ایک وقت تھا جب اِس موضوع کو یا یوں کہیے اِس خواب کو یعنی انقلاب کے خواب کو ہم بڑی سنجیدگی سے لیتے تھے۔ سمجھتے تھے کہ بس کوشش درکار ہے اور صحیح سوچ رکھنے والوں کا اجتماع۔ کوشش اور تنظیم سے انقلاب کا سُہانا خواب مکمل ہو سکتا ہے۔ فقط وقت کی بات ہے نہیں تو کسی نہ کسی صورت میں انقلاب نے تو آنا ہی ہے۔
ماسکو میں تعیناتی تھی جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مولویوں اور دیگر دائیں بازو کی جماعتوں کی تحریک 1977ء کے موسم بہار میں شروع ہوئی۔ ماسکو میں بہت کچھ کرنے کو ہوتا‘ لیکن وہ سب کچھ کرنے کے ساتھ بی بی سی کی اردو خبریں بھی ضرور سنتا تھا کیونکہ اُن سے پاکستان کے حالات کی خبر رہتی تھی۔ بھٹو کے خلاف نو جماعتی پاکستان قومی الائنس نامی اتحاد برسرِ میدان آیا۔ اِن نو ستاروں کے ساتھ ایک دسواں بھی تھا جو کہ بی بی سی کی شکل میں نمودار ہوا۔ حقیقت سے زیادہ دور شاید یہ رائے نہ ہو کہ بی بی سی کے بغیر وہ تحریک اتنی جلد زور نہ پکڑتی جتنا کہ دیکھنے میں آیا۔ بی بی سی کے ہندوستان کے نمائندہ مارک ٹیلی تھے اور دورانِ مولویوں کی تحریک وہ پاکستان منتقل ہو گئے تھے۔ بی بی سی کی نشریات ایسی ہوتیں کہ گمان گزرتا‘ خبر سے زیادہ وہ دائیں بازو کی جماعتوں کو اُکسار ہی ہے۔ بہرحال اِس بارے میں جو بھی رائے رکھی جائے ماسکو میں بیٹھے میں ستائیس سالہ سفارت خانے میں سیکنڈ سیکرٹری ریڈیو کے ساتھ کان لگائے رہتا اور دیس کی خبروں سے اپنا خون گرمائے رکھتا۔ وہاں دور بیٹھے یہ عجیب خیال بھی ذہن میں آیا کہ یہ موقع ہے کہ اِس دائیں بازو کی آگ میں سے انقلاب کی صورت نکالی جائے۔ مجھ جیسے لوگوں کو بھٹو تب ایک جمہوری لیڈر سے زیادہ فاشسٹ لیڈر لگتے تھے اور کم از کم ماسکو کی تنہائی میں‘ میں یہ سمجھنے لگا تھا کہ بس بھٹو کا گرنا ہو گا اور انقلاب کی راہیں کھل جائیں گی۔
خون اور جذبات گرم ہوتے گئے اور جب 10-9 اپریل کو لاہور میں گولی چلی اور چند اشخاص گولیوں کا نشانہ بنے تو لاہور میں دو یا تین بریگیڈیئروں نے فوج سے استعفیٰ دے دیا‘ اِس بنیاد پہ کہ وہ اپنے عوام پہ گولی چلانے کا حکم نہیں دے سکتے۔ اِن بریگیڈیئروں میں موضع دوالمیال ضلع چکوال کے بریگیڈیئر نیاز احمد بھی تھے۔ یہ واقعہ ہونا تھا کہ میرے نا پختہ ذہن میں سوچ پیدا ہوئی کہ انقلاب کا وقت قریب آن پہنچا ہے اور یہی گھڑی ہے کہ کوئی فیصلہ کیا جائے کہ زندگی بس ویسے ہی گزارنی ہے یا طوفان کے تھپیڑوں میں چھلانگ لگانی ہے ۔ اِس نا پختہ سوچ کے تحت پندرہ اپریل کو میں نے اپنا استعفیٰ اپنے سفیر جناب سجاد حیدر کو دے دیا ۔ مختصر سا میرا خط تھا‘ جس میں میں نے لکھا کہ بھٹو صاحب کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کو مارشل لاء کا خطرہ پڑ چکا ہے اور ایسے میں‘ میں سرکاری نوکری کے فرائض انجام نہیں دے سکتا۔
