اسد عمر کوویسے ہی قصوروار ٹھہرایا جارہاہے ۔ اصل بات اوپر کی ہے ۔ دانش اورافکار کی کمی ٹیم کے لیڈر کی ہے ۔ اسدعمر میں کس نے وہ صلاحیتیں دیکھی تھیں ‘جو اُن کی شخصیت کا حصہ تھیں ہی نہیں؟عامر کیانی کو کس نے وزارتِ صحت کا قلمدان تھما یاتھا؟عثمان بزدار کن ہاتھوں سے وزیر اعلیٰ پنجاب نامزد ہوئے؟اوروہ جو کے پی کے وزیراعلیٰ ہیں ان کا نام تو نہ لینا ہی بہتر ہے ۔ وہ کسی گنتی میں آتے ہی نہیں‘ لیکن پھر بھی وزیراعلیٰ بنا دئیے گئے ۔ یہ سب کس کے فیصلے تھے ؟
عمرا ن خان میں بہت سی خوبیاں ہوں گی‘ لیکن ان آٹھ ماہ نے بتایا ہے کہ حکمرانی کا فن ان کے بس کے با ت نہیں۔ بنی گالہ میں اُن کے دفتر جانے کا ایک دو بار اتفاق ہوا ۔ یہ اُن کے اقتدار میں آنے سے پہلے کی بات ہے ۔ وہاں ماحول ہی ایسا نہ پایا‘ جس سے انسان متاثر ہوسکے ۔ بس سطحی قسم کی گفتگو اورکوئی ایسا آدمی قریب نظر نہ آیا جس سے کسی قسم کی گہرائی کی توقع کی جاسکے‘ تو پھر کمی ٹیم کے ممبران کی ہے یا ٹیم کے کپتان کی ؟اسد عمر میں وہ جوہر دیکھے گئے‘ جو ان میں تھے ہی نہیں۔ غلطی پھر کس کی بنتی ہے؟لیکن ہم جواز اوربہانے ڈھونڈ رہے ہیں‘ جبکہ اصل بات یہ ہے کہ جنہوں نے عمران خان کو وزیراعظم بنایا‘ اُن کی بھی سمجھ مکمل نہ تھی ۔ انہوں نے بھی عمران خان میں وہ چیزیں دیکھیں ‘جو اُن میں نہیں تھیں۔ 2014ء کے دھرنے کی تقریریں کوئی پھر سے سن لے ۔ سن کے یہ گمان کرنا مشکل ہوجاتاہے کہ ایسا شخص ملک کی حکمرانی کے قابل ہے ۔
چلیں وہ تو پرانی بات ہوئی ‘لیکن جو شخص اقتدارمیں آئے اوراس کے ذہن میں ایسی باتیں ہوں کہ وزیراعظم ہاؤس کی چھ بھینسوں کی نیلامی ہونی چاہیے اوریہ کہ وزیراعظم ہاؤس کو کسی اورچیز میں تبدیل کرنا چاہیے اس کی ذہنی سطح کے بارے میں آدمی کیا کہے گا؟بیس بائیس سالہ نام نہاد جدوجہد اورکون سا سقراط کا خزانہ اس میں سے نکلتاہے ‘سوائے بھینسوں اوروزیراعظم ہاؤس کی گاڑیوں کی نیلامی کے۔ وہ جو کہا جاتاتھا کہ سوچ اورویژن کی کمی ہے وہ اتنا غلط نہ تھا‘ لیکن پتا نہیں کیا بیماری ہماری مملکت کو لاحق ہے کہ حکمرانی کا معیار ہی یہی دستیاب ہے ۔ اگر ہماری سیاست کی زرخیزی سے ہمیں زرداری اورشریف ہی ملے تو اُن کا متبادل کون ہاتھ آیا ؟سربراہ ِ تحریک انصاف ۔
