ایفی ڈرین کیس نے یاد دلایا کہ پیپلز پارٹی والے نہ صرف آپ کھاتے تھے بلکہ حسبِ توفیق اوروں کو بھی کھانے کا حقدار سمجھ کے اُن کو بھی دسترخوان پہ شامل کرتے تھے۔ ایفی ڈرین کا کوٹہ‘ جو ہمارے دوست حنیف عباسی اور اوروں کو ملا وہ کسی نون لیگی وزیر کی وساطت سے نہیں ملا تھا بلکہ یہ مہربانی پیپلز پارٹی کے وزیر صحت جناب مخدوم شہاب الدین کی تھی۔ کوٹہ تو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے برخوردار چھوٹے گیلانی کو بھی ملا‘ لیکن شریکِ دسترخوان ہمارے دوست بھی ہوئے جو کہ پیپلز پارٹی کے ایم این اے نہیں نون لیگ سے اُن کا تعلق تھا۔
یہی فرق دونوں جماعتوں میں تھا۔ نون لیگی قیادت ہر چیز اپنے پاس ہی سمیٹ کے رکھتی تھی۔ شریفوں کا اپنا خاندان ہی اچھا خاصا لمبا ہے۔ ایک طرف میاں نواز شریف، دوسری طرف میاں شہباز شریف۔ اور اُسی پر اکتفا کیا، دونوں اطراف کے برخورداران نے بھی جوہر معیشت میں ایسے کمالات دکھائے کہ بڑی سے بڑی یونیورسٹی کے بزنس سکول دنگ رہ جائیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہارورڈ بزنس سکول کو اب تک شریف برخورداران کے کارناموں کا پتا نہیں چلا، نہیں تو اُن پہ باقاعدہ کورسز چلائے جائیں اور سرکردہ سکالر اُن پہ مقالے لکھیں۔ بل گیٹس یا فیس بک کے مارک زکربرگ (Mark Zuckerberg) کی دولت کا شمار کرنا آسان ہے کہ ان کی کمپنیوں کے حصص کی قیمتیں بڑھیں اور یہ دنیا کے امیر ترین آدمیوں میں شمار ہو گئے۔ لیکن شریف برخورداران نے جو کچھ سمیٹا اُس کا تعین کرنا اتنا آسان نہیں۔ اسی لیے مقالے لکھنے کی ضرورت پڑے تو ان کے حیرت انگیز کارناموں کو سامنے رکھا جائے گا۔ بل گیٹس کی زندگی میں کون سی دلچسپی ہے۔ کمپیوٹر جینئس تھے تو سافٹ ویئر بنا دیا جو ساری دنیا نے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس میں کون سی حیرت والی بات ہے۔ حیرت تو یہاں پیدا ہوتی ہے کہ دادا جان نے پتا نہیں کس قطری شہزادے سے مل کر کسی گمنام سال میں سرمایہ کاری کی اور پھر وہاں سے سرمایہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ پھر فلاں جگہ قیمتی فلیٹ نمودار ہوئے اور فلاں فلاں کاروبار پھلنے پھولنے لگا۔ دلچسپی ہو سکتی ہے تو ایسی کہانی میں۔
اسی لیے خاندان سے فرصت ملے تو کسی اور کو بھی دستر خوان پہ شامل کیا جائے۔ حسن اور حسین کا کام مکمل نہیں ہوتا۔ قوم نے وہ ٹی وی انٹرویو نہیں دیکھا جس میں بڑے معصومانہ انداز سے حسین نواز کو یہ کہتے سُنا گیا کہ فلاں کاروبار شروع کیا تھا اور الحمدللہ اُس میں بڑا منافع ہوا۔ پھر دوسرا کاروبار شروع کیا اور الحمدللہ اس میں بھی خاطر خواہ منافع ہوا۔ اور پھر برخوردارانِ میاں شہباز شریف۔ دونوں بیٹے اپنی اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ حمزہ کسی چیز کو ہاتھ لگائیں تو وہ سونا، سلمان تو ٹھہرے ہی بڑے ذہین۔ حمزہ کے بارے میں ہمیں ایک نون لیگی ہمدرد نے بتایا تھا کہ وہ تو پرچون کا کاروبار کرتا تھا۔ چھوٹی سے چھوٹی رقم ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ بڑی مار یعنی تھوک کا کاروبار تو سلمان کرتا۔ ذاتی طور پہ میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ جب سلمان کا نام اتنا نمایاں نہ تھا اور وہ پبلک کی نظروں میں نہیں آیا تھا تو ایک ملاقات میں جب میں میاں شہباز شریف کو ملنے گیا اور برخوردار بھی موجود تھا تو میں یکدم متاثر ہوا اور میں نے اُن کے والد صاحب سے کہا کہ سیاست میں لانا ہے تو اس چھوٹے کو لائیے۔ حمزہ کو تو میں اچھی طرح جانتا تھا اور وہ تو بس کیا کہیں ہمارے جیسا ہی تھا۔ لیکن سلمان میں ذہانت کی لشکاریاں نظر آتی تھیں۔ مجھے کیا پتا تھا کہ سیاست کی بجائے اُسے کاروبار میں ہی رکھا جائے گا اور اُس میدان میں وہ اپنا لوہا ایسے منوائے گا کہ لوگ حیران رہ جائیں۔
خاندان کے علاوہ میاں صاحبان کا قریبی ٹولہ ہے‘ جن کے نام پبلک کے سامنے نہیں آتے اور اُن کی زندگیاں پردوں کے پیچھے چھپی ہوئی ہیں۔ اس مخصوص گروہ کے پراسرار کردار ایسے ایسے لمبے ہاتھ مارتے ہیں کہ اُن پہ بھی مقالے لکھنے کی بات بنتی ہے۔ لاہور کے خواجہ برادران کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ شریفوں، اُن کے خاندان اور قریبی حواریوں کے ہوتے ہوئے اُنہوں نے اپنے لئے جگہ پیدا کی۔ اسی لئے میں اپنے دوست خواجہ سعد رفیق کا معترف رہا ہوں اور اُن کو سلام پیش کرتا ہوں۔ کوئی جیے تو بوہڑ کے درخت کے نیچے جیے جیسا کہ خواجہ برادران نے ثابت کر کے دکھایا۔
بطور وزیر اعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی بڑے مہربان تھے۔ کسی کو 'نہ‘ نہیں کرتے تھے اور جماعتوں میں کوئی تفریق نہیں کرتے تھے۔ اسی لئے پارلیمنٹ ہاؤس میں ان کا دفتر فریادی ایم این ایز سے بھرا رہتا تھا۔ فریادیوں میں کوئی تمیز نہ ہوتی تھی، پیپلز پارٹی کے تو ہوتے ہی تھے لیکن ہم نون لیگ والے بھی اپنا قلعہ وہاں جمائے رکھتے تھے۔ ہر ایک کے ہاتھ میں کوئی درخواست ہوتی۔ میں نے کئی موضع جات میں گیس کا بندوبست کیا تو سارے کے سارے فنڈز گیلانی صاحب کی مہربانی سے مجھے ملے۔ کلاشنکوف کے لائسنسوں پہ بھی دستخط کرائے اور وہ بھی وزیر اعظم صاحب سے۔ ہمارے نون لیگی ایم این اے وزیر اعظم کے دفتر میں اتنے دیکھے جاتے تھے کہ میں نے ایک دو بار کہا کہ یہ وزیر اعظم پیپلز پارٹی کا ہے یا ہمارا؟ نواز شریف جب تیسر ی بار وزیر اعظم بنے، اول تو قومی اسمبلی میں آنے کی کبھی زحمت نہ فرمائی، کبھی بھول کے آئے تو اُن کی پارٹی کے کسی ایم این اے کی مجال نہ تھی کہ اُن کی نشست کے پاس آئے۔ اس کے برعکس یوسف رضا گیلانی تقریباً ہر روز اسمبلی میں موجود ہوتے اور بلا تفریقِ پارٹی ہر ایم این اے کو دستیاب ہوتے۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ممبران اسمبلی کیلئے ان سے بہتر وزیر اعظم کوئی نہ تھا۔
