میرے گاؤں بھگوال میں میرے اخبارات کچھ تاخیر سے آتے ہیں۔ ڈرائیور لے کے آتا ہے، کبھی موٹر سائیکل پہ کبھی کسی مانگی ہوئی گاڑی پہ۔ دیر تو ہو جاتی ہے۔ چونکہ ٹی وی نہیں دیکھتا نہ دیکھا جاتا ہے لہٰذا معلومات اخبارات سے ہی حاصل ہوتی ہیں۔ کل صبح جب اخبارات آئے تو پھر پتہ چلا کہ ڈالر اور ہماری مجموعی قابلیت کی وجہ سے معاشی اُفق پہ کیا حشر سامانیاں ہو رہی ہیں۔ ایک روز پہلے ہی وزیر اعظم صاحب نے فارن ایکسچینج ڈیلروں کو بلایا تھا اور یہ تلقین کی تھی کہ ڈالر کا ریٹ قابو میں رکھا جائے۔ اُس دن تو ڈالر دو روپے نیچے گیا لیکن ایک دن بعد 146 سے بڑھ کر 148 پر جا پہنچا‘ جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خان صاحب کی حکومت اور اُن کا رعب و دبدبہ کتنا مؤثر ہے۔
معاشی صورتحال کے خونیں مناظر تو اخبارات میں ایک طرف تھے۔ ساتھ ہی وزیر اعظم کی ایک فوٹو چسپاں تھی۔ وہ ایک میٹنگ کی سربراہی فرما رہے تھے اور میٹنگ ایک الف لیلوی داستان کے حوالے سے تھی، ''کامیاب جوان پروگرام‘‘۔ یہ ایسی میٹنگ تھی جس کا سر نہ پیر اور جو موجودہ حالات سے مکمل لا تعلق تھی۔ فوٹو البتہ کمال کی تھی۔ صاف لگ رہا تھا کہ وزیر اعظم کی ہوائیاں اُڑی ہوئی ہیں۔ معیشت غوطے لے رہی ہے اور وزیر اعظم کن کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ جس سے یہ خیال اور پختہ ہوتا ہے کہ معاشی صورتحال اُس کشتی کی مانند ہے جو لہروں کے رحم و کرم سے ہچکولے لیتی کبھی اِس طرف ہو رہی ہے کبھی اُس طرف۔ نہ ملاح ہے نہ ڈیک (deck) پہ کوئی پائلٹ۔
اخبارات کا جزوی مطالعہ کر ہی رہا تھا کہ ہمارے ایک کرم فرما‘ جو کینیڈا میں مقیم ہیں اور جن کو پرانے گانوں سے بہت شغف ہے‘ کی طرف سے WhatsApp پہ وہ پرانا دل کے تار ہلا دینے والا گانا موصول ہوا ''کبھی دل دل سے ٹکراتے تو ہوں گے‘‘۔ گانا شمشاد بیگم اور مکیش نے گایا ہے اور موسیقی نوشاد علی کی ہے۔ میں ڈالر کو بھول گیا، وزیر اعظم کی فوٹو دیکھ کر جو ہنسی آ رہی تھی وہ بھی کہیں گم ہو گئی اور بس اِس گانے کو ایک بار کیا دو تین بار سنتا رہا۔
تو بس اَب یہی کرنا چاہیے۔ صورتحال کسی کے کنٹرول میں ہے نہیں، کم از کم اِس لیاقت بھری حکومت کے کنٹرول میں نہیں۔ معاشی حالات اپنے زور پہ چل رہے ہیں۔ عام لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہی ہو گا۔ اَبھی تو ہم نے صرف ٹریلر دیکھا ہے، اصلی فلم تو باقی ہے۔ ہمیں تو اندازہ بھی نہیں کہ افراطِ زر کہاں تک جا سکتی ہے۔ فی الحال تو رونا کیلے اور لیموں کے بھاؤ کا ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ ایسے میں ایک ہی چیز رہ جاتی ہے کہ موسیقی کا شوق اچھا ہونا چاہیے اور ایسے نغمے سُننے چاہئیں جیسے کہ ہمارے مہربان مسرت احمد ہمیں کینیڈا سے ارسال کرتے ہیں۔ یقین مانیے اِس گانے میں شمشاد اور مکیش کی آواز ایسی ہے اور نوشاد علی کی ترتیب دی ہوئی دُھن بھی ایسی کہ دل پتہ نہیں کن گم گشتہ وادیوں میں کھو جاتا ہے۔ اور تو کچھ ہم یہاں مملکتِ خداداد میں کر نہیں سکتے۔ بہت ساری چیزوں کی ممانعت ہے لیکن موسیقی پہ تو کوئی قدغن نہیں۔ میرے سامنے چوائس ہو کہ ڈالر کے آسمان چھونے والی کہانیاں پڑھوں یا شمشاد اور مکیش کو سُنوں تو ظاہر ہے کہ میری چوائس کیا ہو گی۔
ہمارے ہاں سرکاری حساب کے مطابق افراط زر کہیں نو دس فیصد ہے۔ ارجنٹینا (Argentina) میں افراط زر اس وقت پچاس فیصد ہے۔ وینزویلا نامی ملک میں بیشتر چیزیں دکانوں میں دستیاب ہی نہیں حالانکہ وینزویلا میں وسیع تیل کے ذخائر موجود ہیں لیکن وہاں بھی شاید قابل لوگ بستے ہیں، اُنہوں نے اپنی تیل کی انڈسٹری تقریباً تباہ کر ڈالی ہے۔ پھر امریکہ بھی وینزویلا کا ویری ہے۔ امریکہ وہاں حالات مزید خراب کرنے پہ تُلا ہوا ہے۔ ایسی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے تو ابھی دیکھا ہی کیا ہے۔ ہمارے حالات جیسے ہیں ویسے ہی رہیں تو غنیمت ہے‘ لیکن اِنہوں نے مزید بگڑنا ہے۔ مہنگائی اور ہونی ہے۔ معیشت نے مزید سکڑنا ہے۔ بے روزگاری نے مزید بڑھنا ہے۔ معیشت کی بڑھوتری رک جائے تو نوکریاں آسمان سے اُتریں گی؟ چلم یا حُقہ پینے سے تو ہم رہے۔ اب گانے ہی سُننے باقی رہ گئے ہیں؛ البتہ یہاں بھی ایک مسئلہ درپیش ہے۔ آج کی نسلوں کا موسیقی کا ذوق بے حد خراب ہو چکا ہے۔ جو اُچھل کود کے آج کل کے گانے ہیں اُن سے تو طبیعت میں مزید بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ سکون کی طلب اور اضطراب میں کمی مقصود ہو تو پھر موسیقی کا ذوق بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پچھلے زمانوں کو لوٹنے کا اہتمام لازم ہے۔
مسئلہ ہمارا یہ ہے کہ تیس سال کے عرصے تک ہم جہادوں پہ پلے۔ روسیوں کے خلاف افغانستان میں امریکہ نے ایک جہاد برپا کیا اور ہم اُس جہاد میں سروس کرنے امریکہ کے شانہ بشانہ کھڑے ہو گئے۔ اس سروس کے عوض ہمیں اُس وقت کے حساب سے کچھ ڈالر ملے، کچھ ایف 16 آئے اور ہم جہاد سے پیدا شدہ اپنی مصنوعی حیثیت پہ ناز کرنے لگے۔ ڈالروں اور ریالوں کی وجہ سے جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ملک کی معیشت کو سنبھالا ملتا رہا۔
