیا جس میں کوئی سینہ زوری نہ ہو؟آصف زرداری اور بلاول اسلام آباد نیب عدالت میں پیش ہوئے تو پیپلزپارٹی اَچھی خاصی زورآزمائی دکھانے میں کامیاب رہی ۔ تھو ڑا بہت ہنگامہ بھی ہوا اورپولیس کے ساتھ مڈبھیڑ بھی ۔ گویا جس جماعت کو ہم مردہ یانیم مردہ سمجھ رہے تھے اُس میں کچھ جان تو ہے ۔
اس مظاہرہِ دلاوری کے بعد نون لیگیوں کو کچھ محسوس نہیں ہوا ؟اُن کے لیڈر یا جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں یا مختلف عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ لیکن نون لیگ ہمت تو دَرکنار یوں نظر آرہی ہے جیسے اُس میں جان کبھی بھی نہ تھی ۔ اِن کے نمائندے بھرپور تعداد میں قومی اورپنجاب اسمبلی میں موجود ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ کسی کے منہ سے چُوں بھی نکل رہی ہو ۔ سپریم کورٹ کے ہاتھوں وزیراعظم کے منصب سے معزولی کے بعد میاں نوازشریف اوردُختر ملت نے ضرور کچھ چیخ وپکار کی ۔ جی ٹی روڈ پہ مارچ بھی ہوا لیکن جو وہ سمجھ رہے تھے کہ اُن کے حق میں پنجاب اُٹھ کھڑا ہوگاوہ منظررونُمانہ ہوا۔ پھر اُس کے بعد میاں نوازشریف اوردُختر کو ایسی چپ لگی کہ ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہی ۔ اقتدارمیں نون لیگ کتنی طاقتور لگتی تھی ۔ ہرگردن میں اعلیٰ درجے کا سریا دھنسا ہوا تھا۔ لیکن موسم بدلا اوراقتدار سے فارغ ہوئے تو نہ وہ سریارہا نہ وہ اکڑ ۔
کچھ سبق پیپلزپارٹی سے ہی سیکھ لیں ۔ چوری تو پیپلزپارٹی کی قیادت کے ذمے بہت لگی لیکن سینہ زوری کی داد دینی چاہیے۔ جو بھی حالات ہوں اکڑ کے تو رہتے ہیں۔ آصف زرداری جب طویل قید بندی سہہ رہے تھے، اُن کے چہرے سے مسکراہٹ کبھی نہ گئی ۔ جس جیل میں بھی رہے وہاں کے بادشاہ بن کے رہے ۔ کون سی آسائش تھی جس سے وہ محروم تھے ۔ جیل میں خود عیش کی اوردوسروں کو بھی کرائی ۔ حوصلہ کبھی ہاتھ سے نہ گیا ۔ اسی لئے مجید نظامی مرحوم، جن کے دل میں پیپلزپارٹی کیلئے کوئی نرم گوشہ نہ تھا ،نے آصف زرداری کو مردِحُر کا لقب دیا۔ ہمارے مقامی کلچر میں جس انداز سے کوئی جیل کاٹے اُسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے ۔آصف زرداری کی صحت بھی وہ نہیں رہی جو کچھ سال پہلے تھی ۔ بغیر مددکے نہ اُٹھ سکتے ہیں نہ چند قدم چل سکتے ہیں۔ لیکن پھر بھی اسلام آباد پیشی ہوئی توایک شوآف پاور کرڈالا۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب پورے شمالی اوروسطی پنجاب میں اِن کاایک بھی ممبر اسمبلی نہیں۔ اِس کا مطلب ہے کہ تلخ حقائق کے نیچے دَبنے کے باوجود جیالوں میں اَب بھی کچھ چنگاری باقی ہے ۔