کچھ دنوں میں لندن کا ٹکٹ کٹوایا اور برطانیہ میں جا کے دو مہینے قیام کیا۔ اس اثناء میں جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پہ قبضہ کر لیا تھا اور بھٹو صاحب قید ہو چکے تھے۔ میں انقلاب کی تلاش میں برطانیہ سے پاکستان لوٹ آیا۔ ماسکو میں میری ایک فوکس ویگن کار تھی جو میں نے دیگر سامان کے ساتھ پاکستان بھجوا دی تھی ۔ برطانیہ سے پاکستان پہنچا تو گو پہلی تلاش انقلا ب کی تھی لیکن یہ بھی ضروری تھا کہ پہلے اپنی گاڑی کسٹم سے چھڑوائی جائے ۔ اس کے لئے کراچی جانا پڑا، گاڑی اور سامان چکوال پہنچ گئے۔ یہ سارا کرنے کے بعد پھر سوچ انقلاب کی طرف گئی کہ کہاں ہے اور اسے کیسے ڈھونڈا جائے۔ جو روایتی سوشلسٹ پارٹیاں تھیں وہ کسی کام کی نہ تھیں اور دل کبھی اُن کی طرف راغب نہ ہوا تھا۔ سو دل میں یہ خیال اُٹھا کہ صحیح انقلابی ہیں تو معراج محمد خان‘ جو کہ بھٹو صاحب کے ساتھی تھے اور جنہوں نے اُن سے علیحدہ ہونے کے بعد اپنی جماعت بنا لی تھی۔ اندازہ کیجیے کہ اِس وقت جب میں اپنے چھوٹے سے باغ کے ایک درخت کے نیچے یہ کالم ڈکٹیٹ کرا رہا ہوں تو اُس عہد آفریں جماعت کا مجھے نام بھی یاد نہیں آ رہا۔ بہر حال معراج محمد خان ، جو اَب اس دنیا میں نہیں ہیں، کو ہم نے خاصا رومانٹاسائز (Romanticise) کر رکھا تھا اور اُن میں ہر وہ خوبی اور خصوصیت دریافت کرنے کیلئے تیار تھے جو ہماری سمجھ میں ایک انقلابی لیڈر... مثلاً ہوچی من یا فیڈل کاسترو... میں ہونا ضروری تھیں۔ پتا چلا کہ معراج محمد خان راولپنڈی آ رہے ہیں۔ اُن کے ایک رشتہ دار کا گھر راولپنڈی صدر کے حیدر روڈ پہ واقع تھا اور وہ جب راولپنڈی آتے تو وہیں قیام کرتے۔ اندازہ کیجیے‘ ہم کن نظروں سے اُن کو ملنے گئے۔ گفتگو سُنی تو اتنے متاثر نہ ہوئے لیکن ہم تو اپنے خوابوں میں قید تھے اور کسی سے متاثر ہوتے یا نہ ہوتے، اُس خواب کے پیچھے چل رہے تھے جس خواب کی ذرہ برابر بھی حقیقت نہ تھی۔ نوکری چھوڑ کے آئے تھے تو بے روزگاری نے آن لیا تھا۔ لیکن اِس کی پروا نہ تھی کیونکہ دل میں یہ خیال اُٹھتا کہ انقلاب کی راہ میں ایسی چھوٹی موٹی دشواریاں تو جھیلنا ہوتی ہیں۔ انقلاب کی تلاش میں اُسی فوکس ویگن میں‘ جسے کسٹم سے چھڑایا تھا‘ کبھی لاہورکی طرف ہو لیتے کبھی کسی اور شہر کی طرف۔
