ہمارا بھی کوئی جواب نہیں۔ دنیاوی مسائل ہم سے حل ہو نہیں پاتے لیکن آسمانی معاملات حل کرنے کے لئے بے تاب رہتے ہیں۔ پہلے ہی معاشرہ فرسودہ خیالات میں جکڑا ہوا ہے۔ سوچ پہ قدغنیں لگی ہوئی ہیں ۔ سمجھنے سے ہم قاصر ہیں کہ ترقی یافتہ دنیا کی ترقی کا راز کیا ہے اور جس مقام پہ وہ دنیا پہنچی ہے کون سے تخلیقی مراحل طے کر کے وہ مقام حاصل کیا ہے‘ لیکن ہمارے اکابرین اس بات پہ تُلے ہیں کہ ہمیں روحانیت کے درس دئیے جائیں۔
کوئی بھی تعلیمی کوشش ہو وہ سراہنے کے لائق ہے ۔ لیکن کیا ہمارے مسائل روحانی ہیں کہ وزیر اعظم نے ایک درس گاہ کی بنیاد رکھتے ہوئے بات کہاں سے کہاں ملا دی؟ فرماتے ہیں کہ روحانیت پہ اعلیٰ تحقیق ہونی چاہیے۔ اُسی سانس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ روحانیت کی تحقیق تو ہم کر لیں گے اور سائنس اور ٹیکنالوجی ہم چین سے حاصل کریں گے ۔ غور کرنے کا مقام ہے ۔ چین میں تو کسی روحانی چیز یا سوچ کی گنجائش نہیں۔ موجودہ چینی ریاست ، اور یہ ریاست ہماری قریب ترین دوست ہے ، کا کوئی مذہب نہیں۔ ریاستِ چین مذہب کو مانتی ہی نہیں۔ تو یہ دو چیزیں روحانیت اور سائنس اور ٹیکنالوجی وزیر اعظم کیوں ملا رہے ہیں ؟
عقیدہ اور یقین اپنا اپنا ہوتا ہے ۔ اِس پہ بحث نہیں کی جا سکتی ۔ عقیدے پہ بحث کریں تو لڑائی جھگڑا مول لینے کے مترادف ہے۔ لیکن دنیا کے مسائل پہ قابو پانا اور انسانی سوچ کا وہ ارتقاء جس کی بدولت موجودہ ترقی یافتہ دنیا ظہور پذیر ہوئی ہے‘ یہ عمل عقیدے کی باتوں سے ہٹ کے ہوا ہے۔ یورپ کے بیشتر لوگ بھی ایک خاص مذہب کے پیروکار ہیں۔ وہاں بھی بیتی ہوئی صدیوں میں اُس مذہب کا انسانی سوچ پر بڑا اثر رہا ہے ۔ لیکن یورپ میں انسانی سوچ کے اُفق تب ہی وسیع ہوئے جب اُس خاص اثر کو کمزور یا زائل کیا گیا۔ اُس مذہب کی تعلیمات اور تھیں اور سائنس یا جسے ہم Rational سوچ کہہ سکتے ہیں‘ اُس کے تقاضے اور۔ اور وہ اُس مذہب کے بنیادی خیالات سے ہم آہنگ نہیں تھے ۔ اُس مذہب کے بنیادی خیالات سائنسی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں تھے ۔ پرانی تہذیبی اقدار ٹوٹیں تب ہی نئی اقدار کو پروان چڑھنے کا موقع ملا۔
جاپان میں شِنٹو(Shinto) عقائد مذہب کا درجہ رکھتے ہیں۔ لیکن جب انیسویں صدی میں جاپان کے بند معاشرے کو باہر کی دنیا کا علم ہوا اور جاپان نے فیصلہ کیا کہ اُس نے ترقی کی دوڑ میں شامل ہونا ہے تو شِنٹو مذہب کو ایک طرف رکھا گیا اور ترقی کے تقاضے دوسری طرف پورے کئے گئے۔ جاپانی قوم اب تک اِس بات پہ یقین رکھتی ہے کہ اُن کا بادشاہ روحانی حیثیت رکھتا ہے ۔ لیکن جاپانی یونیورسٹیوں میں ایسی فضول باتیں پڑھائی نہیں جاتیں۔ چین کی بھی موجودہ ترقی تب ممکن ہوئی جب کمیونسٹ انقلاب نے سوچ کے گرد لپٹی ہوئی پرانی زنجیروں کو توڑا اور چینی ذہن کو آزاد کیا۔ عقائد جو بھی ہوں جو سائنس چین، جاپان، یورپ اور امریکہ میں پڑھائی جاتی ہے وہ ایک ہے۔ ریاضی اور فزکس کے اصول ہر جگہ ایک ہیں۔ ہندو مذہب بھی اتنا ہی مضبوط ہے جتنا کہ کوئی اور مذہب ۔ لیکن ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں بھی نریندر مودی کی نہیں آئن سٹائن کی سائنس پڑھائی جاتی ہے۔ ہاں ، یہ درست ہے کہ نریندر مودی کے ہم نوا کہتے ہیں کہ آج کے بہت سے سائنسی اصول پرانے ہندوؤں نے دریافت کیے تھے۔ لیکن ایسی باتوں پہ وہاں کے پروفیسر اور دیگر اساتذہ بھی ہنس دیتے ہیں۔