پھر وہ اچھے دن گئے کیونکہ جہاد کا موسم ختم ہو چکا تھا اور ہم نے مشکل وقتوں کے لئے کچھ بچا کے نہ رکھا تھا۔ کئی سال اس نسبتاً تنگی میں گزر گئے۔ پھر ہماری قسمت بدلی جب9/11 کے بعد افغانستان میں ایک نیا جہاد برپا ہوا۔ امریکہ نے افغانستان پہ حملہ کیا اور اُس جہاد میں بھی ہم شامل ہوگئے۔ پھر سے اپنی مصنوعی حیثیت پر ہم بغلیں بجانے لگے۔ ڈالر آئے، معیشت کو دوبارہ سنبھالا ملا اور ہم جو چھوٹی موٹی عیاشیاں کر سکتے تھے اُن راہوں پہ چل نکلے۔ موبائل فون آئے، گاڑیاں آئیں، موٹر سائیکل عام ہوئے اور جنرل پرویز مشرف کے وزیر خزانہ اور بعد میں وزیر اعظم شوکت عزیز کہنے لگے کہ پاکستان ترقی کی راہ پہ چل نکلا ہے۔ جب وہ جہاد کا موسم گزر گیا اور ڈالر آنے بند ہوئے تو ہم اپنی اصلی حیثیت پہ آ گئے۔ جہاد کے علاوہ اور ہنر ہم نے سیکھا بھی کیا تھا؟ ایسے میں حکمرانوں نے وہی کیا جو وہ کر سکتے تھے، یعنی اِدھر اُدھر سے قرض لینا شروع کر دیا ۔ پہلے بھی مانگے تانگے پہ گزارہ ہوتا تھے لیکن پچھلے دس پندرہ سالوں میں تو سارے پرانے ریکارڈ توڑ دئیے گئے اور قرض کا بوجھ اتنا اپنی کمر پہ لے لیا کہ نہ اونٹ کھڑا ہو سکے نہ کوئی ہاتھی۔
اِسی صورتحال کے مداوے کے لئے عالمی ساہوکاروں کے پاس جانا پڑا ہے۔ اورکریں بھی کیا؟ کیونکہ اور دروازے رہے نہیں دستک دینے کیلئے۔ لیکن ہماری بیچارگی کا اندازہ تو ہو کہ ساہوکاروں سے مانگ بھی رہے ہیں تو کتنی رقم؟ آج کل کے زمانے میں چھ سات بلین ڈالر تو بھن گڑ سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔ ارجنٹینا نے قرض لیا تھا تو تقریباً پچاس بلین ڈالر کا۔ یونان کو یورپی ملکوں نے امداد کی مد میں سو بلین ڈالر سے زیادہ کی رقم دی۔ مانگنا ہمارا جزوقتی پیشہ ہو گا‘ لیکن مانگنا بھی صحیح نہیں آتا۔ یہ تو کوئی جواری بھی بتا سکتا ہے کہ جب ادھار لینا ہو تو بات تبھی بنتی ہے کہ ادھار زیادہ لیا جائے۔ چھوٹے قرضہ داروں کو تو بینک بھی نہیں بخشتے؛ البتہ بڑے قرض دار ہوں تو جیسا ہم متعدد بار دیکھ چکے ہیں قرضہ جات کو معاف بھی کر دیا جاتا ہے۔
کچھ ہمت ہم میں ہوتی، ڈھنگ کے حکمران ہوتے، تو آئی ایم ایف کے سامنے بچھنے کی بجائے اشارے کنایوں سے عندیہ دیتے کہ خزانہ خالی ہے عالمی قرضہ جات کی ادائیگیاں نہیں کر سکتے۔ ارجنٹینا نے ایک سے زیادہ بار قرض پہ ڈیفالٹ کیا ہے ۔ وہاں کوئی آسمان نہیں گرا۔ یہاں کیا گرنا تھا؟ حالات خراب ہوتے لیکن جتنے اب خراب ہیں اِس سے زیادہ کیا ہوتے؟ بجائے ہمارے آئی ایم ایف کے پیچھے بھاگنے کے‘ آئی ایم ایف ہمارے پیچھے آتا۔ لیکن یہاں گھسی پٹی راہوں پہ چلا جا رہا ہے اور وہی کچھ ہم کرنے جا رہے ہیں جو کئی بار پہلے کر چکے ہیں۔ حفیظ شیخ جنرل مشرف کی ٹیم میں کیا نہ تھے؟ پی پی پی کے وزیر خزانہ نہیں رہ چکے؟ تب اگر کچھ کرتب نہ دکھا سکے تو اب کیا دکھائیں گے؟
غربت تو گناہ ہے لیکن اِس سے زیادہ مہلک گناہ کمزوری ہے۔