ہم کہتے تھکتے نہیں کہ یہ سرزمین وسائل سے مالامال ہے ۔ ڈھنگ کی حکمرانی کیلئے ہمیں کوئی ملتا نہیں تو وسائل سے مالا مال ہم کیسے ہوگئے؟ بیس بائیس کروڑ کی آبادی ہے اورجو حکمران طبقہ ہے وہ ڈھونڈے بھی کسی اور سرزمین پہ نہ ملے ۔ سوال تو یہ بنتاہے کہ اس بیماری کا سبب کیا ہے ؟ سیاست دان تو جیسے ہیں وہ ہیںہی ‘ لیکن نہ کوئی سلیقے کے معاشی ماہرین نہ کوئی بیوروکریٹ ۔حفیظ شیخ کو اسد عمر کی جگہ لایاجاتاہے ۔ حفیظ شیخ پہلے بھی ایسی پوزیشن میں رہ چکے ہیں ۔ وہی چند گھسے پٹے نام ہیں ۔ اگر یہ پہلے کچھ نہیں کرسکے تو اب کون سے کارنامے سرانجام دینے کی ا ن سے توقع ہے ؟
خطرہ یہ ہے کہ جمہوریت اوراس نظام سے ہی عوام کا اعتماد نہ اُٹھ جائے۔ پیپلزپارٹی کو آزما لیا اوراُن کی اصلیت ہم جا ن چکے ۔ شریفوں کو آزمایا ایک لمبے عرصے تک اورانہوں نے جو قوم کی درگت بنائی وہ ہمارے سامنے ہے۔ بڑی امیدوں کے ساتھ انصاف والوں کو لایا گیا۔ کچھ عوام کی کوشش تھی اورکچھ سیڑھیاں لگانے والوں کی‘لیکن یہ کتنے پانی میں ہیں ‘وہ حقیقت بھی آشکار ہوچکی ہے ۔ تو پھر کیابنے گا؟ہمارے ہاں فیصلے عوام کے نہیں ہوتے ۔ کلیدی فیصلے سایوں کے پیچھے سے ہوتے ہیں۔ جب حکمرانی کی شکست وریخت سایوں میں رہنے والوں کو نظر آرہی ہو تو ان کی سوچ کیا ہوگی ؟ایک یہ کہ کسی اورمتبادل کی تلاش ہو ۔ یہ آسان راستہ نہیں ‘کیونکہ جیسا ہم دیکھ چکے ہیں سیاسی میدان میں متبادل ڈھونڈا گیا تو نکلے نیچے سے انصاف والے ہی ۔ سیاسی افق پر مزید کوئی چرچل تو نظر آنہیں رہا۔ متبادل کہاں سے آئے گا؟دوسرا یہ کہ سایے میں رہنے والے سمجھیں کہ ان نالائقوں سے توپھر ہم ہی بہتر ہیں ۔ یہی سوچ ایوب خان کی تھی اوران کے بعد آنے والے شاہسواروں کی ۔ کہیں اس طرف تو حالات ہمیں نہیں لے کے جارہے ؟اصل خطرہ یہ ہے اوراس خطرے کی راہ انصاف والے ہموار کررہے ہیں ۔
عقل دنگ رہ جاتی ہے ان کے کارنامے دیکھ کر ۔پہلااوراصل کام اس وقت معیشت کو سنبھالا دینے کا ہے ‘ لیکن یہ بقراط کبھی سستے گھروں کی باتیں کرتے سنائی دیتے ہیں ۔ کبھی اِکا دُکا شیلٹر ہوم بنا کر کہتے ہیں بے گھروں کی امداد ہورہی ہے اور کبھی احساس نامی پروگرام دے کر کہتے ہیں کہ فلاحی ریاست کے قیام کی یہ پہلی منز ل ہے ۔ آنکھوں میں دھول ڈالنے کی بھی کچھ صلاحیت ہونی چاہیے ۔