یہی ماحول تھا جس کی وجہ سے ایک نون لیگی ایم این اے کو ایفی ڈرین کا کوٹہ ایک پی پی پی کے وزیر کے ہاتھوں ملا۔ الزاما ت کی صحت جو بھی ہو اُن پہ تو میں تبصرہ نہیں کروں گا لیکن اس کیس کی بدولت ایک بڑا حادثہ ضرور ہوا۔ جب یوسف رضا گیلانی پہ کٹھن وقت آیا اور اُن کی وزارتِ عظمیٰ خطرے میں پڑ گئی تو آصف علی زرداری‘ جو تب صدر مملکت تھے‘ زیادہ اضطراب میں نہ آئے۔ وہ تب سمجھنے لگے تھے کہ وزیر اعظم زیادہ پر پھیلا رہے ہیں اور اُن کے پر کُترے جائیں تو اُسی میں بہتری ہے۔ حالانکہ یوسف رضا گیلانی پہ جو کٹھن وقت آیا وہ صدر آصف زرداری کی وجہ سے ہی تھا۔ تب کے چیف جسٹس جناب افتخار چوہدری مصر تھے کہ وزیر اعظم سوئس حکام کو اُن ساٹھ ملین ڈالر کے حوالے سے خط لکھیں جو کہ مبینہ طور پہ صدر زرداری کے جمع کیے ہوئے تھے۔ خط نہ لکھنے پر ہی یوسف رضا گیلانی کو وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اُن کے جانے پہ ایک نئے وزیر اعظم کی ضرورت پڑنا قدرتی اَمر تھا۔
اِس عہدے کیلئے سب سے آگے امیدوار وزیر صحت مخدوم شہاب الدین تھے۔ اُن کو بتا بھی دیا گیا تھا کہ اگلے روز اُن کی حلف برداری ہے۔ المیہ دیکھیے کہ اُسی شام ایفی ڈرین کیس کے سلسلے میں اینٹی نارکوٹکس فورس نے اُن کو پکڑنے کی کوشش کی۔ خبر پھیلی تو اور کچھ ہونا تھا یا نہیں اُن کے وزارتِ عظمیٰ کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ حنیف عباسی کو اس کیس میں سزا ضرور ہوئی‘ وہ بھی عین انتخابات کے موقع پہ جب وہ شیخ رشید کے سامنے کھڑے تھے‘ لیکن پچھلے دنوں اُن کی سزا معطل ہوئی اور وہ ضمانت پہ باہر بھی آ گئے۔ برخوردار گیلانی کو بھی کچھ نہیں ہوا۔ اور گو مخدوم شہاب الدین بھی کسی کارروائی سے بچ گئے‘ یہ غم تو بہرحال رہے گا کہ ایفی ڈرین کا کوٹہ گیا پتا نہیں کن کھاتوں میں‘ چوٹ لگی تو اُن کے دل کو جب وزارتِ عظمیٰ تک پہنچتے پہنچتے وہ کچھ دور ہی پیچھے رہ گئے۔
مخدوم شہاب الدین میرے دوست ہیں اور ہمیشہ اچھی علیک سلیک رہی ہے۔ مجھے اس کمبخت ایفی ڈرین کی اہمیت کا ذرہ برابر احساس ہوتا تو میں بھی بہت بڑا نہیں چھوٹا کوٹہ لینے حاضر ہو جاتا‘ لیکن اپنی بے خبری آڑے آئی اور جہاں اُس دور میں بہت کچھ کر سکتے تھے کیونکہ میرے تھوڑے بہت تعلقات صدر آصف زرداری سے بھی تھے‘ ہم نکمیّ کے نکمیّ ہی رہے۔