نون لیگ والوں کا تو یہ حال ہے کہ اقتدار کاسیمنٹ اورسریا لگا ہو تو اُ ن سے جابر کوئی نہیں ہوتا۔ دورانِ اقتداراُ ن کا چھوٹا موٹا ورکر بھی پرلے درجے کا شاہسوار نظر آتاہے ۔ یہ تو میرا اپنا تجربہ بھی ہے ۔ پرویز مشرف دور میں ہمیں کوئی نون لیگی ورکر چکوال میں ملتا نہ تھا۔ سوائے مٹھی بھر ورکروں کے باقی نظروں سے اوجھل تھے ۔ 2008ء کے الیکشن ہوئے اورپارٹی پنجاب میں برسرِاقتدار آئی تو جیسے بہارکے آتے ہی دَبے ہوئے پودے اوپر سر نکال لیتے ہیں ہر طرف نون لیگی ورکر نظر آنے لگے ۔ورکر کیا ہر کوئی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اچھا خاصا بدمعاش دکھائی دیتا تھا۔ تھانوں اورتحصیلوں میں اِن کی شکلیں نظر آنے لگیں۔ چلتے تھے تو پہلوانوں کی طرح۔ 2018ء کے الیکشن کیا ہوئے اورنون لیگ پہ آسمانی بجلی کیا گری کہ لیگی ورکر پھر سے نگاہوں سے اوجھل ہوگئے ۔ چکوال کو نون لیگ کا گڑھ سمجھاجاتاتھا اوراُس زمانے میں واقعی ایسا ہی تھا۔ لیکن اَب دھیمی سی آواز بھی اُن کے لبوں سے نہیں نکلتی ۔ یوں لگتاہے جیسے چکوال کی سیاست میں اِ ن کا عمل دَخل ہے ہی نہیں۔
جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے سچ پوچھیے تو گھگھوؤں کی جماعت لگتی ہے ۔ رائے رکھنا تو دورکی بات ہے ۔ اکثر اوقات یوں لگتاہے کہ منہ میں زبان بھی نہیں۔ صرف چکوال نہیں دیگر شہروں کو بھی لے لیجیے۔ پی ٹی آئی کا عمل دَخل نہ لاہور کے کسی معاملے میں ہے نہ راولپنڈی کے ۔ عجیب مخلوق ہے ، نہ کوئی ٹریننگ نہ تربیت نہ تنظیم ۔ افسرشاہی اورپولیس ، دونوں آزاد ہیں۔ پی ٹی آئی کا بوجھ اِن کے کندھوں پہ ذرہ برابر نہیں۔ اصل حاکم اِس وقت افسر شاہی ہے ۔ پنجاب کاوزیراعلیٰ عثمان بزدار ہو تو اور کیا توقع کی جاسکتی ہے ؟ایسا ہرگز نہیں کہ سیاسی حکومت افسرشاہی پہ چڑھی رہے۔ لیکن افسرشاہی پہ سیاسی کنٹرول نہ ہو تو وہ شتر بے مہار بن جاتی ہے ۔ یہی حال اَب ہے ۔
بہرحال پی ٹی آئی اقتدار میں ہے اوراقتدار اُسے مبارک ہو ۔ لیکن کاروبارِ جمہوریت چلنے کیلئے ضروری ہے کہ زیادہ نہیں تو تھوڑی سی تگڑی حزبِ اختلاف بھی ہو۔ لیکن نظر یوں آتاہے کہ اپوزیشن نام کی چیز ملک میں ہے ہی نہیں۔ نون لیگ کا ذکر تو ہوچکا ۔ وہ تو اپوزیشن کا کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں۔ شاید اُن کی الماریوں میں پرانے ڈھانچے بہت سے ہیں ۔ کرپشن مقدمات کا ڈر بھی ہوگا ۔ جب آپ اتنا کھائیں جتنا کہ نون لیگ نے کھایا تو پھر پھرتی سیاست مشکل ہو جاتی ہے ۔ پیپلزپارٹی میں زندگی کی رَمق حالیہ دِنوں میں دکھائی دی لیکن اُس کی قیادت کو بھی کرپشن کیسز سے فرصت نہیں مل رہی ۔ مولوی حضرات ویسے ہی فارغ لگتے ہیں ۔ توپھر اپوزیشن کا کردار کون ادا کرے گا؟