مڈل کلاس اورپروفیشنلز طبقات کے اپنے مسائل رہے ہیں ۔ نجی محفلوں میں ان طبقات کے لوگ بیٹھتے تھے تونعرہ لگتاتھا کہ کرپشن اس ملک کو کھا گئی اورجب تک یہ ناسور ختم نہ ہو اورصحیح طورپر احتساب نہ ہو ا‘ اس ملک کا کچھ نہیں بن سکتا۔ یہ نعرہ عمران خان نے اپنا یا اورمڈل کلاس اورپروفیشنلز طبقات نے ان کا عَلم تھاما۔ اقتدار میں بھی آ گئے ‘لیکن ان کی کچھ سمجھ ہی نہ تھی کہ ان کو کرنا کیاہے۔ اسی لیے صرف حکومت مخمصے میں نہیں ہے ۔ بحران کا سامنا قوم اورملک کو ہے ۔ بحران صرف سیاسی اورمعاشی نہیں اصل میں ذہنی اورفکری بحران ہے کہ پاکستان کی سمت کیا ہے اورکیا ہونی چاہیے۔ اورکون سے ہاتھ اوردماغ اس سمت میں ملک کو لے جاسکتے ہیں ۔ یہ کیا لایعنی قسم کی بحث ہے کہ صدارتی نظام لایاجائے یا نہیں۔ کوئی ڈھنگ کی قیادت تو آئے جو معاملات ٹھیک کرسکے ۔ ایسی قیادت ہمارے پاس نہیں ہے ۔ جو ہے انہی پہ امیدیں لگائی گئی تھیںاوراُن کی کیا صلاحیتیں ہیں وہ ظاہر ہو چکی ہیں۔
ڈراؤنا خواب مصر کا آتاہے ۔ایک پرانی اورفرسودہ آمریت کے خلاف عوامی بغاوت ہوئی اوربغاوت کی پاداش میں انتخابات ہوئے اور عوام نے ایک جماعت اورحکومت چنی ۔ پھر اُس حکومت کے خلاف بغاوت ہوئی اورفیلڈ مارشل عبدالفتح السیسی نے اقتدار پہ قبضہ کیا۔ ملک کے آئین میں ایسی تبدیلیاں لائی جاچکی ہیں کہ وہ 2030ء تک اگر چاہیں توصدر رہ سکتے ہیں۔ ملک پہ گرفت انہوں نے ایسی جمائی ہے کہ سابق مصری صدر حسنی مبارک اُن کے مقابلے میں نرم اورملائم نظر آتے ہیں۔
کبھی تو لگتاہے کہ مسئلہ کسی ایک مسلم ریاست کا نہیں ‘بلکہ اسلامی دنیا کا ہے ۔ پتا نہیں معاملات ہم سے ٹھیک کیوں نہیں چلتے ۔ دنیا کی صفوں میں اگر ہم پیچھے ہیں تو اس کی کوئی وجہ تو ہو گی ۔ یورپ اورامریکہ تو آگے تھے ہی‘ جاپان پھر اگلی صفوں میں جا پہنچااوراب ترقی کی دوڑ میں چین بھی آگے جا چکا ہے ‘ لیکن ہم جو ہیں وہ پیچھے کے پیچھے ۔ ایک دو اسلامی ممالک ہی ہیں ترکی اورملائیشیا جیسے‘ جو کہ کچھ کریڈٹ لے سکتے ہیں ۔ نہیں تو باقی ہم وہی محتاجی کی صفوں میں کھڑے ہیں ۔ اصل غلامی یہی ہے ۔ اوررونا یہ کہ کوئی جستجو بھی نہیں کہ ان حالات کو بدلاجائے ۔ پوری اسلامی دنیا میں ایک ہی حقیقی انقلاب برپا ہوا ہے اوریہ وہ جو اَتا ترُک ترکی میں لایا۔جس کی بدولت ترکی اپنا مقام دنیا کی صفوں میں بنا سکاہے ۔ ہمارے حالات ہی ایسے لگتے ہیں کہ کسی فکری اوردوسری قسم کے انقلاب کیلئے ساز گار ہی نہیں ۔ ہمارے سوچ ہی پیچھے کی صفوں میں رہنے والی ہے ۔