یہ کس نے ہمارے نومولود وزیر اعظم کو سکھایا کہ یہاں روحانیت کی کمی ہے؟ جتنی روحانی عبادت گاہیں ہماری سرزمین پہ موجود ہیں کسی اور ملک میں نہ ملیں گی ۔ کوئی موڑ مڑیں تو کوئی عبادت گاہ یا خانقاہ نظر آئے گی۔ لہٰذا ہماری روحانی تربیت یا نجات کے لئے کسی سامان کی کمی نہیں۔ وہ یہاں وافر مقدار میں موجود ہے ۔ مسئلہ ہے تو دنیاوی نجات کا۔ زمین پہ آئے ہیں‘ اُس پہ بوجھ تو نہ بنیں ۔ انسانی وجود و حیات کو کچھ دے کے تو جائیں۔ لیکن ذرا سوچئے تو سہی کہ انسانی وجود میں ہمارا حصہ کیا ہے ۔ چھوٹی بڑی ایجادات جن کی بناء پہ موجودہ دنیا چل رہی ہے اُن میں ہم نے اپنا حصہ کیا ڈالا ہے؟ ہر چیز ہماری مانگے تانگے کی ہے ۔ کوئی ایک چیز ہم بنا نہیں سکتے ۔ مادی انحصار تو دنیائے مغرب پہ ہمارا ہے ہی لیکن فکری انحصار بھی ہم وہیں کرتے ہیں۔ کوئی بڑا منصوبہ تیار کرنا ہو جب تک باہر کے ماہرین آئیں نہیں‘ ہم سے معمولی پیش رفت نہیں ہو سکتی ۔ پہلے گورے آتے تھے اب ہمارا مکمل انحصار چینی دوستوں پہ ہوتا جا رہا ہے۔ سڑکیں بنائیں تو وہ، کوئی اور منصوبہ تشکیل دینا ہو تو اُن کی مدد کے بغیر نا ممکن۔ روحانی ذخائر ہمارے ہیں لیکن ڈھنگ کا مادی کام کرنا ہو تو ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں۔
عمران خان وزیر اعظم تو بن گئے ہیں لیکن وہ ایسا درس دینا شروع کرتے ہیں تو قدرتی طور پہ سوال اُٹھتا ہے کہ وہ کن بھول بھلیوں میں پڑ گئے ہیں؟ مغرب یا جاپان اور اب چین نے ترقی کی ہے تو کسی روحانی سفر کی بدولت نہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی پہ عبورحاصل نہ کیا جائے تو کوئی روحانی جستجو کسی کام نہیں۔ اور یہ عبور نا ممکن ہے جب تک ذہن کے دریچے نہ کھل جائیں اور اُن میں تازہ ہوا نہ آئے۔ ہمارے ذہن نہ صرف بند ہیں بلکہ آئے روز ہم نئی دلیل مہیا کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے ذہن بند ہی رکھنے ہیں۔ پہلے ہمارے معاشرے میں ایسی باتوں کی کمی ہے کہ ان میں مزید اضافہ کیا جائے؟
ہندوستان پہ حاکم انگریز تھے اور اگر ہندوستان (جس کا ہم بھی حصہ تھے ) نے ماڈرن زمانے میں قدم رکھا تو وہ اپنی کوششوں سے نہ تھا بلکہ انگریز سامراج کی وجہ سے ۔ انگریز سامراج نے ہندوستان کو دھکیل کے جدید زمانے سے روشناس کرایا۔ ہندوستان میں ماڈرن تعلیم کی بنیاد انگریزوں نے رکھی ۔ سوچ کے نئے انداز اُنہی سے آئے‘ نہیں تو ہمارے ذہن زمانہِ قدیم میں قید تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان نے انگریز کے ورثے کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ اگر نئی سوچ کے تقاضے اُن کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں آ چکے تھے تو اُنہوں نے اُن کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کی۔ ہمارا المیہ البتہ یہ رہا کہ تاریخ کے پہیے کو ہم نے پیچھے موڑنے کی کوشش کی ۔ انگریزی ورثے کی اچھی باتیں بجائے بہتر بنانے کے ہم نے برباد کرنا شروع کیں۔ تعلیم کا اچھا بھلا ڈھانچہ انگریز ہمیں دے کے گئے تھے ۔ یقینا اُس ڈھانچے میں کمزوریاں اور نقائص تھے ۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے تھی کہ اُن کمزوریوں کو ہم دُور کرتے ۔ لیکن تعلیم کا سر ے سے ہم نے بیڑہ غرق کرنا شروع کر دیا ۔ تقسیم ہند سے پہلے پورے شمالی ہندوستان کا ثقافتی اور تعلیمی مرکز لاہور تھا۔ لاہور کی درس گاہیں ایسی تھیں کہ اُن کی شہرت دنیا بھر میں تھی ۔ آج اُن کی حالت کیا ہے؟ اگر تقسیمِ ہند کے وقت دو ذریعۂ تعلیم تھے یعنی انگلش میڈیم اور اردو میڈیم تو ہماری اولین کوشش ہونی چاہیے تھی کہ یکجا نظا م بنایا جائے اور اِس تفریق کو ختم کیا جائے ۔ ختم کیا کرتے ہم نے ایک تیسرا ذریعہ یعنی مدرسوں والا بنا دیا۔ اور اَب وزیر اعظم روحانی تعلیم کا درس دے رہے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ جس درس گاہ کی اُنہوں نے موضع سوہاوہ کے قریب بنیاد رکھی اُس نے سارا تعلیمی نظام مزید بگاڑ دینا ہے‘ لیکن نوجوان ذہنوں پہ اَثر مثبت نہیں پڑتا جب حکومت کا سربراہ اِس قسم کی باتیں کرے اور پاکستان کی قومی کنفیوژن میں مزید اضافہ کرے۔
پاکستان کا اولین مسئلہ ایک جدید ریاست بنانے کا ہے۔ فرسودہ خیالات کے چنگل کو توڑنے کا ہے نہ کہ پرانی سوچوں میں مزید اضافہ کیا جائے۔