ویسے یہ سریے والی چیز بڑی عجیب ہوتی ہے۔دورانِ اقتدارجتنا موٹا سریا چوہدری نثار کی گردن میں تھا اِس کی نظیر شاید نہ ملے ۔ صرف اکڑ خان نہیں تھے ہمیشہ حالت ِ اکڑ میں نظر آتے تھے ۔ گویا یہ اُن کی فطری کیفیت لگتی تھی ۔ لیکن الیکشن کیا ہوئے اوراُن کے ساتھ کیا بیتی وہ ساری اکڑ چلی گئی ۔ میراگاؤں بھگوال اِن کے گاؤں چکری سے قریب ہی ہے ۔ کچھ دِ ن پہلے وہاں کے چند لوگ ملنے آئے تھے ۔ مُسکرا کے میں نے چوہدری نثار کا حال پوچھا اوردریافت کیا کہ اُن کے سریے کا کیا بنا ۔ وہ چوہدری نثار کے ووٹر تھے لیکن یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ سارا سریا پگھل چکا ہے ۔ سیاست میں جو کچھ تھے نون لیگ کی وجہ سے تھے اورمیاں نوازشریف سے ہی لڑبیٹھے ۔یعنی ہماری بلّی اورہمی کومیاؤں۔ الیکشن 2018ء نے البتہ تمام حساب چکا دیا ۔ اَب نہ ٹھکانہ نہ منزل، نہ مقصدِحیات۔
اپوزیشن کے رول کے حوالے سے یہ کہنا پڑے گا کہ زمینداروں اورخالصتاً سرمایہ داروں میں کچھ نہ کچھ فرق رہتاہے ۔ آصف زرداری وغیروں کا زمینداری بیک گراؤنڈ ہے ۔ اِن کے والد بڑے وڈیرے نہ سہی چھوٹے زمیندار تو تھے ۔ آصف زرداری اَب بہت بڑے زمیندار ہوگئے ہیں۔ شریف خاندان کا بیک گراؤنڈ خالصتاً تجارتی اورسرمایہ دارانہ ہے ۔ اقتدار کی بیساکھیوں کے سہارے تو بڑے تگڑے دکھائی دیتے ہیں لیکن حالات بدلیںتواُن کی کیفیت بڑی پھسپھسی ہو جاتی ہے ۔ دورانِ اقتدار ببّر شیر ، اقتدار کے بغیر محض کاغذی شیر۔ دھاڑ تو رہتی ہی نہیں۔ یہ خاصیت چھوٹے شریفوں میں بھی نظر آتی ہے ۔ اقتدار میں کون کون سی حرکتیں حمزہ شہباز سے منسوب نہ تھیں۔ گوپنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں مگر جو بات ہونی چاہیے وہ نہیں۔
اِس کے برعکس بلاول باہمت نظر آتاہے ۔ بات کرتا ہے تواپنی طرف توجہ مبذول کراسکتاہے ۔ بولنے میں ٹھہراؤ بھی آچکاہے ۔ بلاول کے مقابلے میں شریفوں کے خانوادے تقریباً سارے کے سارے پیدل لگتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نیم مردہ حالت میں بھی پیپلزپارٹی میں کچھ جان نظر آتی ہے اور نون لیگ کے پاس بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی یوں لگتاہے کہ اُس کے پاس کچھ نہیں۔ لیڈر کھوکھلے ، ممبران اسمبلی بھی تقریباًبے جان۔پتہ نہیں یہ قانونِ قدرت ہے یا قانونِ سیاست۔ لیکن کل کے شیر چڑیا گھر کے شیروں سے بھی پرلے درجے کے لگ رہے ہیں۔