اِتنے میں ایک عجیب بات ہو گئی‘ جس سے ہماری انقلابی جستجو کو خاصا جھٹکا لگا ۔ اپنے ذہن میں بھٹو صاحب کو تو ہم نے فاشسٹ کا لیبل لگا دیا تھا لیکن لاہور کے عوام کی سوچ کچھ اور تھی۔ گرفتاری سے رہائی ملنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پہلی بار لاہور آئے تو یوں لگا کہ پورا شہر اُن کے استقبال کیلئے لاہور ائیر پورٹ کی طرف نکل آیا ہے۔ ضیاء حکومت کے لئے یہ واقعہ ضرور حیران کن ہوا ہو گا‘ لیکن میری حیرانگی شاید اُس سے زیادہ تھی۔ جس فلسفے کے ساتھ میں ماسکو براستہ برطانیہ واپس لوٹا تھا وہ اُلٹ پُلٹ لگنے لگا تھا۔ کہاں فاشزم اور کہاں یہ عوامی سیلاب۔ اور جہاں تک انقلاب کا تصور تھا وہ کہیں دُور دُور تک نظر نہ آئے۔ پوری کی پوری سیاست ایک طرف جھک چکی تھی اور سامنے دو ہی حقیقتیں تھیں: ایک طرف ضیاء حکومت اور اُس کے مدِ مقابل ذوالفقار علی بھٹو۔ تیسری کوئی چیز یا حقیقت سیاسی منظر نامے پہ نہ تھی۔
اِس صورتحال میں ہمارا ذاتی المیہ کچھ زیادہ ہی گمبھیر ہو گیا۔ اچھی بھلی نوکری چھوڑ کے آئے تھے اور جس چیز کی تلاش میں یہ سب کچھ کیا اُس کی حقیقت ایک سراب سے زیادہ کی نہ تھی۔ واپس سروس میں جا سکتے تھے لیکن اپنے من میں اُس سے سُبکی ہوتی۔ لہٰذا اِس ارادے نے دل میں کبھی گھر نہ کیا۔ دیگر کسی کام کیلئے موزوں ہی نہ تھے۔ صحافت کا شوق دل میں تھا لیکن وہ زمانہ صحافت کے لئے غریب زمانہ تھا۔ اخبارات ہی محدود تھے، پورے شمالی پاکستان میں پاکستان ٹائم تھا جو کہ سرکاری اخبار تھا اور نیچے جنوب میں ڈان اخبار۔ لاہور میں البتہ مرحوم مظہر علی خان ایک بائیں بازو کا ہفت روز ہ نکالتے تھے، ویو پوائنٹ۔ وہاں گئے ، آئی اے رحمان صاحب اور پروفیسر امین مغل سے ملاقات ہوئی ۔ لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن اُنہوں نے زیادہ پذیرائی نہ بخشی۔ ایک آدھ مضمون بھی لکھ ڈالا جوکہ فوراً تو نہیں چند ہفتے بعد شائع ہو گیا اور اُس کے چھپنے سے ہم پھولے نہ سمائے۔ پھر اُسی ہفت روزہ میں کچھ سال بعد کالم نویسی شروع کی اور بہت محنت کرتے تھے۔ کئی ایک بار مضمون کو لکھا جاتا ، اُس کی تصحیح کی جاتی ، پھر اپنے ہاتھ سے ایک پرانے ٹائپ رائٹر پہ اُسے ٹائپ کرتے اور اُس کے بعد وہ لاہور دفتر ارسال ہوتا۔ اِس محنت کا پچہتر روپے فی کالم اجر ملتا۔
صحافت کے راستے پہ تو پھر چلتے رہے اور یہی ذریعہ معاش بنا لیکن بیچ میں انقلاب کہیں گم ہو کے رہ گیا۔